لیاری کا شانتی نکیتن


رحیم غلام ہنستا ہے ہنساتا ہے عکس بناتا ہے بنانا سکھاتا ہے۔ یہی ہنر جانتا ہے جو بھی جانتا ہے اپنے آپ تک محدود نہیں کرتا اسے بانٹتا ہے۔ مسکراتا ہے اور مسکراتا ہی چلا جاتا ہے پھر سنجیدگی چہرے پر طاری ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ باتوں کا سلسلہ ہو جاتا ہے چہرہ پھر سے کھلکھلا اٹھتا ہے۔ مگر آرٹ کے کام میں مصروف دیگر نووارد اس پوری منظرنامے سے بے خبر اپنے کام میں جٹے ہوئے ہیں۔ اچھا رحیم جان اس کام کا صلہ؟ صلہ یہی کہ نوجوان سیکھ جاتے ہیں سیکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔

لیاری کے اہم شخصیات کی عکاسی کرنے دس آرٹسٹوں پر مشتمل ٹیم رحیم غلام کی سرپرستی میں کام میں جٹ گئے۔ وہ تمام عکس لیاری لٹریچر فیسٹول کا حصہ بنے۔ لوگ آتے گئے دیکھتے گئے کسی نے ان کی خریداری نہیں کی البتہ ایک بہت بڑا کام یہ ضرور ہوا کہ آرٹس کونسل کراچی نے اس کام کا صلہ انہی دس نوجوانوں کو اسکالرشپ فراہم کرکے کیا یہ نوجوان آرٹس کونسل کے اندر نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو بڑھا رہے ہیں بلکہ انہیں چھوٹے پیمانے کے ٹاسک بھی مل جاتے ہیں جن سے انہیں ہلکی پھلکی آمدن بھی آجاتی ہے۔

رحیم غلام اور ان کے استاد جان محمد سکھانے کا کام لیاری میں واقع سلاٹر ہاؤس کے ایک کمرے میں تربیت فراہم کر رہے تھے سکھانے کا یہ کام تین سال قبل وہ شروع کر چکے تھے۔ پنسل کے ذریعے خاکوں کا کام سکھاتے رہے۔ اچھا رحیم غلام واٹر کلر سے دور بھاگتا کیوں ہے؟ دھیمے انداز میں جواب دیتے ہیں۔ ”اس لیے کہ فی الحال ہم نے ایک ہی لائن پہ کام کرنا ہے یہ میرا پسندیدہ کام بھی ہے اور اسے بہتر انداز میں سرانجام دے سکتا ہوں“۔

جہاں یہ اور ان کی ٹیم کام کرتے ہیں اسے انہوں نے دلچسپ نام سے نوازا ہے۔ ”شانتی نکیتن“۔ یہ شانتی نکیتن ہے کیا؟ اور بھلا اسے اس نام سے نوازا کیوں؟ ”رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنے ادارے کو یہی نام دیا تھا۔ شانتی معنی سکون اور نکیتن معنی گھر۔ یعنی سکون کی جگہ۔ یہ نام رحیم کے دل کو بھا گیا۔ انہوں نے نام شانتی نکیتن رکھ دیا۔ وہ دن اور آج کا دن۔ ان کا ٹھکانہ شانتی نکیتن کے نام سے مشہور ہوا۔ رحیم کے ساتھ بیٹھ کر جو پل ہم بتا رہے تھے سکون کو انہی لمحوں کے اندر ہم نے اپنے آس پاس ہی پا رہے تھے۔

شانتی نکیتن کو جگہ اس لیے بدلنا پڑا کہ کمرے کی ضرورت مالک کو پڑی۔ اب شانتی نکیتن نے لیاری کمیونٹی ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کے پناہ لے لی ہے سکھانے کا کام وہ اور جان محمد بلامعاوضہ کر رہے ہیں۔ کمرے کا کرایہ کتنا ادا کرتے ہیں؟ ”مینٹیننس کے 2500 روپے آتے ہیں۔ جو دوست مل کر ادا کرتے ہیں“۔

رحیم غلام۔ بلوچی زبان کے نامور شاعر غلام حسین غلام کے فرزند ہیں۔ انہوں نے اپنے والد کے قریب رہ کر ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ایک چیز جو ان کے قریب چھو کر گزری ہے وہ ہے خودداری۔ رحیم غلام نے والد کے نقش قدم پر چل کر خودداری کو گلے لگایا ہے۔ بچوں سے کچھ بھی نہیں لیتے۔ انہیں مفت پڑھاتے ہیں۔ انہیں پلیٹ فارم دلاتے ہیں۔ ایسے خوداروں کا ہاتھ تھامنا چاہیے ان کے لیے راستے ہموار کرنا چاہیے۔ رحیم بطور آرٹ ٹیچر بہت کچھ سکھاتا ہے۔ اگر آرٹ کا کوئی ادارہ ان کی خدمت سے استفادہ حاصل کرے۔ رحیم جان لیاری کا حقیقی عکس ہے اور معاشرے کا کل سرمایہ ہے۔

آپ نے رحیم کو دیکھنا ہے اور سکون اور راحت کی چند ساعتیں پانی ہیں تو شانتی نکیتن ضرور تشریف لے جائیں رحیم اور اس کی ساتھیوں کا دل اور دروازہ دونوں آپ کے لیے کھلے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments