انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جنگ


پاکستان عملی طور پر ان ممالک میں شامل ہے جو گذشتہ کئی دہائیوں سے انتہا پسندی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے کی کو ششوں میں مصروف ہے۔ پاکستان کے بارے میں عالمی رائے عامہ میں ایک عمومی رائے یہ تھی کہ پاکستا ن بطور ریاست کسی نہ کسی شکل میں انتہا پسند عناصر یا دہشت گردوں کی حمایت یا سرپرستی کرتا ہے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ عالمی دنیا کی طرف سے ہمارے قومی تصورات کے بارے میں کافی منفی رویے موجود تھے۔ ہمارے عالمی یا ہمسائے کی سطح پر موجود سیاسی مخالفین بھی تواتر کے ساتھ اسی مقدمہ کوعالمی دنیا میں پیش کرتے رہے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے کے تناظر میں درست سمت میں نہیں بڑھ رہا اور پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے میں سنجیدہ نہیں یا اس کی حکمت عملی تضادات پر مبنی ہے۔

بنیادی طور پر انتہا پسندی یا دہشت گردی صرف عالمی مسئلہ نہیں تھا بلکہ ہمارے داخلی محاذ پر بھی دہشت گردی کے ٖپھیلاؤ کی وجہ سے کافی مسائل جڑے ہوئے تھے اور ا س عمل نے ملک کو عملا سیاسی اور معاشی بحران میں متبلا کردیا تھا۔ لیکن انتہا پسندی اور دہشت گردی کے تناظر میں پچھلے چند برسوں کے مقابلے میں پاکستان کافی مختلف نظر آتا ہے۔ اس وقت دہشت گردی وہ نہیں جو ہمیں کئی دہائیوں تک دیکھنے کو ملی اور بظاہر ایسا لگتاتھا کہ ملک میں ریاست کی رٹ کمزور اور دہشت گردوں کی رٹ زیادہ مضبوط ہوگئی ہے۔ یہ انتہا پسندی یا دہشت گردی کی وجہ صرف محض مذہبی یا فرقہ وارانہ ہی نہیں بلکہ سیاسی، علاقائی، لسانی اور امریکہ دشمنی پر بھی مبنی تھی۔

لیکن یہا ں ریاست پاکستان اور سیاسی حکومتوں سمیت فوج، انٹیلی جنس اداروں، پولیس اور شہریوں کو بھی داد دینی ہوگی کہ انہوں نے ہر سطح پر خاموشی یا ڈر اور خوف کی کیفیت کو بنیاد بنا کر پسپائی اختیار کرنے کی بجائے ڈٹ کر اس جنگ کا مقابلہ کیا۔ دہشت گردی کی یہ جنگ معمولی سطح کی جنگ نہیں تھی۔ ہمیں بطور ریاست اس جنگ کے تناظر میں ایک غیر معمولی صورتحال کا سامنا تھا۔ کیونکہ یہ جنگ محض خارجی سطح سے نہیں لڑی جارہی تھی بلکہ اس کے تانے بانے داخلی سطح پر بھی موجود تھے۔

یعنی دہشت گردی کا مرکز داخلی بھی تھا اور اس میں ہمیں اپنے اندر سے ہی جنگ کا سامنا تھا۔ خاص طور پر آرمی پبلک سکول کے واقعہ نے پوری قوم کے اجتماعی ضمیر کو جنجھوڑا اور اس واقعہ نے دہشت گردی کے حوالے سے موجود تمام تر تضادات کو پس پشت ڈال کر ہمیں ایک ہونے پر مجبور کیا۔ اس واقعہ سے قبل دہشت گردو ں کی حمایت میں بھی ایسی سوچ فکر موجود تھی جو کسی نہ کسی شکل میں دہشت گردوں کی حمایت کا جواز پیش کرتی تھی، مگر اے پی ایس کے واقعہ نے اس تضاد کو بھی ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

ہمیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے تناظر میں پانچ بڑے چیلنجز کا سامنا تھا۔ اول ہمیں داخلی اور خارجی محاذ پر یہ ثابت کرنا تھا کہ پاکستان بطور ریاست انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے میں نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ اس کی سمت درست ہے اور اس تاثر کی نفی کرنا تھی کہ پاکستان بطور ریاست دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے۔ دوئم ہمیں داخلی محاذ پر موجود ان تمام سیاسی، قانونی، انتظامی اور علمی و فکری تضادات کو ختم کرنا تھا جو ہمیں دہشت گردی کی جنگ کے تناظر میں درپیش تھے۔

سوئم ہمیں اپنے قوانین، پالیسیوں اور ادارہ جاتی عمل کو اس جدید انداز میں منظم اور مربوط بناناتھا کہ ہم اس جنگ سے موثر طریقے سے نمٹ سکیں۔ چہارم محض انتظامی بنیادوں کے ساتھ ساتھ ہمیں علمی اور فکری سطح پر ایک ایسے بیانیہ کو آگے بڑھانا تھا جو امن پسندی، رواداری، بہتر تعلقات کے طور پر ہمیں پرامن ریاست کے طور پر پیش کرسکے۔ پنجم ہمیں علمی اور میڈیا کے محاذ پر ایک ایسی جنگ کو آگے بڑھانا تھا جو انتہا پسند اور دہشت گرد عنا صر کو انتظامی اور فکری بنیادوں پر کمزور کرے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا کر ان کو عملی طور پر ختم کیا جائے۔

اس وقت پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی جانب سے جاری ردالفساد کو جاری تین برس ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل بھی ہم نے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے جو کچھ بھی کیا وہ کافی موثر تھا۔ لیکن ردالفساد کو بنیاد بنا کر ہماری سیاسی اور بالخصوص فوجی قیادت نے دہشت گردوں کو ختم یا کمزو رکرنے اور اس حوالے سے موجود انتظامی، سیاسی، ادارہ جاتی اور قانونی نوعیت کے موثر اقدامات نے ہمیں دہشت گردی اور دہشت گردوں سے قابو پانے میں بڑی مدد دی ہے۔ موجودہ پاکستان سابقہ پاکستان سے بہت بہتر ہے اور اب ہمیں دہشت گردی کا اس انداز میں سامنا نہیں جو ہمیں پہلے تھا۔ ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے خوف اور ڈر کی فضا بھی بہت حد تک ختم ہوئی ہے اور سب سے بڑھ کر ملک کا عمومی تصور داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پرمثبت ہوا ہے۔

بیس نکات پر مبنی نیشنل ایکشن پلان، فرقہ واریت کے خاتمہ میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام پر مبنی پیغام پاکستان کی دستاویز، نیکٹا جیسے اہم اداروں کی فعالیت، پولیس نظام میں دہشت گردی سے نمٹنے کے اہم اقدامات، سائبر کرائم پالیسیاں، سول ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان باہمی رابطہ سازی کو موثر بنانا، انٹیلی جنس نظام کو فعال کرنا، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے کا پیدا ہونا، سماج کو تیزی سے اسلحہ سے پاک کرنا، نفرت انگیز تحریری یا زبانی مواد کو ختم کرنا، کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں کو روکنا، انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر کی آواز کو میڈیا میں پزیرائی دینا، دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ، دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں کی مدد سے سزائے موت دینا جیسے اہم اور موثر اقدامات شامل ہیں۔

یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ہم نے پوری طرح سے دہشت گردی کا خاتمہ کردیا ہے۔ یقینا یہ جنگ ابھی بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے اور ہمیں دہشت گردی کے واقعات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن ماضی کے مقابلے میں ہمارا حال اور مستقبل کافی بہتر نظر آتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اس دہشت گردی سے نمٹنے میں قومی یکسوئی کا عمل ہے۔ یہ قومی یکسوئی کا پیدا ہونا کوئی آسان کام نہیں بلکہ ایک غیر معمولی عمل نظر آتا تھا۔ کیونکہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے قومی سیاسی، مذہبی تقسیم تھی وہ کافی گہری تھی۔

ایسے میں سیاسی اور فوجی قیادت کا لوگوں کو ایک سوچ اور فکر کے ساتھ جوڑنا خود بڑی کامیابی کے زمرے میں آتا تھا۔ اس جنگ سے نمٹنے کے لیے دو سطحوں پر توجہ دی گئی۔ اول فوج اور پولیس سمیت انٹیلی جنس ادارے طاقت کی بنیاد پر دہشت گردوں کو کمزو رکرنا اور دوئم لوگوں کو علمی اور فکری سطح پر یہ شعور دینا کہ وہ دہشت گرد عناصر کے بیانیہ سے خود کو دور رکھیں۔

حالیہ تین برسوں میں آپریشن ردالفساد کو بنیاد بنا کر تقریبا ڈیڑھ لاکھ انتظامی نوعیت کے آپریشن کرکے دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کو ختم کیا گیا، اس مدت میں چار سو کے قریب دہشت گردوں کے مختلف منصوبوں کو ناکام بنایا گیا اور تین سو سے زیادہ دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں سے سزائے موت اور اتنی ہی تعداد میں دہشت گردوں کو دیگر سزائیں دی گئیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہماری دہشت گردی سے نمٹنے کی جنگ کو اب عالمی دنیا میں بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ پاکستان نے ماضی کے مقابلے میں درست حکمت عملی اختیار کرکے دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پالیا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایف اے ٹی ایف میں بھی یہ تسلیم کیا گیا کہ پاکستان نے دہشت گردی سے جڑی مالیاتی دہشت گردی کے حوالے سے بھی موثر اقدامات کیے ہیں۔

یہاں ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کو داد دینی ہوگی کہ ان کے موثر اقدامات سے ہم نے نہ صرف عالمی بلکہ علاقائی یا خطہ کی سیاست میں بھی خود کو امن کے تناظر میں ایک بڑے فریق کے طور پر پیش کیا ہے۔ افغان حکومت، طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والا ماہدہ بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ ہماری سیاسی اور فوجی ڈپلومیسی نے ہمیں داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر کچھ اہم کامیابیا ں دی ہیں جو مستبقل کے پاکستان کے حوالے سے کافی اہمیت رکھتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور اب بھی جو کمزوریاں موجود ہیں ان پر قابو پانے کے لیے سیاسی اور فوجی سمیت معاشرتی سطح پر بہت زیادہ موثر حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی، تاکہ پاکستان خود کو ایک پرامن، محفوظ اور مہذب ملک کے طور پر خود کو ہر سطح پر پیش کرسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments