ُمُندری والا اور امن کا آدرش


” جمال لان میں ٹہلتے ہوئے سوچنے لگا: یہ کون سی جگہ ہے؟ وہ یہاں کیوں آیا ہے؟ یہ کون لوگ ہیں جو یہاں رہتے ہیں؟ بہت کم بولتے ہیں۔ شانت اور پُر سکون ہیں۔ اُجلے اُجلے سے لگتے ہیں۔ کسی بات پر حیران نہیں ہوتے۔ اِدھراُدھر گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ یہ حویلی ’مُندری والا‘ کے آباء نے کب بنائی ہوگی؟ کیا ’مُندری والا‘ بہت امیر شخص ہے؟ ’مُندری والا‘ کبھی صوفی تو کبھی شیطان لگتا ہے۔ حقیقت میں وہ کیا ہے؟ یہ جگہ نو مینز لینڈ (No Man ’s Land) کیسے ہوسکتی ہے؟ اب تو سیٹلائیٹ سے دنیا کا چپّہ چپّہ نظر آتا ہے۔ اکیسویں صدی ہے۔ قبل مسیح کا دور تو نہیں ہے یہ۔ میں جو جی چاہتا ہے کھاتا ہوں، پہنتا ہوں، جہاں جی چاہتا ہے سوتا ہوں۔ کیا یہ لوگ مجھ سے معاوضہ کا تقاضا کریں گے؟ آفٹر آل دئیر اذ نو فری لنچ (۔ After all there is no free lunch) ۔

اگر کریں گے، تو کیا میں ادا کر سکوں گا؟ یہ مجھے جانے کے لیے کیوں نہیں کہتے؟ اگر یہ کہیں کہ چلے جاؤ، تو میں کیسے جاؤں گا؟ آبادی یہاں سے کتنی دُور ہے؟ کبھی میرا دل پُر سکون اور کبھی گھبرانے کیوں لگتا ہے؟ کیا یہ کوئی فرقہ ہے جو یہاں رہتا ہے؟ کیا یہ قدرت کے چنیدہ لوگ ہیں؟ یا سماج کے ٹھکرائے ہوئے بے سہارا ا نسان؟ کہیں اشتہاری مجرم تو نہیں ہیں؟ ان کے جو جی میں آتا ہے، کرتے ہیں۔ کھیتوں میں ایک دوسرے کے پاس بیٹھ کر رفع حاجت کرتے ہیں۔

پگڈنڈیوں پر جنسی اختلاط کرتے ہیں۔ دریا میں ننگے نہاتے ہیں۔ پرندے ان کے سر اور کاندھوں پر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ جانور انھیں دیکھ کر بھاگتے نہیں۔ یہ کون سی مخلوق ہے؟ ’مُندری والا‘ اور شینا کئی دن کے لیے کہیں چلے جاتے ہیں، پھر آجاتے ہیں۔ یہ کہاں جاتے ہیں؟ نہ بجلی ہے نہ گیس، نہ فون ہے نہ ریڈیو، ٹی وی تو دور کی بات ہے۔ کوئی سڑک نہیں۔ کتنے ہوں گے یہ لوگ؟ سینکڑوں ہیں۔ ایک گھڑی ہے جو گیارہ بج کر سات منٹ دکھاتی رہتی ہے۔ کسی کا کوئی نام نہیں۔ شینا کا نام پتہ نہیں کس نے رکھا ہے؟ مجھے کب تک یہاں رہنا چاہیے؟ ” ( 30 )

”اکثر لوگ اسے اُچٹتی نظروں سے دیکھتے اور گزر جاتے۔ کچھ مختصر علیک سلیک کرتے۔

”گڈمارننگ“ ایک سفید شخص نے دیوار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

”نی ہاؤ“ چھوٹی چھوٹی آنکھوں کے نیچے سے آواز آئی۔

”آداب عرض“ کسی نے پوروں سے اپنا ماتھا چھُوا۔

”سنگا چلدے جی“ ایک شخص نے سر پر ٹوپی جماتے ہوئے کہا۔

”سلاواں لیکم“ سانولے شخص نے تہمند کا پلو اٹھا کر جھٹکا، خصّیے دھوپ میں لہرائے اور چھاؤں میں چھپ گئے۔

جمال کو یہ جگہ پرُ سکون لگتی، کبھی کبھی شدید گھبراہٹ ہوتی۔ کبھی دل اتنا پُرسکون جیسے سینہ خالی ہے۔ کبھی پرندے کی طرح پھڑپھڑانے لگتا، گویا پسلیوں کا پنجرہ توڑ کر اُڑ جائے گا۔ ایک بات بہرحال تھی کہ جمال کو عرصے سے کسی حویلی میں رہنے کی شدید خواہش تھی۔ جو پوری ہوئی۔ کچھ فاصلے سے گھر کو دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا جیسے یہ پہاڑی کے ساتھ شست لگا کر وادی کو گھُو ر رہا ہے۔ صبح کے وقت یہ گھر نہایت پُر کشش، سہ پہر کو سنجیدہ اور شام کو وحشت ناک لگتا تھا۔

”ست سری اکال“ لمبے بالوں والے ایک باریش شخص نے آواز لگائی۔

”نمستے“ ایک عورت کے ماتھے پر بندیا چمکی ”۔

مندرجہ بالا اقتسابات ڈاکٹر وحید احمد کے ناول ”مُندری والا“ کے ہیں۔ 2012 ء میں شائع ہونے والا یہ ناول اردو ادب کا ایک انوکھا۔ دلکش اور دلچسپ شاہکار ہے۔ کہانی کا ربط اور روانی بے مثال ہے۔ وحید احمد کو اردو لغت پر مکمل دسترس ہے۔ اور اس کو الفاظ کم نہیں پڑتے، بلکہ وہ الفاظ کو کمال مہارت سے چُن چُن کر کہانی کی مالا بنتا ہے۔ جزئیات نگاری، منظر نگاری اور تخیل کے اعتبار سے ”مُندری والا“ ہر اعتبار سے بین الاقوامی ادب میں شامل کسی بھی کلاسیکی ناول کے ہم پلہ ہے۔ تشبیہات اور استعارات کا خوبصورت استعمال بھی اس ناول میں دیکھنے کو ملتا ہے : اس حوالے سے یہ سطور بہت دلچسپ ہیں :

”شاعر ہو؟ “ مندری والا نے مُسکر ا کر پوچھا تو گال پر کھدے ہوئے زخم کے نشان نے اُچھل کر مندری پکڑنے کی کوشش کی۔ ” ( 10 )

”صوفوں سے ذرا ہٹ کر سرمئی رنگ کا مختصر ڈائننگ ٹیبل تھا، جس سے چار کرسیاں چمٹی ہوئی تھیں۔ ہر کرسی کی کمر محتاط کنواری لڑکی کی طرح چُست اور کسی ہوئی تھی جب کہ نچلی پُشت اور ٹانگوں میں پھیلاؤ تھا جیسے بیاہی عورتوں کے جسم میں ہوتا ہے۔ “ ( 8 )

”جمال کی نظریں سرُخ شال کا زینہ چڑھ کرشینا کا چہرہ دیکھنے لگیں۔ وہ کوئی بیس بائیس کی معلوم ہوتی تھی۔ بیضوی چہرے پر نہائت پُر اثر بادامی آنکھیں تھیں۔ آنکھوں کا رنگ چمکتا اور کھِلتا ہوا براؤن تھا۔ جو کمرے کے خاکستری سُرمئی ماحول میں نارنجی لگتا تھا۔ آنکھوں کی حرکت میں طرح داری اور بے نیازی تھی۔ اس کے جسم کی ہر حرکت میں سکون اور سکون میں حرکت تھی۔ وہ زمین کی طرح تھی جو گھومتی ہے اور پتا بھی نہیں چلتا۔

اس کے چہرے پر ایسا کوئی تاثر نہیں تھا جو جوان لڑکیوں پر اس وقت جھلکتا ہے جب وہ باپ کی موجودگی میں اجنبی شخص کے سامنے بیٹھ کر پہلا کھانا کھاتی ہیں۔ چہرے کی رنگت چمپئی تھی، شاید سُرخ شال کی قربت کی وجہ سے۔ ہاتھوں کا رنگ دودھیا تھا جو شال سے ذرا دُور تھے۔ اس کا جسم باپ کی طرح چھریرا تھا۔ اس کا باپ تو انتہائی بد شکل ہے۔ اس کی ماں یقینا نہائیت حسین اور دلکش ہوگی۔ عام شکل و صورت کی عورت کی بس کی بات نہیں کہ وہ اتنے گھناؤنے شخص کے تعاون سے اتنی حسین لڑکی پیدا کر سکے۔ جمال کی سوچتی ہوئی نظریں لڑکی کے باپ کی طرف اٹھیں۔ ’مندری والا‘ جمال کو بڑے غور سے اپنی لڑکی کو دیکھتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔

”میری ہی ہے“ مُندری والا نے کہا تو جمال کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اوساں بحال کرتے ہوئے اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا: ”مم مم۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا! “

”میرا مطلب وہی ہے جو میں نے کہا۔ “ مندری والا نے جمال کے چہرے سے نظریں ہٹاتے ہوئے کہا۔ جو ابھی تک سناٹے میں تھا۔ وہ خاموشی سے نظریں جھکا کر انہماک سے کھانا کھانے لگا۔ ” ( 16 )

ناول کی کہانی ایک ایسی پُرامن بستی کے گرد گھومتی ہے جو سلسلہ ِکوۂ ہمالیہ اور ہندو کش کے دامن میں کہیں الگ تھلگ پہاڑی پر واقع ہے۔ جو اپنے رنگ کی وجہ سے ’کالی پہاڑی‘ کہلاتی ہے، ورنہ اس بستی کا کوئی نام نہیں ہے۔ ”مُندری والا“ کا نام بھی ناول کے مرکزی کردار، جمال نے اس پُر اسرار پختہ عمر کے شخص کے ایک کان میں مُندری دیکھ کر رکھا ہے، جو بظاہر ان چند سو نفوس پر مشتمل بستی کا سر براہ لگتا ہے۔ مُندری والا ہیلی کاپٹر اڑا سکتا ہے۔ اور بستی کے لیے اشیائے خوردو نوش کسی شہر سے کالی پہاڑی کے مکینوں تک بذریعہ ہیلی کاپٹر بہم پہنچانے کی ذمہ داری اس نے اپنے سر لے رکھی ہے۔ وہ اپنی غیر شادی شدہ، خُوبرو، جواں سال اور اکلوتی بیٹی شینا کے ساتھ اس پہاڑی پر ہی واقع ایک پرانی طرز کی خوبصورت حویلی میں رہتا ہے۔

کالی پہاڑی کے چند سو مکین یہاں پر آ کر آباد ہونے سے قبل دنیا کے مختلف علاقوں کے باسی تھے اور اپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی کے مستند ماہرین تھے۔ پھر انھوں نے شہری زندگی کو تیاگ دیا اور اس بیابان پہاڑی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ بادی النظر میں، کالی پہاڑی کے مکین دنیا کے مروجہ علوم، قوانین اور رسوم و قیود، ان لرن (Unlearn ) کر چکے ہیں۔ ”علم فراموشی“ علم کے حصوِل علم سے زیادہ مشکل کام ہے۔ اور یہ جاں گُسل کام اس بستی کے مکینوں نے اس لیے کیا کیونکہ ان کو زمین پر ایک ایسا گوشہ عافیت درکار تھا، جہاں وہ امن اور آشتی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔ وہ فطرت کے قریب رہ کر ایک سادہ اور فطری زندگی گزارنے کے متمنی ہیں، اور بظاہر اس میں کامیاب بھی لگتے ہیں۔

ناول کا مرکزی کردار حادثاتی طور پر اس بستی میں پہنچ جاتا ہے۔ چالیس، بیالیس سالہ متناسب قد و قامت کے حامل جمال نے انگریزی ادب اور فنون لطیفہ میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ ایک یونیورسٹی میں تعینات، پروفیسر جمال ذہنی بحران کا شکار ہو کر خود کشی کی کوشش کرتا ہے۔ وہ دریا میں چھلانگ لگا دیتاہے۔ ”مندری والا“ کالی پہاڑی کے چند مکینوں کی مدد سے جمال کی جان بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

جمال کالی پہاڑی پر ایک سال سے اوپر رہتا ہے مگر۔ ’علم فراموشی‘ نہیں کر پاتا۔ وہ اور شینا بہت قریب بھی ہو جاتے ہیں۔ جسمانی تعلق تک قائم ہو جانے کے باوجود، شینا جمال سے جذباتی طور پر منسلک نہیں ہونا چاہتی۔ وہ اس کے لیے پُر اسرار ہی رہتی ہے۔ جس پر جمال حیرت ذدہ رہتاہے۔ دراصل جمال کو یہاں کی ہر بات حیرت ذدہ کیے رکھتی ہے۔ جمال اس سارا عرصہ میں پُراسراریت میں کھویا رہتا ہے۔

ارض ِ پاکستان پر یہ وہ وقت ہے جب انتہاپسندی اور دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔ جمال اس روزحیرت ذدہ سے زیادہ خوفزدہ ہوتا ہے، جس دن وہ ایک خود کش بمبار کو حویلی میں رہتے ہوئے دیکھتا ہے۔ چند ماہ گزارنے کے بعد جمال واپس شہر کا رُخ کرتا ہے۔ مگر کہانی موڑ لیتی ہے اور کالی پہاڑی پر بھی دہشت گردوں کا قبضہ ہوجاتا ہے۔ امن، آشتی اور سکون برباد ہو جاتا ہے۔ دہشت گرد کالی پہاڑی پر قابض ہونے سے قبل دو خود کش حملوں کے ذریعے پچپن افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں۔ بالآخر فوجی آپریشن کے ذریعے کالی پہاڑی سے دہشت گردوں کا صفایا کروایا جاتا ہے۔ یہاں کے مکین محفوظ مقامات پر منتقل کیے جاتے ہیں اور کالی پہاڑی پر امن فوج تعینات ہو جاتی ہے۔

میرے نزدیک ناول کا مرکزی خیال دنیا میں امن کی شدید خواہش ہے۔ یہ وہ آدرش ہے جو ناول نگار کے لا شعور میں کہیں نہ کہیں موجودہے۔ یوں تو اس ہمہ جہت ناول کا کینوس بہت وسیع ہے، اگرچہ بین الاقوامی سیاست اس مضمون کا موضوع نہیں۔ پھر بھی اگر ہم امن کی خواہش کو لے کر آگے چلیں تو ان وجوہات پر ایک سرسری نظر ڈال لینا ضروری ہو جاتا ہے جن کی بنا پر دنیا کا امن خطرے میں ہے :

وسائلِ رزق، ترقی اور خوش حالی کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت دنیا میں دو قسم کی قومیں آباد ہیں :

مرکزی طاقتیں (Central Powers) اور گردشی قومیں (Centrifugal Nations) ۔

مرکزی ممالک، ترقی یافتہ قومیں ہونے کے ساتھ ساتھ جدید اور مہلک ہتھیاروں سے لیس خوفناک فوجی طاقتیں بھی ہیں۔ یہ طاقتیں مختلف حیلوں اور بہانوں سے، ترقی پذیر یعنی گردشی ممالک کے وسائل ہتھیانے میں ہمہ وقت مصروف عمل ہیں۔ گردشی ممالک میں دہشت گرد تنظیموں کی آبیاری بھی مرکزی طاقتیں ہی کرواتی ہیں۔ شدت پسندی کو فروغ دینے کے لیے مذہب کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ردعمل کے طور پر کچھ گردشی ممالک نے بھی مہلک ترین ہتھیار بنا لیے ہیں۔ اگر دنیا میں اس وقت اعلان شدہ، نو ایٹمی قوتیں ہیں، تو ان میں سے چار گردشی ممالک ہیں۔ ان نو ممالک کے پاس موجود ایٹمی ہتھیار اور میزائل دنیا میں اس وقت موجود، سات ارب انسانوں کو چند لمحات کے اندر موت کے منہ دھکیلنے کے لیے کافی ہیں۔

دوسری طرف انسان بے پناہ علمی و سائنسی ترقی کے باوجود ذہنی طور پر ابھی بلوغت کی عمر تک نہیں پہنچا، اس نے ابھی تک اپنے آپ کو قوم، رنگ، نسل اور مذہب کو بنیاد بنا کر دشمنیوں کو ختم کرنے کا نہیں سوچا۔ ۔ حضرت انسان اپنے وہ وسائل جو اس زندگی کو خوشحال بنانے پر لگانے تھے، اپنی ہی موت کا سامان بنانے پر لگا رہا ہے۔ حتّی کہ ترقی پذیر ممالک کے وسائل بھی اپنے عوام کی بہبود پر خرچ کرنے کی بجائے دشمنیاں پالنے پر لگ رہے ہیں۔

دنیا اس وقت ایک نازک دوراہے پر کھڑی ہے۔ بنی نو انسان نے اجتماعی خود کشی کرنی ہے یا دنیا کو کالی پہاڑی کی طرح امن و آشتی، محبت اور ہم آہنگی کا گہوارہ بنانا ہے۔ ٖفیصلہ مرکزی قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔

174 صفحات پر مشتمل وحید احمد کا ”مُندری والا“، کہانی کی بُنت، منظر نگاری، تخیل، جزئیات نگاری اور قاری تک پر اثر پیغام رسانی کے اعتبار سے بلا شبہ بین لاقوامی ادب میں شامل ہونے کے لائق ناول ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments