پاکستان میں خطرناک وائرس پہلے سے موجود ہے


چین کے شہرووہان سے شروع ہونے والی مہلک بیماری کورونا وائرس نے چائنہ میں تباہی مچانے کے بعد بیشتر ممالک کا رخ کر لیا۔ بد قسمتی سے وطن عزیز میں بھی اب تک دو کیس رپورٹ ہو چکے ہیں میڈیا پر یہ خبر نشر ہونے کے بعد پاکستان میں خوف کا عالم ہے۔ لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔ اس ڈر کی وجہ وائرس تو ہے ہی لیکن اس سے بڑی وجہ ہمارے ملک میں طبی سہولیات کا فقدان ہے لوگ گبھرائے ہوئے ہیں کہ جب چائنہ جیسے ملک میں اس بیماری نے کاروبار زندگی مفلوج کر رکھا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ جان کی بازی ہار گئے ہیں تو ہمارے ملک میں اس بیماری کا سامنا کرنا کتنا مشکل ہو گا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ جس ملک میں اس وائرس سے زیادہ خطرناک بیماریاں پہلے سے ہی موجود ہوں انہیں یہ وائرس کیا کہے گا؟ بے حسی، بے ایمانی اور منافع خوری جیسی فطری بیماریاں ہمارے معاشرے کی جڑوں میں پھیل چکی ہیں خوشی ہو یا غمی، کوئی مصیبت یا قدرتی آفت ہم اس قدر خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اس صورت میں بھی اپنے ہی لوگوں کو لوٹنے کا کوئی مو قع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

کوروناوائرس سے بچاؤ کے پیش نظرسرجیکل ماسک کی مانگ میں اضافہ کیا ہوا روایتی منافع خوروں نے اس موقع سے بھی خوب فائدہ اٹھانے کے لئے کمر کس لی، اب صورت حال یہ ہے کہ اول تو ماسک مل ہی نہیں رہے اور اگر مل رہے ہیں تو دوگنی، چوگنی قیمت میں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ وہ مسلمان جو غیر مسلم ممالک میں کسی بھی ایسی قدرتی آفت کو اللہ کا عذاب قرار دیتے ہیں اپنے لوگوں پر جب ایسی کوئی آفت آتی ہے تو خدا کے غضب کو بھول جاتے ہیں اور بے ایمانی اور بے حسی کی آخری حد کو پہنچ جاتے ہیں۔

ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے یہاں تک کہ رمضان جیسے بابرکت مہینے میں بھی برکتیں سمیٹنے کی بجائے منافع سمیٹنے کو ترجیح دیتے ہیں اشیائے خور و نوش کی قیمتیں بڑھا کر اپنے ہی لوگوں کے لئے اس مہینے میں گزر بسر کو مزید مشکل کر دیتے ہیں اور ناصرف رمضان، عید پر بھی اپنوں کی خوشیوں کو پھیکا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے وہی غیر مسلم لوگ جن پر ہم فتوے لگاتے ہیں وہ ایسے مواقع پر اپنے لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں جس کا حکم ہمیں ہمارا مذہب دیتا ہے مگر ہم سے زیادہ وہ لوگ اس پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔

کہتے ہیں پریشانی والے گھر تو بھکاری بھی آواز نہیں لگاتا لیکن یہ کیسے بے حس لوگ ہیں جو سڑک پر سونے اور مانگ تانگ کر گزر بسر کرنے والے بھکاری سے بھی گئے گزرے ہیں اور اس پریشانی کے عالم میں بھی اپنے ہیں ملک میں اپنے ہی لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ جیسے عوام ویسے حکمران، جو غفلت کی ایسی نیند سو رہے ہیں کہ کسی بھی ایسی صورتحال پر قابو پانے میں یا تو دلچسپی نہیں رکھتے یا مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ فرضی کارروائیوں کے دلاسوں سے عوام کو بھی غفلت کی نیند کی لوری دیتے رہتے ہیں تا کہ یہ سوتے رہیں اور کوئی تماشا نا کریں لیکن یہ عوام بھی حکمرانوں کی نا اہلی پر کیا آواز اٹھائیں گے؟ جو خود بھی اسی بے حسی پر مبنی فلم کے کرادر ہیں اور اپنے رول کو بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔

جسمانی بیماریاں تو خطرناک ہیں ہی اور کسی حد تک قابل علاج بھی ہیں ہی لیکن یہ فطری بیماریاں جو بظاہر ہمیں خطرناک نہیں لگتی ہمارے ضمیر کو مردہ کر چکی ہیں اور مردہ ضمیر کا نا قابل علاج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments