انگریز حکومت اور مدرسوں کے تعلقات: مسلم لیگ کا نظریہ کیا تھا؟


عمیر خلیل صاحب کی تحقیق کے مطابق اس وقت پاکستان میں 35 ہزار سے زائد مدرسے موجود ہیں۔ جب ملک آزاد ہوا تو ان کی تعداد تین سو کے قریب تھی۔ جنرل ضیاء کے دس سے زائد سال کے نفاذ اسلام کے بعد ان کی تعداد 2800 ہو گئی اور 2002 میں یہ مدرسے بڑھ کر دس ہزار کے قریب کی تعداد میں موجود تھے۔ اور اب یہ مدرسے اس سے تین گنا زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔ مسلک کے اعتبار سے دیوبندی مسلک کے مدرسوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد بریلوی اور پھر اہل حدیث مسلک کے مدرسے زیادہ تعداد میں کام کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 35 لاکھ طلباء ان مدارس میں تعلیم پاتے ہیں۔

مدرسوں کا انتہا پسندی سے تعلق ہے کہ نہیں؟ اس بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ان سطور میں اس پہلو پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے بچوں کی ایک بڑی تعداد سکولوں کے بجائے مدرسوں میں داخل ہو رہی ہے اور بہت سی تحقیقات ظاہر کرتی ہیں کہ ان مدرسوں میں داخل ہونے والے طلباء غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مدرسوں کی ایک بڑی تعداد کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے زیر سایہ چل رہے ہیں۔

یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا یہ سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کے لئے ان مدارس میں داخل ہونے والے بچوں کے حقوق تو تلف نہیں کر رہیں؟ یہ ٹھیک ہے کہ ان مدرسوں کو چلانے والی تنظیموں نے ہمیشہ اس بات کو رد کیا ہے کہ حکومت ان کے معاملات میں کسی قسم کا دخل دے لیکن کیا حکومتی ادارے پرائیویٹ تعلیمی اداروں بلکہ یونیورسٹیوں کی نگرانی کا حق نہیں رکھتی؟ کل کو وہ بھی اس بات پر احتجاج شروع کر سکتے ہیں کہ حکومت ہمارے معاملات میں کیوں دخل دے رہی ہے۔

اس سے بھی بڑھ کرکئی مدارس اور حکومت کے درمیان تصادم بلکہ مسلح تصادم کی بھی نوبت آ ئی۔ اسلام آباد میں لال مسجد کا واقعہ تو سب کو یاد ہوگا۔ چند ہفتے قبل اسلام آباد میں دوبارہ اس تصادم کی یاد تازہ ہوئی۔ حکومت نے جامعہ حفصہ کے لئے بیس کنال زمین کا نذرانہ پیش کر کے اپنی گلو خلاصی کرائی۔ خاص طور پر پرویز مشرف صاحب کے دور میں اس بات کا بار بار اعلان کیا گیا تھا کہ مدارس میں ایسا نصاب پڑھایا جا ئے گاکہ یہ طلباء جدید علوم بھی حاصل کریں لیکن مدارس کی تنظیموں نے اس کی ہمیشہ مخالفت کی۔

برصغیر میں مدرسوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ جب انگریز یہاں قدم جما رہا تھا، اس وقت بھی یہاں مدرسے موجود تھے۔ اس وقت کیا یہ مدارس برطانوی حکومت کی دخل اندازی قبول کرتے تھے کہ نہیں؟ ان مدارس اور برطانوی حکومت کے آپس میں کیسے تعلقات تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ برطانوی حکومت ہندوستان میں مدارس کی موجودگی کے خلاف نہیں تھی بلکہ اس نے اپنے دور حکومت میں کئی مدارس کو قائم کیا اور بہت سے مدارس کو مالی مدد بھی دی۔ اور یہ مدارس حکومت سے یہ مدد قبول کرتے تھے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت سب سے پہلے بنگال میں مستحکم ہوئی اور گورنر جنرل وارن ہسٹنگ نے کلکتہ میں عربی مدرسہ جاری کیا۔ اس میں مذہبی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ اور اخراجات کے لئے اس کی مالی مدد بھی مقرر کی گئی۔ جب اس کی حالت کچھ عرصہ کے بعد ابتر ہوئی تو اس میں انتظامات کے لئے یوروپی سیکریٹری بھی مقرر کیا گیا۔ انگلش کی کلاسوں کا اجراء بھی کیا گیا لیکن یہ قدم کافی عرصہ مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کر سکا۔ بعد میں اس مدرسے میں ایک انگریز پروفیسر کونگرانی کے لئے بھی مقرر کیا گیا۔ یہ مدرسہ بعد میں مدرسہ عالیہ کی شکل اختیار کیا گیا۔

(The Indian Mussalmans by WW Hunter p 119۔ 129 )

ہندوستان کی برطانوی حکومت نے صرف کلکتہ کے مدرسے کو ہی مالی مدد نہیں دی بلکہ بعد میں اور بہت سے اہم مدارس کو مالی مدد اور مراعات دی گئیں۔ ان مدارس میں فرنگی محل بھی شامل تھا۔ یہ سلسلہ کم از کم تحریک خلافت کے زور پکڑنے تک چلتا رہا۔ اور اچھے تعلقات کی وجہ سے ان مدارس کے نمایاں علماء نے سلطنت برطانیہ سے وفاداری کے فتاویٰ بھی دیے تھے۔ چنانچہ رشید احمد گنگوہی صاحب دارالعلوم دیوبند کے بانیان میں سے تھے اور مولانا قاسم نانوتوی صاحب کی وفات کے بعد وہ دیوبند کے سرپرست بھی رہے۔ انہوں نے 1898 میں یہ فتویٰ دیا تھا کہ برطانوی حکومت کے خلاف جہاد درست نہیں خواہ اس کی جنگ ترکی کے سلطان سے ہی کیوں نہ ہو رہی ہو۔

(Pan Islam in British India by Naeem Qureshi p 31 )

انگریز حکمرانوں نے جو مدرسوں سے اچھے تعلقات رکھے تھے وہ اس وقت بھی انہیں فائدہ پہنچاتے رہے جب پہلی جنگ عظیم جاری تھی۔ اس وقت مولوی محمد احمد صاحب دارالعلوم دیوبند کے مہتمم تھے۔ حکومت نے انہیں 1915 میں شمس العلماء کا خطاب دیا۔ اور اس کے جواب میں علماء دیوبند نے گورنر جیمز میسٹن کو شکریہ کا ایڈریس پیش کیا تھا اور انگریز حکومت کے تحت مذہبی آزادی کی تعریف کی تھی۔ اور اس ایڈریس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انگریز افسران باقاعدہ مدرسہ دیوبند کا معائنہ بھی کرتے تھے۔

اور اب جو خفیہ ریکارڈ منظر عام پر آیا ہے اس کے مطابق چند ماہ بعد جب مولوی محمد احمد صاحب مہتمم دیوبند کو شبہ ہوا کہ ان کے ایک استاد محمود حسن صاحب ترکوں سے تعلقات رکھ رہے ہیں تو انہوں نے خفیہ طور پر حکومت کو اس کی اطلاع کی تھی۔ اس بناء پر محمود حسن صاحب کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ اگرچہ محمود حسن صاحب نے اس بات سے مکمل طور پر انکار کیا تھا کہ وہ برطانوی حکومت کے خلاف کوئی سازش کر رہے تھے۔

( The Indian Muslims by Shan Muhammad vol 5 p 46۔ 53 )

ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ اگر مدارس میں برطانوی حکومت کی مداخلت قبول کی جا سکتی ہے۔ ان سے تعاون کیا جا سکتا ہے اور ان کے افسران مدارس کا معائنہ کر سکتے ہیں تو پاکستان کی بیچاری حکومتوں نے کیا قصور کیا ہے کہ جب کبھی حکومت یہ بات کرے کہ مدارس کے نصاب میں تبدیلی ہونی چاہیے، ان کی نگرانی ہونی چاہیے یا کم از کم کم عمر بچوں کا نصاب حکومت کی پالیسی کے مطابق ہونا چاہیے تو حکومت کے خلاف طوفان کھڑا کر دیا جائے اور اسے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا جائے۔

ہر ملک کے لوگ مختلف مسائل کے حوالے سے اپنے بانیان یعنی founding fathers کے نظریات کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مدارس کے بارے میں 1916 میں آواز بلند کی گئی تھی۔ یہ پہلا سال تھا جب قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی صدارت کی تھی۔ اس میں ڈھاکہ کی یونیورسٹی کے بارے میں جب بحث ہوئی تو تجویز پیش کرنے والے سید نواب علی چوہدری صاحب نے کہا کہ مشرقی بنگال میں بہت سے مسلمان طلباء عربی مدارس میں تعلیم پاتے ہیں۔

ہم نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ ان مدارس کے نصاب میں انگریزی علوم کو بھی شامل کیا جائے تاکہ طلباء ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اور جب وہ جب وہ مدارس سے فارغ ہوں تو اس تعلیم کی بناء پر اس قابل ہوں کہ ڈھاکہ کی یونیورسٹی میں تعلیم پا سکیں۔ حکومت یہ یونیورسٹی بنانے میں تاخیر کر ہی ہے۔ اس طرح تو ان مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء یونیورسٹی کی تعلیم سے محروم رہ جائیں گے۔ یہ ہے وہ نظریہ جو ہمارے ملک کے بانیان نے پیش کیا تھا کہ مدارس میں تعلیم کیسی ہونی چاہیے؟

( The Works of Quaide Azam by Dr۔ Riaz Ahmad vol 3 p 486 )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments