کیا ہم ڈرتے ہیں عورت کی آزادی سے؟


درحقیقت ہم عورت کی آزادی سے ڈرتے ہیں، ہم عورت کی آواز سے خوفزدہ ہیں، ہم ڈرتے ہیں عورت کے آئینی، شرعی و اخلاقی حقوق سے، ہمیں خوف ہے حوا کی بیٹیوں کے شعور سے، ہمیں ڈر ہے کہ کہیں کل وہ ہم حضرات سے آگے نہ نکل جائیں، ہمیں یہ بھی خوف ہے کہ کل کو وہ ہمارے کاندھوں سے کاندھا ہی نہ ملا لیں، جی ہاں! ہمیں شدید خوف ہے ان حوا کی بیٹیوں کی آزادی سے۔

پاکستان سمیت پوری دنیا میں 8 مارچ عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اسی اثنا میں سندھ میں گذشتہ برسوں سے عورت آزادی مارچ منعقد کرکے یہ پیغام پہنچایا جاتا ہے کہ ”ہمیں بھی ایک فرد جیسی آزادی دی جائے“ عورتوں کو اپنے حقوق سے بیدار کرنے کے لئے مختلف شہروں میں سیمینار اور تقریبات مقرر کی جاتی ہیں۔

اس سال عورت آزادی مارچ سکھر میں منعقد کیا جارہا ہے، سکھر سندھ کا تیسرا بڑا شہر ہے، کراچی اور حیدرآباد کے مقابلے میں یہ شہر سیاسی و سماجی تحریکوں میں کچھ پیچھے نظر آتا ہے، دیہی سندھ میں عورتوں کو ان کے حقوق سے متعلق بیدار کرنے اور سماجی شعور کی آگاہی کی خاطر شاید اس دفعہ عورت آزادی مارچ کے لیے سکھر شہر کا چناؤ کیا گیا ہے۔

پر جوں ہی اس آزادی مارچ کی روح رواں ڈاکٹر عرفانہ ملاح، امر سندھو و دیگر خواتین سکھر شہر اور آس پاس کے اضلاع میں اس مارچ کی آگاہی مہم کے سلسلے میں عورتوں کے پاس اپنا پیغام پہنچا رہی ہیں عین اسی وقت مذہب کے نام نہاد ٹھیکیدار اور فرسودہ سوچ والے مولوی حضرات نے اس مارچ کو اسلام مخالف قرار دے کر عورتوں کا راستہ روکنے کا اعلان کیا ہے۔

جے یو آئی سندھ نے اپنی دقیانوسی سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے اس مارچ کی آرگنائزرز کے خلاف غلط الفاظ استعمال کیے گئے اور نہ صرف یہ بلکہ اس مارچ کے متعلق اپنے فتوے تک جارے کردیئے ہیں، معاملہ صرف یہیں تک ختم نہیں ہوتا بلکہ سوشل میڈیا پر جماعتی کارکنان کی طرف سے آزادی مارچ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، عورتوں کو دھمکیاں تک دی جارہی ہیں اور اس مارچ کو لے کر سخت نتائج بھگتنے کی دھمکیاں تک موصول ہو چکی ہیں۔

در حقیقت جی یو آئی نے یہ سارے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرکے اپنی عورت دشمن ہونے کی عکاسی کی ہے، وہ عورت کی آزادی اور آواز سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ اس مارچ کو مشکوک بنانے کے لیے مذہب کا سہارا لیے بیٹھے ہیں اور لوگوں کو ورغلانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں، دین اسلام میں عورت کو بھی اتنے ہی حقوق حاصل ہیں جتنے ایک مرد کو، مرد کسی صورت عورت سے بہتر نہیں، حضور اکرم نے بھی عورتوں کے حقوق کی بار بار تاکید کی ہے، تو یہ مولوی کون ہوتے ہیں ہمارے دین کی غلط تشریح کرنے والے؟

یہ نام نہاد مولوی خوفزدہ ہیں کہ اگر واقعی عورت آزاد ہو گئی تو ان کا یہ جعلی منجن کون خریدے گا، وہ خوفزدہ ہیں کہ دیہات کی عورت کو اگر شعور آگیا تو وہ ان کے دقیانوسی اور فرسودہ سوچ کے خلاف بغاوت کر دیں گی، یہی وجہ ہے کہ اس عورت آزادی مارچ کو روکنے کی، مولوی حضرات کو چاہیے کہ ہمارے دین اسلام کا غلط استعمال کرنے کے بجائے دوسرا راستہ جاکر تلاش کریں کیونکہ اب ان یہ منجن بہت پرانا ہوچکا ہے اور سندھ کے لوگوں اب باشعور ہو چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments