دلی اور اس پر بیتے ظلم کی کہانی


جیسے رشتہ داروں کی طرح آپ اپنے پڑوسی نہیں چُن سکتے، ویسے ہی پڑوسی ملک میں کون اقتدار میں آئے گا، اس کا فیصلہ بھی آپ نہیں کرسکتے۔ بھارت کا المیہ یہ ہے کہ اس کے وزیراعظم نریندر مودی ہیں، امیت شاہ یہاں کے وزیر داخلہ، اس کی معیشت انوراگ ٹھاکر کے ہاتھوں میں ہے اور یوگی آدتیہ ناتھ جیسے رہنما یہاں وزارت اعلیٰ کی گدی پر براجمان ہیں۔

آپ شاید اِن کی صلاحیتوں پر کوئی انگلی نہ اُٹھا سکیں لیکن اِن کی نیت پر ضرور اُٹھا سکتے ہیں، اِن کے دامن پر گجرات فسادات کے داغ ہیں، یہ جب بھی تقریر کرتے ہیں تو زہر اُگلتے ہیں، اِن کے اشاروں پر شہر اُجڑ جاتے ہیں، بستیاں جلادی جاتی ہیں، لوگ مار دیے جاتے ہیں لیکن نہ تو انہیں شرم آتی ہے نہ ہی یہ اپنی نا اہلی کا اعتراف کرتے ہیں۔

دلی کو ہی لے لیجیے، جسے ایک بار پھر اُجاڑ دیا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے دوران جب کہ سیکیورٹی انتظامات انتہائی سخت تھے، غالب کے شہر میں تین دن تک آگ اور خون کا کھیل کھیلا جاتا رہا، شہر کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال مرکز سے متاثرہ علاقوں میں فوج تعینات کرنے کا مطالبہ کرتے کرتے تھک گئے لیکن امیت شاہ فوج کی تعیناتی سے انکاری رہے۔

تین روز کے دوران پچاس کے قریب افراد جان سے چلے گئے، تین سو زخمی ہوئے، گھر، گاڑیاں، پیٹرول پمپس اور دکانیں بلوائیوں نے کچھ نہ چھوڑا، جو ہاتھ لگا سب تباہ کرڈالا، فسادات کے دوران کچھ نہ کرنے والی دہلی پولیس نے حالات نارمل ہوتے ہی مقدمات درج کرنے کی سنچری کرلی لیکن حملوں اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث صرف ایک سو چھ افراد کو ہی گرفتار کیا جا سکا۔

دہلی میں کھیلی گئی خون کی ہولی کا آغاز کپل مشرا کے اُس بیان سے ہوا تھا جس میں انہوں نے مسلم مخالف قانون کے خلاف احتجاج کرنیوالوں کو کھلی دھمکی دیتے ہوئے احتجاج ختم کرنے کا کہا اور پھر تین روز بعد وہی ہوا جس کا ڈر تھا، مسلم آبادیوں پرایک منظم منصوبہ بندی کے تحت حملے ہوئے، مساجد کی بے حرمتی کی گئی اور مسلمانوں کا چن چن کر قتل عام کیا گیا۔ ستم ظریفی یہ کہ جب دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایس مرلی دھر نے دنگوں کے حوالے سے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ دہلی میں 1984 کی تاریخ دہرانے نہیں دیں گے اور ساتھ ہی نفرت انگیز بیانات دینے والے کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر سمیت دیگر بی جے پی رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کرنے کا حکم دیا تو راتوں رات اُن کا دہلی ہائیکورٹ سے پنجاب ٹرانسفر کردیا گیا

شاید اسی لیے بشیر بدر نے یہ شعر کہا تھا

دل کی بستی پرانی دلی ہے

جو بھی گزرا ہے اس نے لوٹا ہے

لیکن اس سب کے باوجود متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین نے جھکنے سے صاف انکار کردیا۔ دہلی کے شاہین باغ میں جمع احتجاجیوں کا گلدستہ اپنی خوشبو سے دہلی میں پھیلی آگ اور خون کی بو دفن کر رہا ہے، اس گلدستے میں مسلمان بھی ہیں اور عیسائی بھی، ہندو بھی ہیں اور دلت بھی۔ ریاستی جبر کے سامنے خواتین، بچے، بڑے اور بوڑھے سب ڈٹ کر کھڑے ہیں اورشاید یہی وہ کرنیں ہیں جو جبر کی تاریکی میں اُمید کا سورج روشن کریں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments