طاہرہ سرا : شاعری اور بہادری ہی خوبصورتی ہے


چلو مان لیا کچھ لوگ بہادر ہوتے ہیں اور ان میں چند بہت ہی بہادر مگر اتنی بھی بہادری کیا کہ ان کو دیکھ اکھاڑے میں کھڑے پہلوان بھی ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جائیں، کچھ سجادہ نشیں ان کی آواز سے کانپ اٹھیں، پورے محلے کو سر پہ اٹھانے والے مولوی صاحبان کے ایکوساؤنڈ اسٹائل گلے اس کے الفاظ سے خشک ہوجائیں۔

مان لیا کچھ لوگ بولتے ہیں تو ان کی باتوں سے پھول جڑتے ہیں، مگر ایسا بھی کیا کہ وہ پہنچیں اور مسکرادیں تو فضا معطر ہوجائے۔ نامور دانشور اور الفاظ گر ان کے محفل میں آتے اپنی دانش کی پوٹلیوں کو کھنگالنا شروع کردیں، اور وہ نئیں استعاروں کو ترستے رہیں۔

سوشل میڈیا کا ہماری نسل پر یہ احسان ہے کہ پہلے ہم ایک دوسرے کے خیالات سے ملتے ہیں بعد میں افراد سے، اس سے جہاں بات کرنے میں آسانی ہوتی ہے وہاں بات سمجھنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔

لاہور میں فیض امن میلہ۔ 2020 کی تقریب اس وقت اپنی عروج پر تھی جب دوسرے کئی شعراء کے ساتھ طاہرہ سرا مشاعرہ میں شرکت کے لئے پہنچیں، مشاعرے سے پہلے اور بعد میں ان سے بات ہوئی۔

آپ کو ڈر نہیں لگتا؟ پہلا سوال تھا

”مجھے پتا نہیں ڈرنا کس کو کہتے ہیں۔ “ طاہرہ نے بغیر سوچے ہی جواب دے دیا۔

”تو باقی لوگ کیوں لکھتے اور بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں؟ “ ضمنی سوال تھا

”شاید وہ نہیں جانتے کہ ڈرنا نہیں چاہیے۔ “ طاہرہ نے جواب دیا۔

طاہرہ سرا اس پدرزاد سماج کے اندر عورت کی بہادری کا ایسا استعارہ ہیں جو باقی عورتوں کو جگانے کے بجائے مرد کو خبردار کرتی ہے کہ عورت ایک ایسا ہی فرد ہے جیسے کے کوئی مرد، وہ آدھی، پونی، سوا اور ڈھائی کو تو مانتی ہی نہیں۔ برابری اور سراسری کے بنیاد پر بات کرنے سے لے کر آواز کی اونچائی بھی اتنی ہی رکھتی سکتی ہیں جتنی کوئی مرد۔

مگر ”فیض امن میلے“ میں طاہرہ سرا نے تمام طاقتوں کے نئے میزان مقرر کیے، انہوں نے شکوہ کرتے ایسی استادی کا مظاہرہ نہیں کیا کہ پہلے ہاتھ ہولا رکھے اور خود اپنے سوالات میں جوابات پنہاں کر کے پھر جواب شکوہ لکھتے جان بھی چھڑا لے اور کچھ افاقہ بھی ہو جائے۔

کعبے چوں تے نکل گیا ایں

اجکل کتھے رہندا ایں؟

سنیا سی شہ رگ دے نیڑے،

ہر اک دی شہ رگ دے نیڑے؟

نہ ظالم دی گچی گھٹیں

نہ مظلوم دا ساہ بن دا ایں

شہ رگ نیڑے کردا کیہ ایں؟

تیرے وس دا روگ نہیں

ساڈی شہ رگ چھڈ دے

پتا تے ہووے

ساڈا اللّٰہ وی نہیں وارث

سندا ایں نہ ویہندا ایں

اجکل کتھے رہندا ایں؟

کہتے ہیں طاہرہ سرا اپنا کلام سنانے کے لئے اسٹیج پر آتے ہی صرف مسکرادیتی ہیں اور محفل کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔

”کیا آپ کبھی سندھ میں رہی ہیں؟ “ اسٹیج سے اترنے کے بعد بہت زیادہ رش میں طاہرہ سرا سے پھر ملنے کی کوشش کی۔

نہیں تو۔ جواب

”تو کیا آپ نے کبھی سندھ میں مشاعرہ پڑھا ہے؟ “ دوسرا سوال پوچھا

”نہیں! ابھی ایسا موقع نہیں ملا:“ سرا نے کہا

تو آپ وسط پنجاب میں بیٹھ کر سلطنت و گل و بلبل کی بات کرنے کے بجائے اتنی بہادری سے اس لہجے میں ایسی بات کیسے کرسکتی ہیں۔ حیران ہونا تو بنتا ہے۔

”پنجاب جب بھی پنجابی میں بولتا ہے تو ایسے ہی بولتا ہے، جس مزاج نوں تسی بہادری سمجھ رئے او پنجاب دی جٹی عورت دے خمیر اچ شامل اے۔ “ سنا بات پر یقین آیا کہ طاہرہ سرا ہمیشہ سخت بات بھی مسکراتے ہوئے کرتی ہیں، سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں، صرف سننے اور دیکھنے والے بہک جاتے ہیں۔

پنجاب کے وارث حضرت وارث شاہ صاحب کی ہیر سننے کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ ”بہادری واقعی پنجاب کی جٹی کے خمیر میں شامل ہے، جو ایک ہی وقت میں سماج کے تمام تر نا انصافیوں، توہمات، غلط روایات، قاضیوں، کیدوؤں، ملاؤں، چودھریوں سے لے کر خود اپنے اندر کے ڈر سے لڑتی رہتی ہیں۔ “

ساری عمر پنجابی بولی اور ثقافت کی ترقی کے لئے کام کرنے والے جمیل پال کا کہنا ہے کہ ”ہیر ہی پنجاب میں عورت کی بہادری والے کردار کی اصل نمائندہ ہے، پنجاب کی عورت اس خطے میں سب سے زیادہ محنتی، جفاکش، مضبوط اعصاب کی مالک، بہادر اور ذہین ہے۔ پنجاب کو زرخیز، سرسبز اور صدیوں سے ترقی یافتہ بنانے میں جتنا مرد کا کردار ہے اس سے زیادہ پنجابی عورت کا کردار ہے، پنجاب کی عورت جب بھی آگے بڑہی ہے منزل سے پہلے نہیں رکی۔ “

طاہرہ سرا کے بارے لکھنے والوں نے اگر اسے جدید پنجاب کی ہیر سے تشبیہ دی ہے تو بالکل درست دی ہے۔ اس کی بات، لہجے اور انداز سے بھی لگتا ہے کہ جدید دور کی ہیر ایسی ہی ہونی چاہیے۔ موجودہ دور کے تمام تر نا انصافیوں، توہمات، غلط روایات، قاضیوں، کیدوؤں، ملاؤں، چودھریوں سے لے کر خود ممبر کے سامنے کھڑی ہوکر گر کوئی بات کرسکتی ہے تو وہ طاہرہ سرا ہیں۔

میں وارث دی ہیر سلیٹی

نالوں کوئی گھٹ تے نہیں

اوہو چالے اوہو حیلے

قاضی دے تے کیدو تے

نی میں پگ تھلے آکے مرگئی

کسے نے میری کوک نہ سنی

کہتے ہیں بہادری کی سب سے اونچی اور ارفع نشانی بولنا ہے، اگر آپ بول سکتے ہیں، سچ بول سکتے ہیں اور سامنے بھی بول سکتے ہیں تو آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں، اور اپنی زبان میں بولنا تو کمال ہی ہوتا ہے۔ اس وقت پنجاب کی موجودہ سیاسی اور سماجی صورتحال میں تو پنجاب میں رہ کر خود پنجابی میں بولنا، لکھنا اور پڑہنا بھی کمال بہادری ہے، اور طاہرہ سرا اس قبیل سے ہیں جو ماں بولی میں لکھنے اور پڑہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

پیار تے سب نوں ہوندا اے

ہوندی نہیں دلیری بس

میری من تے اپنی اپنی راہ لیے

کی کہنا ایں، جِنی ہوئی، بتھیری نئیں؟

طاہرہ سرا کو سندھ کے ادبی حلقے میں بہت پسند کیا جاتا ہے، اس کی دو اہم وجوہات ان کا بہادری سے خیالات کا اظہار کرنا اور خود اپنی زبان میں اظہار کرنا ہے۔ موجودہ دور میں اس سماج کے اندر سب سے زیادہ مشکل کام انکار کرنا ہے اور طاہرہ سرا یہ کام اتنی آسانی سے کرلیتی ہیں کے ماننا مشکل ہوجاتا ہے۔ ان کا اپنا کہنا ہے کہ ”انکار میری گڑھتی وچ سی، نکیاں ہوندیاں ویراں دے مارن تے ماں کہندی“ کوئی گل نہیں ویر اے تیرا ”تے میں پٹ اٹھدی۔ ویر اے تے میں کیہ کراں؟ میں وی تے بہن آں۔ معصوم ذہن چ سوال اٹھدے رہے۔

میں ای کیوں؟ میرے نال ای کیوں؟ صبر میں ای کیوں کراں؟

نکے نکے ہتھہ سڑدے سڑاؤندے ونگیاں چبیاں روٹیاں ویلن لگ پے، روٹیاں گول ہویاں تے دنیا وی سوہنی لگن لگ پئی، سوھن شعراں چوں جھلکیا تے میں ڈر گئی، سارا وجود اکھہ بن گیا تے میں اوہ ویکھن لگ پئی جو دوجے نہیں سن ویکھہ سکدے، اکھاں تے لال پٹی بجھی تے میں اپنے ہاسے، ہنجو، چیکاں شاعری چ دبن لگ پئی۔ ”

”شیشا“ اور ”بولدی مٹی“ جیسے کتابوں کو جنم دینے والی طاہرہ سرا اپنی تمام غزلوں، نظموں اور ہر لکھے لفظ کی ایک ماں کی طرح نہ صرف سنبھال کر رکھتی ہیں مگر مکمل طور پر ان الفاظ پر قائم بھی رہتی ہیں۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ مکر جانا تو ان کا مسلک ہی نہیں۔

گھٹ صبر دا بھریا جاوے

کد تک موہرا پھکیا جاوے

ادھی نہیں میں پوری ہو گئی

نہیں لکھیا تے لکھیا جاوے

گل ہووے تے پیار دی ہووے

یا چپ کر کے بیٹھا جاوے

میرے وچ میں آپ نہیں ٹکدی

تینوں کتھے رکھیا جاوے

میں تے انگل پھڑ سکدی آں

جے اوہدے توں ٹریا جاوے

اوہنے میرے پنڈ چوں لنگھنایں

لنگھدا اے تے، لنگھدا جاوے

میرے وچ وی دل ہیگا اے

ایہدا وی کجھہ کیتا جاوے

طاہرہ سرا کا انداز بیان بھی کمال ہے، سینکڑوں یا ہزاروں تماشائیوں کے سامنے جب وہ اپنا کلام پیش کرتی ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے پورے پنجاب اور پاکستان کو سنا رہی ہوں، اور کھری کھری سنا دینے میں بھی طاہرہ سرا کو جو ملکہ حاصل ہے وہ کسی اور نہیں۔

اوہنے جیہڑے غصے دے وچ کیتے نیں

سارے میسج نظماں کر کے رکھ داں گ ی

ہن جے مینوں جنت وچوں کڈھیا تے

سبھے فصلاں کنکاں کر کے رکھ داں گی

طاہرہ سرا کا شمار اس وقت پنجابی زبان کے صف اول کی شعراء میں ہوتا ہے، وہ ملک کے اندر اور دنیا کے کئی ممالک میں اپنا کلام پیش کر چکی ہیں، خاص طور پر چڑھدے پنجاب میں ان کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ طاہرہ سرا اور اس کے ہم عصر شاعر پنجاب میں مشکل دور میں مشکل ترین کام کر رہے ہیں، وہ ہے پنجاب کے لوگوں کو راضی کرنا کہ

اپنی مان بولی نوں بھل جاوو گے

ککھاواں وانگوں رل جاوو گے (نامعلوم)

پنجاب میں پنجابی بولی کے مستقبل کے حوالے سے شاعر اور دانشور افضل ساحر کا کہنا ہے ”جو کام دل سے کیا جائے وہ مشکل نہیں ہوتا، پنجابی بولی اس دھرتی کی پیداوار ہے، تاریخ کی کتاب میں ایک سو سال ایک صفحے سے زیادہ نہیں ہوتے، وہ وقت قریب ہے جب پنجاب میں پھر پنجابی بولی کا ڈنکا بجے گا، آج کا شاعر اور دانشور صرف اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments