پرویز رشید دیوتا نہیں، رشی منی ہیں


ہمارے ہاں کچھ بھی نہیں بدلا۔ یہ ایک خاص قسم کی جمہوریت ہے۔ انتہائی محدود اختیارات والی جمہوریت۔ یہ اکثر خطرات کا شکار رہتی ہے۔ اس کے تقدس کی قسمیں کھائیں جاتی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی دشمن کو سیاست دان ’’تیسری قوت‘‘ کہتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے اس حریف کے لیے ’’امپائر‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کا پرانا نام ’’مقتدر قوتیں‘‘ ہے۔ یہ جو بھی ہیں بہرحال سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ سب سے زیادہ مُحب الوطن ہیں۔ یہ بھی خیال ہے کہ کسی کی حُب الوطنی کی جانچ پرکھ اور اس کا گراف لیول دیکھنا بھی اسی ’’قوت‘‘ کا کام ہے۔ اس ’’قوت‘‘ کا کہنا ہے کہ سیاست دان کرپٹ ہیں جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم پاک پوتر ہیں۔ اس ’’امپائر‘‘ کا یہ بھی خیال ہے کہ وہ حکومتیں بنانے اور گرانے کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔ ہاں یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے۔ 70 سالہ ماضی اس کا گواہ ہے۔

 بات انگریزی روزنامے ڈان میں شائع ہونے والی سرل المیڈا کی اسٹوری سے شروع ہوئی جس کا حاصل یہ تھا کہ فوج اور منتخب حکومت کے درمیان دہشت گردی کو ختم کرنے کی پالیسی کے بارے سے تضادات پائے جاتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی کیونکہ لوگ اب اس جملے ’’فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہیں‘‘ کی کریڈیبلیٹی سے خوب واقف ہیں۔ بھائی لوگوں کو غصہ صرف اس بات پر آیا کہ اتنی حساس میٹنگ کی روداد باہر گئی کیسے؟ سو بپھر گئے، حکومت کو اپنی اوقات کا پتا ہے سو اس نے تحقیقات کروانے کا وعدہ کر لیا۔ بھائی لوگوں کی پھولی ہوئی سانس وقتی طور پر معمول کے مطابق ہوئی مگر اس ’’گستاخی‘‘ کی قیمت ابھی وصول ہونا باقی تھی۔

 بوکھلائی ہوئی حکومت نے پہلے پھرتی دکھائی اور صحافی سرل المیڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا۔ ردعمل میں خوب جگ ہنسائی ہوئی۔ پھر نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا۔ اب ذرائع کی تلاش شروع ہوئی کہ یہ خبر لیک کس نے کی۔ بھائی لوگوں کو بار بار اطمینان دلایا گیا کہ ہم بندہ پکڑ کر سامنے لائیں گے، آپ بے فکر رہیں۔

اس دوران عمران خان نے 2 نومبر کواسلام آباد بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ حکومت کی بوکھلاہٹ میں مزید اضافہ ہوا۔ عمران خان نے فوج کی بدنامی کو خوب اچھالا اور حکومت کے خوب لتے لیے۔ حکومت مزید زچ ہوئی اور اسے ’’تیسری قوت ‘‘ کا خطرہ نظر آنے لگا۔ دو دن قبل ناراض دیوتاؤں کو منانے کے لیے دو عدد وفاقی وزراء اپنے ساتھ ایک عدد ’’اصلی اور وڈا ‘‘ وزیر اعلیٰ لے کر پیش ہوئے۔ ایک وزیر نے اس حاضری کے بعد میڈیا کو بتایا کہ ’’ وہ جو ہے ناں نیشنل ایکشن پلان، ہم اس کے بارے میں باتیں کرنے گئے تھے‘‘۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ بس آئیں بائیں شائیں ہی تھا۔

 اس سارے سیاپے کا ڈراپ سین آج ہوا۔ شام کے وقت دیوتاؤں کے چرنوں میں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کی قربانی دے دی گئی۔ مسلم لیگ نواز اور نواز شریف کی قربت کا دعویٰ کرنے والے صحافی سلمان غنی کے بقول انہیں میڈیا کو یہ خبر لیک کرنے کی پاداش میں فارغ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل جب عمران خان نے ایک سو چھبیس دن کا دھرنا دیا تھا تو لیگی حکومت نے ببانگ دہل اپنی بات کرنے والے مشاہد اللہ خان کو وزارت سے ہٹا دیا تھا۔ یہ بھی دیوتاؤں کو خوش کرنے کا عارضی ٹوٹکا تھا۔

 یہ سطور لکھتے ہوئے میں پرویز رشید اور مشاہد اللہ کے درمیان کچھ مماثلتیں سوچ رہا تھا تو میرے سینئر دوست محمود الحسن نے میری مشکل آسان کر دی۔ انہوں نے لکھا:’’مشاہد اللہ کی پرویزمشرف کے دور میں خوب درگت بنی، وہ وزارت سے ہٹے۔ پرویز مشرف کے دورمیں پرویزرشید نے خوب مار کھائی، ان کو بھی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ قربانی کا بکرا پارٹی کے لیے قربانی دینے والے ہی کیوں؟ ان دونوں کا چودھری، سردار، نواب وغیرہ نہ ہونا بھی ان کے خلاف جاتا ہے۔ دونوں ہی مڈل کلاسیے ہیں۔ کل ایک صاحب پریس کانفرنس میں پرویز رشید کو وزارت سے ہٹائے جانے پر سرکاری موقف دیں گے، موصوف کے بارے میں اتنا بتا دینا ہی کافی ہے کہ انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دور آمریت میں ایک دفعہ بھی جیل نہیں گئے۔‘‘

 حکومت کا یہ ٹوٹکا خفا دیوتاؤں کو کس حد تک خوش کر سکے گا، اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ عمران خان دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کے موقف پر قائم ہیں اور حکومت انتظامی مشینری کے ذریعے گزشتہ دو دنوں سے غلطیوں پر غلطیاں کیے جا رہی ہے۔ بوکھلائے ہوئے وزیر اور مشیر ہر چند گھنٹوں کے بعد پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے بورڈ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور جگت بازی سے ناظرین کو محظوظ کرتے ہیں۔ خود میاں صاحب نے عوامی جلسے اور نئے منصوبوں کے اعلانات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس سارے ہنگامے کے بیچوں بیچ جو ’’تیسری قوت‘‘ کا خطرہ پنپ رہا ہے، حکومت نے آج اس کو کسی حد تک کم کرنے کے لیے اپنے وفاقی وزیر کی قربانی دی ہے لیکن گارنٹی کیا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

 پرویز رشید کی مسلم لیگ نواز کے ساتھ وابستگی البتہ مستحکم ہے۔ وہ اس فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کریں گے اور ’’سب کچھ‘‘ اپنے اوپر لیں گے۔ خیال یہ ہے کہ وہ کسی بھی صورت وعدہ معاف گواہ نہیں بنیں گے۔ آنے والے تین چار دنوں میں کیا ہو گا، اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن ایک سوال بہر حال قائم رہے گا کہ یہاں دستیاب جمہوریت کب تک ایسی ڈرپ کے سہارے چلتی رہے گی جس کا پائپ موڑ کر کسی ’’تیسری قوت‘‘ نے اپنی مٹھی میں رکھا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments