اہل صحافت: گالی سے گولی کا کم ہوتا فاصلہ


میری ایک بری عادت کہ واٹس اپ گروپ جوائن کر لیتی ہوں لیکن ان میں متحرک نہیں ہوتی۔ زیادہ تر گروپس میں چیٹ کلیئر کرنے جاتی ہوں، اس دوران جس پوسٹ پہ نظر پڑجائے، اور موڈ ہو تواس پہ کمنٹس کردیا ورنہ یہ بور ترین کام لگتا ہے۔ اب کوئی یہ مت کہہ دے کہ جب بات نہیں کرنا ہوتی تو ایڈ کیوں ہوتی ہو یہ کہانی پھر سہی۔ پی ایف یو سی کے سالانہ الیکشن ہورہے تھے، تنظیم کے لوگ اتنے متحرک ہر گز نہیں تھے، جتنا ہونا چاہیے تھا۔

پھر بھی کمپین چل رہی تھی۔ کچھ دوستوں کے میسجز آئے کہ ووٹ ہمیں دینا ہے۔ میں لوگوں سے خود رابطے کرنے کے حوالے سے بہت بری ہوں، بہت کم لوگ، بلکہ محدود لوگ میری کانٹیکٹ لسٹ میں رہتے ہیں، اور ان میں سے بھی رابطہ صرف دو چار سے ہوتا ہے۔ لیکن جن چند لوگوں سے رابطہ ہے، وہی دوست سب کچھ ہیں ہیں۔ لیکن افسوس کہ انھیں احساس نہیں کہ وہ کتنے قیمتی ہیں میرے لئے، لیکن اس کی وجہ بھی میرا نکما پن ہے کہ اظہار کے معاملے میں تھوڑی کنجوس ہوں۔

خیر عمومی طور پہ دوسروں سے رابطہ کم ہی کرتی ہوں۔ تو یہاں یہ معاملہ کہ جس نے پہلے رابطہ کر لیا ووٹ اسی کو دینے کا وعدہ کر لیا۔ سوچا یہ کون سا ملکی الیکشن ہیں جو ملک غلط ہاتھوں میں چلا جائے گا لیکن سچی بات کہ ہر بار صحیح ووٹ ڈالنے پر بھی ملک غلط ہاتھوں ہی میں رہتا ہے جانے کیوں؟ جی تو دوسرا رابطہ کیا عمارہ کنول نے، انھوں نے کہا ووٹ مجھے دینا ہے، میں نے کہا ٹھیک ووٹ آپ کا۔ انھوں نے پوچھا کہ اور کس کو ووٹ دے رہی ہیں، تو میں نے کہہ دیا باقی تو نہیں بتاؤں گی لیکن آپ اور حسام بھائی کا ووٹ پکا ہے، کہ ان سے وعدہ کر رکھا ہے۔

انھوں نے کہا لیکن میں اور حسام تو ایک ہی سیٹ پر ہیں۔ جی۔ میں اپنی بے خبری پر شرمندہ ہونے کی بجائے ہنسنے لگی کہ یہ اپنی عادت ہے ہر خرابی پر شرمندگی کی بجائے ہنسی آتی ہے، اور میرے بھانجے کا شکوہ کہ شرمندہ ہونے کی بجائے ہنستے شرم کیوں نہیں آتی تمھیں، تو اپنا بھی جواب حاضر کہ شرمندہ ہونے کے لئے کوئی بڑا کام ہونا چاہیے ان معمولی باتوں پہ کاہے کی شرمندگی۔ ویسے عمارہ نے میری بے خبری پر مجھے دل میں جو بھی کہا ہو لیکن بظاہر اس ہنسی میں انھوں نے بھی میرا ساتھ دیا۔

میں نے کہا میں تو حسام بھائی سے وعدہ کر چکی، لیکن انکار آپ کو بھی نہیں کر سکتی۔ تو پھر اب آپ ہی بتائیں کہ کیا کیا جائے۔ تو اس کے لئے ایک تجویزدی انھوں نے کہ قرعہ اندازی کر لو، جس کا نام نکل آئے اسی کو ووٹ دے دینا، میں نے یہی کیا۔ دوسرا انھوں نے بتایا کہ وہ صدر ویمن ونگ کی سیٹ کے لئے کھڑی تھیں لیکن کسی وجہ سے انھوں نے سیٹ چھوڑ دی۔ جس کی وجہ سے کچھ اختلافات پیدا ہوگئے۔ اور وہ اپنے دوستوں کے خلاف دوسرے پینل سے کھڑی ہو گئیں، جس کی وجہ سے گروپ میں خاصی لڑائی چل رہی ہے۔

سو تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر گروپ چیٹ پڑنا پڑی۔ یہاں بھی وہی سب ہو رہا تھا جو ہر سطح کے الیکشن میں ہوتا ہے۔ یہاں دو گروہوں کے درمیان نہیں شاید دو لوگوں میں ٹھن گئی تھی، بس جی مت پوچھیں کس نے کس کو کیا کیا نہیں کہا، اور پڑھے لکھے لوگ جاہلوں کی طرح لڑتے دیکھے۔ آوازیں کستے، متوجہ کرتے، تھیٹر لگاتے لوگ بالآخر اس فیصلے پر پہنچے کہ مخالف بد کردار ہی نہیں بد نسل بھی ہے۔ یہ جان کر مجھے شدید افسوس ہوا، کہ آپ ہم کون ہیں کسی کے کردار، کسی کی نسل کا فیصلہ کرنے والے، کہ دوسرے کی پوری نسل ہی بری ہے۔

کسی ایک کے پاس دوسرے کی ذات کو رگیدنے کا اختیار کیسے آگیا۔ میں حیران ہوئی کہ دوسروں کے حق کے لئے آواز اٹھانے والے، کسی کے ساتھ ہوتے ظلم کی نشاندہی کرنے والے، معاشرے میں ہونے والی برائیوں کو بے نقاب کرنے والے، دوسروں کی حق تلفی پر بولنے والے صحافی، قلمکار آپس میں معمولی سی بات پہ لڑ رہے ہیں، عزتیں اچھال رہے ہیں۔ پریشان ہوگئی کہ لکھاری اپنے قلم سے کیا لکھ رہے ہیں، اس کا قلم موتی کی جگہ گالی کیوں بکھیر رہا ہے۔

وہ جو بیڑہ اٹھائے پھرتے ہیں بے باک سچ کا، جو کسی دوسرے کے حق کے لئے آواز اٹھائے پھرتے ہیں آپس ہی میں لڑ رہے ہیں، غلط بات پر کڑھنے والے خود ہی غلط کر رہے ہیں۔ شکر ہے بات منہ ماری تک ہی رہی اور غیرت جیسی کسی چیز نے سر نہیں اٹھایا ورنہ تو عمومی طور پہ تکلیف میں مبتلا شخص کے لئے ضمیر بے شک نہ جاگے لیکن گالی پر غیرت ضرور جاگ جاتی ہے اور پھر گالی کا جواب گولی سے آتا ہے، صد شکر یہ مقام آیا نہیں، شاید اس کی وجہ مد مقابل خاتون کا ہونا تھا ورنہ دو مردوں میں بات دور تلک جاتی۔

کسی تنظیم کے الیکشن ہوں، یونین کے، بلدیاتی یا پھر قومی سطح کے ہر جگہ یہی رویہ دیکھنے میں آتا ہے، کوئی بھی بات ہو، مسئلہ ہو، عام زندگی سے لے کر خاص تک ہر کوئی خود کو برتر اور دوسرے کو کمتر ثابت کرنا چاہتا ہے، دوسروں کو دلیل سے قائل کرنے کی بجائے ذلیل کر کے بات منوانا چاہتے ہیں۔ بات کوئی بھی ہو کسی بھی سطح کی ہو اس میں ذاتیات کو گھسا لیتے ہیں۔ ہر جگہ برداشت کی کمی دیکھنے میں آتی ہے، سچ بولنے کا حوصلہ ہو تو سچ سننے کی ہمت بھی ہونی چاہیے۔

البتہ ایک دوسرے کی عزتیں اچھالنے سے گریز کرناچاہیے، بہتان اور الزام تراشیوں کاسہارا لے کر مخالف کو شکست دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ بات یہ کہ مرد ہو یا عورت عزت سب کی ہے ایک مرد کو حق نہیں کہ وہ عورت کو کمزور سمجھ کر اس کی کردار کشی شروع کردے، اور نہ ہی کسی عورت کو یہ حق ہے کہ وہ مظلومیت کی چادر اوڑھ کر کسی مرد پر حملہ کرے اور پھر عورت ہونے کا فائدہ اٹھا کر بے بسی کا واویلا شروع کر دے۔ مرد ہو یا عورت کسی کی تضحیک کے لئے کوئی بھی ایسا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے جو دوسرے کی دل آزاری کا باعث بنے اور پھرضبط کے بندھن ٹوٹ جائیں۔

کوئی بھی معاملہ ہو دفتری، گھریلو، تنظیمی یا سیاسی ہر جگہ دلیل سے قائل کرنا چاہیے نا کہ ذلیل کر کے، کہ اس سے دوسرا قائل ہر گز نہیں ہوتا البتہ بعض اوقات معاملات اس حد تک بگڑ جاتے ہیں کہ دوسرا فریق مخالف کو قائل کرنے کی بجائے قتل کر دیتا ہے، ایسی نوبت ہی نہیں آنے دینی چاہیے جس سے معاملات سدھرنے کی بجائے خراب ہو جائیں۔ صرف اپنی ہی بات سنانے، منوانے کی عادت کو ترک کر کے دوسرے کو سننے کی روایت بھی اپنانی چاہیے، کہ ضروری نہیں ہوتا ہر بار آپ ہی ٹھیک ہوں، بعض اوقات سامنے والا، مخالف بھی غلط نہیں ہوتا۔ معاشرتی حسن کے لئے برداشت اور روئیوں میں توازن ضروری ہے۔ کہ عدم برداشت سے اکثر گالی سے گولی تک کا فاصلہ سمٹ جاتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments