سیکریٹ سپر سٹار، جاب اور محبت کی شادی


ہر گھر کی کہانی میں ایک دل دہلا دینے والی حقیقت ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے پیدا ہوتا ہے تحرک۔ اس گھر کے افراد کی زندگی میں حاصل ہونے والی کامیابیاں اور ناکامیاں سب اسی ناقابل برداشت یا پھر برداشت کر لینے کی حد تک سہہ جانے والی ان حقیقتوں کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ و ہ ساری تکالیف ایک عورت بہت فخر کے ساتھ برداشت کر لیتی ہے۔ کیوں کہ اسے گھر کےبزرگوں سے ہمیشہ یہی تعلیم ملی تھی کہ عورت کے لئے اس کا شوہر مجازی خدا ہے۔ تو کیا اس کا مطلب ہے کہ خدا کی طرح وہ کسی بھی حالت میں رکھے اس کا ہمیشہ سجدے میں شکر ادا کرنا چاہیے شاید یہی معنی ہیں۔
وہ خدا ہے تو بھلا اس سے شکایت کیسی
مقتدر ہے وہ ستم مجھ پہ جو ڈھانا چاہے

ان مظالم کو دیکھنے والے گھر کے افراد اکثر ان معاملات میں اس قدر بے بس ہو جاتے ہیں کہ کسی کونے میں بیٹھ کر خود کو زد و کوب کرنے کے سوائے ان کے پاس کوئی طریقہ نہیں ہوتا کہ اس کراہیت سے نجات حاصل کرلیں۔ اسلامی تعلیمات انھیں کوئی بھی حتمی قدم اٹھانے سے روک دیتی ہیں۔ اگر ان سب واقعات کی ناظر ”انسیہ“ جیسی لڑکیاں ہوتی ہیں بلکہ بیشتر وہی ہوتی ہیں تو ان کی فکر ان کے قدم خود بہ خود ایسے راستوں کی طرف بڑھنے لگتے ہیں جن پر ان کی مائیں کبھی جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتیں۔ ایسی لڑکیاں الجھے ہوئے رویہ اور ڈپریسڈ زندگی گزارتی ہیں۔ ان کے لئے روح فرسا مناظر کا بیان ہمیں کبھی کبھی کسی تخلیق کار کی تحریروں میں تو ضرور مل جاتا ہے اس کے علاوہ کہیں کچھ ایسی عورتوں کی زبانی سننے ملتا ہے جو معاشرے میں بے باکی اور بد اخلاق ہونے کا ٹیگ یا طعنہ سننے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ زیادہ بولنے والے دوغلے ہوتےہیں۔ یہاں خیال رہے رائے کا اظہار کرنے کے لئے اکثریت کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ یعنی جو کچھ وہ کہتے ہیں عملی طور پر اس سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ جن سے بولنا آتا ہے یعنی اگر وہ بہت دیر تک بنا رکے بولنے کی طاقت و صلاحیت رکھتے ہیں وہ اپنی بات کو ثابت کرنے کا ہنر۔ نہیں ہنر نہیں بلکہ دھاندلی کہئے بہت اچھے سے واقف ہوتے ہیں ایسی ہزار ہا مثالیں سامنے ہیں۔ کوئی فیمنزم پر بات کر رہا ہو آپ اس کے پس منظر میں ایسے مسائل واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں جس کا اس کے چیخنے چلانے سے کچھ نہیں بگڑتا۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے سامنے اور گھر کے اندر کے رویہ میں تضاد اسے کیا ثابت کرے گا۔ کیوں کہ وہ زبان درازی کے ہنر میں ماہر ہیں پھر چیخ کر یا نرمی سے اپنی بات منوا لینا ا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔

عورت کی زندگی حکومت نے بہت آسان کردی ہے لیکن اسے مشکل بنانے والا ہمارا معاشرہ ہے کہیں ہمارا مذہبی نظریہ اسے مجبور و لاچار کردیتا ہے تو کہیں ہمارا معاشرہ طعن و تشنیع سے اس کا جینا دوبھر کردیتا ہے۔ مولوی طبقہ کا ذکر ہی یہاں فضول ہے وہاں پہنچ جانا کسی بھی نقطہ نظر کو محدود دائرہ میں ہی گھومتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ثانیہ مرزا ٹینس میں اول نمبر پر اپنی کامیابی درج کرا کر ہندوستان واپس آئی تو مذہبی افراد نے اس کے خلاف فتوے جاری کر دیے۔ کیوں؟ کیوں کہ مولویوں کا کہنا تھا کہ ہمارا مذہب عورت کو بے پردگی کی اجازت نہیں دیتا۔ ثانیہ کے احباب ہی تھے جنھوں نے اس پر یقین قائم رکھا پورے ملک سے اٹھنے وے تنازعات کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور حوصلہ دیا۔ لیکن پھر بھی ایک منٹ رک کر یہاں یہ سوچنے کی بات ہے کہ اس وقت اس لڑکی پر کیا گزر رہی ہو گی جو اپنی خوشی بھی صحیح سے سلیبریٹ نہیں کرپائی اور ایک طوفان اس کا منتظر ہے۔

دوسری طرف دیکھیں تو کسی بھی مولوی نے کچھ غلط نہیں کہا تھا۔ مذہبی پابندیاں اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتی کہ کسی عورت کا جلد کا رنگ تو کیا اس کا سراپا بھی کپڑوں میں سے جھلک جائے تو وہ گنہگار ہوگی۔ یعنی عورت کو اس طرح کا لباس زیب تن کرنا چاہیے جس سے اس کے خد و خال پر کسی نامحرم کی نظر نا پڑے۔ آج سعودی عرب میں عورتیں گاڑی ڈرائیو کرنے حق مانگ رہی ہیں اس کے لئے کورٹ میں آواز اٹھائی جارہی ہے۔ وہاں کے قانون کے مطابق کوئی بھی عورت بنا محرم کے گھر سے باہر نہیں جاسکتی۔ اس کا مطلب ہوا کہ عورت کی اپنی کوئی پہچان نہیں بن سکتی۔ وہ کوئی بھی کام ایسا کرنے سے باز رہے جس سے اس کے وجود کا احساس ہو۔

کسی غیر شادی شدہ لڑکی یا شادی شدہ عورت کو اپنے محرم کے علاوہ کسی اور کو آواز سنانے کی ہمارا مذہب اجازت نہیں دیتا۔ جوعورتیں فیمنزم پر بات کرتی ہیں ان کے پیچھے بھی ان کا کرب ہی ہوتا ہے جسے وہ سلجھانے میں ناکام رہی ہوتی ہیں۔ ادیب انھیں مسائل کو سامنے لاتا ہے جو اس کی طبیعت پر گراں گزرتے ہیں اور ان کا حل اس کے پاس نہیں ہوتا۔ ہمارے حکومتی ادارے آج عورتوں کو اتنی سہولیات فراہم کر رہے ہیں کہ اگر صحیح طریقہ سے ان کا استعمال کیا جائے تو کہیں بھی عورت کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ رات بے رات عورت کہیں سے کہیں تک کا بھی تنہا سفر کرے کوئی ڈر اس کے راستہ میں روڑا نہیں بن سکتا۔ پھر بھی عورت ان بولنے والے مردوں سے پریشان ہے۔ جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہی ہیں۔

مثلا ً ایک آدمی اپنی جاب چھوڑ کر گھر بیٹھ گیا اس نے اپنے کام نہ کرنے کی ہزاروں وجوہات پیش کردیں۔ وہ اپنا کام کرنا چاہتا ہے، اس کے پاس پیسے ہوں تو وہ آدھی دنیا کو الٹنے کی طاقت اور عقل رکھتا ہے، اس سے اپنے گھر کی عورت کی متعدد بار دیکھی ہوئی شکل برداشت نہیں ہوتی اس لئے وہ کام نہیں کرسکتا، اس کے دل میں ایک شروعاتی دنوں کی بات گھر کر گئی ہے جس سے وہ پیچھا نہیں چھڑا پایا اب چاہے وہ بات خود کا بنایا ہوا میمورنڈم ہی کیوں نہ ہو اور صرف اسی ایک بات کے لئے اس نے اپنے اور اپنی شریک حیات کے پچیس سال غم میں گزار دیے ہوں، اسے شادی کے دو تین سال گزر جانے کے بعد بیوی کے چہرے میں وہ کشش نظر نہیں آتی جس کا وہ شادی کے شروعاتی دنوں میں دیوانہ رہا تھا اور اسی بنا پر اب وہ بیوی کو بہانے بہانے سے باتوں کے تیروں سے زخمی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ گھریلو تشدد کے بنا چھوئے اور بہت سارے طریقہ ہیں جن سے عورت کی زندگی جہنم بنائی جا سکتی ہے۔

اگر شادی دونوں فریقین نے باہمی محبت سے کی ہو تو یی صورت حال مزید آسان ہو جاتی ہے کیوں کہ کچھ ہی عرصہ بعد عورت کا وہ دوشیزگی والا حسن ضائع ہو جاتا ہے اور اس کے طعنے عورت تک باآسانی پہنچانے کے طریقہ یا راستہ کھل جاتے ہیں مرد بہت ہی غیر محسوس انداز میں اس یہ باور کراتا ہے کہ ایک تو شادی کے لئے تم سے میں نے نہیں کہا تھا دوسری بات تم نے اپنی بے ہودہ اداوں سے مجھے رجھاؤ۔ یا جس کا اثر ولی و مرشد نہیں زائل کر پائے میں بے چارہ معصوم کیا بچ پاتا۔ اگر تم مجھ سے بات کر سکتی تھیں تو پتہ نہیں کس کس سے بات کر تی ہوگی تمھاری پاکیزگی پر یقین کیسے کیا جاسکتا ہے۔ تم تو ہو ہی کریکٹر لیس لڑکی۔ میری قسمت خراب تھی جو میرے پلے پڑ گئیں۔

بہر حال یہ طعن و تشنیع تو بہت بعد کی باتیں ہیں سب سے پہلے تو خود اپنے گھر کو چھوڑنا کسی بھی لڑکی کے لئے بہت دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس کے ماں باپ اس لڑکی کی آئندہ زندگی کے تصور سے ہی اتنے دکھی اور رنجیدہ ہو جاتے ہیں کہ جو گزرے جس پر وہی جانے قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے۔ پھر معاشرتی سطح پر ملنے والے طعنے عورت کو جو پریشان کرتے ہیں اس کی تو بات کرنا بے سود ہے سوچنا تو یہ ہے کہ ماں باپ ان طعنو ں کو کیسے برداشت کرتے ہیں۔ اگر عورت کسی شعبہ سے منسلک ہے تو اسے اس کی قابلیت کے بعد بھی نظر انداز کیا جاتا ہے کیوں کہ کرسی پر بیٹھے ہوئے کو اپنی عزت پر آنچ آنے کا خطرہ ہوتا پے اگر وہ کسی لڑکی کو اسپیس دینے لگے تو لوگ اس کی غلط امیج اپنے ذہن میں بنا لیں گے لوگ سوچنے لگتے ہیں لڑکی سے رابطہ ہے ضرور اس لڑکی میں شموئل احمد کے افسانہ کی کردار ”زرنگار“ والی خاصیت ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).