نامور فلمی شخصیت جناب سُرور بارہ بنکوی


مشرقی پاکستان کی پہلی کمرشل اُردو فلم ”چندا“ کے کہانی نویس اور گیت نگار
’ اک چراغ کیا جلا سو چراغ جل گئے‘
اور
’ بھری دنیا کو ویراں پاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے‘
جیسے گیتوں کے خالق

آخری دم تک فلم و ادب کی خدمت کرنے والے
فلمساز، کہانی نویس، گیت نگار اور ہدایتکار
مشرقی پاکستان کی فلمی دنیا کے ہر دل عزیز
اپنے دور کے ترجمان
سُرورؔ بارہ بنکوی
( 1919 سے 1980 )


ترجمانی کی ہے اپنے دور کی میں نے سرورؔ
میرا فن ہے عکس میرے عہد کی تصویر کا

اور

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

یہ اشعار سید سعید الرحمان المتخلص سُرورؔ کے ہیں۔ چونکہ یہ بارہ بنکی، یو پی کے رہنے والے تھے چنانچہ بارہ بنکوی کہلائے۔

سُرورؔ، بارہ بنکی کے قریب پیارے پور میں 30 جنوری 1919 کو پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت لکھنو اور علی گڑھ میں ہوئی۔ اِن کے تمام تذکروں میں یہ بات ملتی ہے کہ 17 برس کی عمر ہی سے شعر کہنا شروع کر دیے۔ کسی محفل میں جگرؔ مرادآبادی نے اِن کو سنا۔ جگرؔ نے نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ راہنمائی بھی کی۔ اُس زمانے میں شعراء کا بھارت سے پاکستان مشاعرہ پڑھنے کے لئے آناکوئی مسئلہ نہیں تھا۔ جگرؔ اکثر بھارت سے پاکستان آیا کرتے تھے۔

1951 میں ایسے ہی ایک مشاعرے میں وہ سُرورؔ کو اپنے ساتھ ڈھاکہ لے گئے۔ وہاں اُن کا تعارف مشاعرے کے منتظمین اور دوسروں سے کروایا۔ جگرؔ کا اپنا ایک مقام تھا۔ اُن کا ایک نئے شاعر کا تعارف کرانا بڑی بات تھی مشرقی پاکستان میں سُرورؔ کو بہت پذیرائی ملی۔ اسی طرح کے ایک اور مشاعرے میں وہ 1952 میں دوبارہ ڈھاکہ گئے۔ یہاں اُن کی ملاقات بابائے اُردو مولوی عبدا لحق ؒ ( 1870 سے 1961 ) سے ہوئی۔ انہوں نے سُرورؔ کو ’انجمنِ ترقی اردو‘ ڈھاکہ کے جنرل سکریٹری کی پیشکش کی۔ یہ ایک بڑا اعزاز تھا۔ سُرورؔ نے قبول کر لیا اور اپنے گھر والوں کو بھی بھارت سے بلوا لیا۔

مجھے پاکستانی فلمی صنعت کی ایک معتبر شخصیت، مصنف، اسکرین پلے اور مکالمہ نگار، فلمساز اور ہدایتکار علی سفیان آفاقیؔ نے بتلایا کہ سُرورؔ اکثر کہا کرتے تھے : ”جگرؔ مرادآبادی اور بابائے اُردو نے مجھ پر خاص توجہ کی۔ جگرؔ تو ابتدا میں بڑے بڑے مشاعروں میں خود لے کر گئے“ ۔

ڈھاکہ میں سُرورؔ نے ایک ادبی جریدہ ’قلمکار‘ کے نام سے جاری کیا۔ اِن کے تذکروں سے علم ہوتا ہے کہ محض ایک ہی شمارہ شائع ہو سکا۔ اس کی ناکامی کے اسباب پر اب تک پردہ پڑا ہوا ہے۔ اس کے بعد ’آب و گُل‘ جاری کیا۔ اس کی پھر مزید کوئی تفصیل نہیں ملتی کہ یہ کب تک چلا۔ البتہ چند سال بعد ڈھاکہ کی فلمی صنعت کے ذریعے قسمت، شہرت اور دولت خود چل کر سُرورؔبارہ بنکوی کے دروازے پر آئیں۔

سرور، ؔ سرورؔ بنتے ہیں

ہوا یوں کہ فلمساز و ہدایتکار کیپٹن احتشام ( اداکار ندیم کے سسر) مشرقی پاکستان میں اردو فلم بنانے کا سوچ رہے تھے۔ یہ 1962 کا زمانہ تھا۔ کسی نے ’انجمن ترقی اردو‘ سے رابطے کو کہا۔ کیپٹن احتشام نے انجمن ترقی اردو کے دفتر میں آ کر جس شخصیت سے رابطہ کیا وہ سُرورؔ بارہ بنکوی خود تھے۔ اس طرح ڈوسانی فلمز کی فلم ”چندا“ کی کہانی اور گیت سُرورؔ نے لکھے۔ مذکورہ فلم 3 اگست 1962 کو نمائش کے لئے پیش کی گئی۔ اداکار رحمان، اداکارہ شبنم، موسیقار روبن گھوش، کہانی نویس اور گیت نگار سُرورؔ بارہ بنکوی پہلی مرتبہ اس فلم کے ذریعے فلمی دنیا میں آئے۔ فلم ”چندا“ مشرقی پاکستان کی پہلی کمرشل اُردو فلم تھی۔ اس فلم کو 1962 کی بہترین اُردو فلم ہونے کا نگار ایوارڈ حاصل ہوا۔ اداکارہ شبنم کو بھی اسی فلم میں سال کی بہترین اداکارہ کا نگار ایوارڈ مِلا۔

کیپٹن احتشام کے چھوٹے بھائی مصطفیض الحق بھی مشرقی پاکستان میں اُردو کامیاب فلمیں بنانے میں پیش پیش رہے۔ اِن کی چند فلمیں یہ ہیں : سُپر ہِٹ فلم ”تلاش“ ( 1963 )، پاکستان کی پہلی رنگین سنیما اسکوپ فلم ”مالا“ ( 1965 ) جو ڈھاکہ میں بنی، گولڈن جوبلی فلم ”چھوٹے صاحب“ ( 1967 ) ، ہِٹ فلم ”قلی“ ( 1968 ) وغیرہ۔

ڈھاکہ فلمی دنیا کی ہر دلعزیز شخصیت بننے کا راز

بات سُرورؔ صاحب کی ہو رہی ہے۔ وہ ڈھاکہ فلمی دنیا میں جلد اپنی منفرد جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ جیسا خود سُرورؔ نے کہا کہ ’اک چراغ کیا جلا، سو چراغ جل گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ پہلی فلم ”چندا“ کیا بنی، اس کے بعد تو ڈھاکہ میں اُردو فلمیں بننے لگیں۔ وہاں کے فلمساز مغربی پاکستان میں آ کر بھی فلمیں بنانے لگے۔ ڈھاکہ کی اُردو فلموں کے زیادہ تر گیت سُرورؔ ہی لکھا کرتے۔

بعد میں اور لوگ بھی آئے جیسے اخترؔ یوسف۔ لیکن جِس قسم کی محنت سُرورؔ کرتے تھے شاید کسی اور کے لئے ممکن نہ تھا۔ وہ کیا؟ اِس کا جواب علی سفیان آفاقیؔ کی زبانی سنیے : ”سُرورؔ صرف گیت نگار ہی نہیں تھے۔ اداکاروں کی ریہرسل میں بھی اِن کوبلوایا جاتا کہ مکالموں کی ادائیگی کیسے کرنا ہے؟ الفاظ کا صحیح تلفظ کیا ہو وغیرہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان کی ذمہ داری نہیں تھی لیکن وہ بہت ذوق و شوق سے یہ سب کام کرتے تھے۔ جلد ہی وہ ڈھاکہ فلمی دنیا کی مصروف ترین اور ہر دل عزیز شخصیت بن گئے“ ۔

اِس قسم کی ان تھک محنت وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا فلم نگر بن جائے۔ اور وہ شخص لاکھوں میں ایک ہی ہوتا ہے۔ میرے مطابق اُس وقت ڈھاکہ میں واحد یہی سُرورؔ بارہ بنکوی نظر آتے ہیں جو ایسا کام کر رہے تھے۔ خاکسار 2008 سے 2011 تک لاہور کے ایک ٹی وی چینل سے منسلک رہا۔ میں ہفتہ میں ایک مرتبہ علی سفیان آفاقی ؔ صاحب کے دفتر جایا کرتا تھا۔ یہ نوائے وقت گروپ کے رسالے ’فیملی میگزین‘ کے ایڈیٹر تھے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے :

” یہ 1971 کے بعد کا زمانہ ہو گا جب میں اپنی فلم ’آس‘ ( 1973 ) فلمساز اور ہدایتکار کی حیثیت سے بنا نے کا سوچ رہا تھا۔ مجھے ایک بہت بڑا مسئلہ درپیش تھا جو سُرورؔ نے حل کیا۔ فلم میں ہیروئین کا کردار میرے خیال میں صرف شبنم ہی کر سکتی تھی۔ میں نے خود اور پھر دیگر فلمساز اور اسٹوڈیو مالکان سے ڈھاکہ میں شبنم سے اس کردار کے لئے ہاں کروانے کی کوشش کی لیکن کوئی بات نہیں بنی۔ تب مجھے سُرورؔ کا خیال آیا۔ میں نے اُن سے بات کی۔ قصہ مختصر یہ کہ شبنم اُن کے کہنے سے اس کردار کو کرنے پر راضی ہو گئی۔ میری یہ فلم سُپر ہِٹ رہی“ ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments