کرونا وائرس اور حکیم عبداللہ


پہلے تو خداوند سے دعا کا طلبگار ہوں کہ ہمیں کسی امتحان میں نا ڈالے۔ ہم میں سکت ہی نہیں کہ مقابلہ کر سکیں۔ ہم وہ لوگ نہیں ہیں جو کسی مشکل کے وقت اپنی انفرادی ضرورت اجتماعیت پر قربان کریں بلکہ یہی تو وقت ہوتا ہے جب ذخیرہ اندوزی کا صلہ ملتا ہے اور لکھ پتی سے حاجی صاحب اللہ کے فضل کرم سے کروڑ پتی بن جاتا ہے۔

جیسے کی ریاست اللہ داد میں یہ وبائی مرض داخل ہوا ہے ہمارے قومی تجزیہ کاروں  کے پینلز بیٹھ گئے ہیں۔ تو وہیں عجیب و غریب تجزیے سامنے آ رہے ہیں۔ کچھ افراد تو سرجیکل ماسک کی مانگ پر بلیک کرنے والے دکانداروں کو روند رہے ہیں تو کچھ اسے ایرانی سازش سے جوڑ کر سارا ملبہ ایران کے گلے میں ڈال رہے ہیں۔ بہرحال معاملات کو سنبھالنے کے لئے گھبرائیں نہیں صوبائی حکومت نے فوری طور پر دو دن چھٹی کی اجلاس میں ملک کے پائے کے ڈاکٹرز بیٹھے اور فیصلہ کیا کہ صورتحال کو نپٹنے کے لئے تین دن کی چھٹی ہونی چاہیے کیونکہ جمعہ تک تو چھٹی ہے ہفتے کے روز اساتذہ اور بچے بور ہوں گے سو ہفتے کے دن بھی چھٹی کردی جائے اب صوبائی ادارے چار دن چھٹی کرکے کرونا منائیں گے۔

مجھے افسوس تو ہے ہی اور جانتا بھی ہوں کہ ہم کسی بھی بڑی سے بڑی مشکل سے نپٹنے کے لیے صرف قومی سطح پر ہم صرف ”گانا“ ہی بنا سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اگر آپ کی ڈیمانڈ ہے تو ہم دس سے گیارہ منٹ کی کوئی مووی بنا سکتے ہیں! اچھا اگر آپ اتنا ہی اصرار کر رہے ہیں تو ہم دو گھنٹے کے مووی بنا سکتے ہیں۔ اور اگر آپ کو یہ وہم ہے کہ ہم ان لوگوں کے لئے آٹھ دن میں ایک لاجواب اسپتال بنائیں گے تو سن لیں! جب تک آپ کو یہ وہم ہے تب تک باہر چلے جائیں اور کوئی نعرہ نہیں لگانا۔ ٹھیک ہے؟ پہلے ہی ہم نڈھال ہیں کہ پا غفور ہی نہیں رہے جو ٹویٹر پر پاکستان کی طرف میلی آنکھ کو منہ توڑ جواب دیتے تھے۔

اس کے بعد جیسے عام طور پر دیہات میں کوئی بیمار ہوتا ہے تو پہلے خاندان کے فرد اور بعد میں پورا محلہ ڈاکٹر بن جاتا ہے۔ باری باری سب سرجن آتے ہیں مریض سے طبعیت اور کیفیت پوچھتے ہیں اور اپنے علم کے مطابق مشورہ دے کر چائے ٹھنڈا پی کر اور کھانا کھا کر روانہ ہوجاتے ہیں۔ جب مریض کی حالت زیادہ خراب ہوتی ہے تو یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ کرتے تو وہ ہوجاتا۔ خیر ایسے ہی خاندان اور محلے کے ڈاکٹرز پر حکیم عبداللہ کو بڑا غصہ رہتا تھا۔ کیونکہ جب اس کا بیٹا بیمار ہوا تو اس کے علاج پر اتنا خرچ نہیں آیا جتنا طبعیت پوچھنے والوں کی خاطر توازن پر خرچہ آیا۔ ایک دن حکیم صاحب سے کسی نے پوچھا کہ میاں عبداللہ بچے کی طبعیت ٹھیک ہے؟ حکیم صاحب نے جواب دیا کہ ہاں میاں اللہ کا شکر ہے بچہ تو ٹھیک ہے لیکن آنے جانے والوں نے مار ڈالا ہے۔

ان تجزیہ کاروں میں اہل ایمان بھی اپنے پینلز مضبوط کیے بیٹھے ہیں۔ اور مریضوں کو احتیاط کے طور پر مسواک، پانچ وقت وضو، نفل نماز اور مسنون دعائیں تجویز کر رہے ہیں۔ جن کے وظائف سے کرونا جیسی وبائی بیماری کا خاتمہ بتایا گیا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ سعودی عرب نے عمرہ زائرین کے لئے بھی سعودی عرب کے دروازے بند کر دیے ہیں جیسے کوئی مریض سعودی میں داخل نا ہو اور اس وبائی بیماری سے سعودی عرب کے باشندے نبردآزما نا ہوں۔ وہیں کلونجی، دیسی شہد، بھی مفید قرار دے رہے ہیں تو کچھ پھونک والے مولوی کو اس وبا کا نجات دہندہ قرار دے رہے ہیں۔

اس بیچ کچھ لوگ حکیم عبداللہ بنے ہوئے ہیں ان کی بھی کوئی سن نہیں رہا۔ ہمارے علاقے کا ہی تھا حکیم عبداللہ جس کا اوپر تذکرہ کرچکا ہوں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایڈز کا نیا نیا ایشو آیا تھا جس نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ دنیا کے بڑے سائنسدان، ڈاکٹرز ایڈز کے آگے ہاتھ کھڑے کر کہ بیٹھے تھے۔ اور کرہ ارض پر پائی جانے والی مہلک بیماریوں میں سے ایک قرار دی گئی تھی۔

ایسے ہی حکیم صاحب کے ساتھ والی چارپائی پر ایک بندہ اخبار پڑہ رہا تھا اور یہ خبر بھی پڑھی اور افسوس کرنے لگا۔ اور آخر اس نے یہ نیتجہ اخذ کیا کہ یہ بے حیائی سے پھیلنے والی بیماری اللہ کا عذاب ہے اور اس کا علاج ناممکن ہے۔ یہ بات سن کر حکیم عبداللہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی قابلیت کے بنا پر چیلنج کیا کہ ایسا کوئی مرض خدا تعالی نے نہیں بنایا جس کا علاج نا ہو۔ آپ بتائیں اس مرض کی نشانیاں کیا ہیں اور پھیلتا کیسے ہے؟ اس بندے نے حکیم صاحب کی طرف متوجہ ہو کر پوری کہانی بتائی اور بتایا کہ یہ مرض کیسے پھیلتا ہے اور نشانیاں کیا ہیں اس کی۔ جس پر حکیم صاحب نے اپنا عمامہ جھاڑ کر سر پہ رکھ کر بولا ہنننن ایڈز! وزن ہی دو! ایک صبح ایک شام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments