افغان امن معاہدہ ، توقعات خدشات


اٹھارہ مہینوں کی مسلسل کوششوں کے بعد بالاآخرامریکہ اور افغان طالبان کے درمیان تشدد میں کمی کا معاہدہ طے پانے کے بعد اس پر فریقین کی طرف سے کافی حد تک عمل درامد کیا گیا ۔ افغانستان سے موصولہ اطلاعات کے مطابق گزشتہ چھ دنوں کے دوران ملک بھر میں کسی قسم کا کوئی بڑا تشدد کا واقعہ پیش نہیں آیا جس سے بظاہر لگتا ہے کہ فریقین سات روزہ عبوری معاہدے کو کامیاب بنانے کی بھرپور کوششیں کررہے ہیں۔

بالخصوص طالبان کی طرف سے اس ضمن میں خصوصی اقدامات لئے جارہے ہیں جسکی تفصیلات وہ وقتاً فوقتاً صحافیوں کو بھی بھیجتے رہے ہیں۔ طالبان کی طرف سے اب تک میدان جنگ میں بر سر بیکار کمانڈروں کو دو مرتبہ ایسے پیغامات بھیجے گئے ہیں جس سے لگتا ہے کہ شدت پسند تنظیم معاہدے پر پوری طرح کاربند رہنا چاہتی  ہے۔

اس کے علاوہ امریکہ نے بھی حالیہ دنوں میں کچھ ایسے اشارے دیئے ہے جس سے بظاہر لگ رہا ہے کہ وہ بھی حقیقی طورپر اس عمل کی کامیابی سے ہمکنار دیکھنا چاہتا ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر طالبان نے تشدد میں کمی کرنے کی بھر پور پاسداری کی تو انکی خواہش ہوگی کہ وہ خود امن معاہدے پر دستخط کردے یعنی باالفاظ دیگر ان کے دستخط سے امن معاہدہ جاری ہونے میں انہیں خوشی ہوگی۔

اگر امریکہ اور طالبان کے مابین واقعی امن معاہدہ طے پاتا ہے تو یہ افغانستان کی گزشتہ چالیس سالا تاریخ میں یہ ایک بڑی پیش رفت ثابت ہوگی۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ جو اصل مرحلہ ہے اس کا یہی سے آغاز ہوگا۔ یہ اہم مرحلہ بین الاافغان یا طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مزکراتی عمل کا ہوگا جس کے بارے میں پہلے سے کئی قسم کے خدشات پائے جاتے ہیں۔

تاہم حالیہ دنوں میں ان خدشات میں مزید اضافہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب امریکہ اور طالبان کے مابین عبوری جنگ بندی پر ابھی صلاح و مشورے جاری تھے کہ افغان صدارتی انتخابات کی حتمی مرحلے کا اعلان کیا گیا جس میں موجودہ افغان صدر ڈاکٹراشرف غنی پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب قرار دیئے گئے۔ لیکن توقع کے عین مطابق اشرف غنی کے سب سے بڑے مخالف امیدوار ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ نے نہ صرف نتائج ماننے سے انکار کردیا بلکہ اس سے بھی چند قدم آگے بڑھتے ہوئے ’ متوازی’ حکومت بنانے کا اعلان کردیا ۔ ڈاکٹر عبد اللہ نے چند صوبوں کےلیے اپنے گورنروں کو بھی مقرر کر دیا ہے جس سے مزید انتظامی پیچیدگیاں سامنے آرہی ہیں۔ ڈاکٹر عبد اللہ اور ایک اور صدارتی امیدوار انجنئیر گلبدین حکمت یار گزشتہ سال سمتبر میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔

تاہم جب تک اشرف غنی اور عبد اللہ کے درمیان معاملات حل نہیں کرائے جاتےاس وقت تک بین الاافغانی مزاکرات پر خطرے کے بادل منڈلاتے رہیں گے۔ اب تک کچھ ہی ممالک نے اشرف غنی کو صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے جبکہ امریکہ جس کا اس معاملے پر اہم کردار بنتا ہے، مکمل طورپر خاموشی اختیار کیا ہوا ہے جس سے اشرف غنی کی کامیابی کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔

بین الاافغان مز اکرات کی کامیابی کےلیے طالبان قیدیوں کی رہائی بھی ایک اہم شرط سمجھی جاتی ہے۔ لگ بھگ پانچ ہز ار طالبان قیدی اس وقت افغانستان کے مختلف جیلوں میں پابند سلاسل ہیں جو افغان حکومت کے ہاتھ ایک بڑا ’ ہتھیار’ سمجھاجاتا ہے۔ طالبان کا ابتداء ہی سے مطالبہ رہا ہے کہ افغان حکومت سے بات چیت سے قبل قیدیوں کی رہائی لازمی ہے ورنہ وہ کسی صورت مزاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے۔ لیکن دوسری طرف اگر قیدیوں کو رہا کیا جاتا ہے تو افغان حکومت کے پاس مستقبل میں کوئی ایسا ’ ہتھیار’ نہیں بچے گا جس سے ممکنہ طورپر حالات کی خرابی کی صورت میں طالبان کو رام کرنے کےلیے استعمال کیا جاسکے۔ ان قیدیوں کی تعداد کے بارے میں بھی مـختلف اعداد و شمار بتائے جارہے ہیں۔ کچھ ذرائع کا خیال ہے کہ ان کی تعداد دس ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے جبکہ کچھ پانچ ہزار بتا رہے ہیں۔

بین الاافغان مزاکرات کےلیے افغان حکومت کی ٹیم کا چناؤ بھی ایک بڑا اہم چینلج سمجھا جارہا ہے کیونکہ ڈاکٹر اشرف غنی کی کوشش رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اختیار ان کے ہاتھ میں رہے لیکن دوسری طرف ان کے مخالفین ڈاکٹر عبداللہ اور سابق صدر حامد کرزئی کی بھی کوششیں کررہے ہیں  کہ ان کے لوگ بھی ٹیم کا حصہ ہوں اور انہیں بھی کوئی کردار دیا جائے۔

گزشتہ اٹھارہ سالوں کے دوران افغانستان میں جن اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں افغان آئین کا قیام اور افغان فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز کا وجود قابل ذکر ہے، اس کے بارے میں طالبان کا سخت گیر موقف رہا ہے۔ پہلے وہ افغانستان کے آئین کو ماننے سے انکار کرتے تھے تاہم حالبہ دنوں میں ان کی طرف سے موقف میں کچھ نرمیاں سامنے آرہی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ افغانستان کے آئین میں ترامیم کرکے اسے مزید اسلامی بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ وہ ادارے ہیں جنہیں افغانستان میں ’ ریڈ لائن’ بھی کہا جاتا ہے اور جس پر افغان حکومت کوئی سودے بازی کرنے سے انکار کرتی رہی ہے۔

اقتدار میں شراکت داری کا معاملہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے جسے طے کرنے میں فریقین کو مشکلات پیش آسکتے ہیں۔ لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ پہلےعبوری سیٹ آپ بنے گا یا انتخابات ہونگے وغیرہ وغیرہ۔

طالبان دبے الفاظ اس بات کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں کہ اگر وہ امریکہ کو افغانستان سے بے دخل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر تو انہیں اقتدار میں زیادہ حصہ ملنا چاہیے ۔  افغان حکومتی ذرائع کہتے ہیں کہ ان کا طالبان سے سب سے پہلے یہ مطالبہ ہوگا کہ انہیں اپنے پڑوسیوں سے تعلقات کو واضح کرنا ہوگا اور اس سلسلے میں انہیں ٹھوس ضمانت دینی ہوگی۔

بین الاافغان مزاکرات مارچ کے دوسرے ہفتے میں شروع ہونے کا امکان ہے۔ اس سلسلے میں پورپی ممالک جرمنی اور ناروے پر صلاح و مشورے جاری ہے جہاں اس کا انعقاد متوقع ہے۔ دو ہزار ایک میں جب طالبان کی حکومت ختم کی گئی تو اس وقت بھی افغان حکومت کے قیام کےلیے مزاکرات جرمنی کے شہر بون میں ہوئے تھے جہاں حامد کرزئی کو صدر مقرر کیا گیا تھا۔

لیکن یہاں میں یہ بات بھی کرتا چلوں کہ افغانستان کے لوگوں کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ بیرونی دشمن سے ان کے معاملات حل ہوجاتے ہیں لیکن ان کے آپس کے مسائل اتنے آسانی سے حل نہیں ہوتے۔

نوے کے عشرے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا جب ڈاکٹر نجیب کی حکومت کے خاتمے کے بعد مجاہدین گروہ آپس میں لڑ پڑے تھے اور اس خانہ جنگی میں ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے تھے جنہیں آج تک لوگ نہیں بھولے ہیں۔ لیکن افغان عوام گزشتہ چار دہائیوں میں جس کرب ناک صورتحال سے دوچار ہوئے اسکی مثال موجودہ دور میں نہیں ملتی۔ لہذا وہ کسی صورت دوبارہ اس طرح کی غلطی کی متحمل نہیں ہوسکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments