زمانے کے انداز بدلے گئے


پردہ کرنا اور پردہ رکھنا یہ دونوں ہی بڑے مشکل کام ہیں۔ اور ان کو کرنے کے لئے پتا نہیں کن کن لوگوں کی باتیں طنزیہ نگاہیں سہنی پڑتی ہیں، کن کن موقعوں پر ان پردہ نشینوں کی ذرا سی لغزش کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے یہ وہی جانتی ہیں جو سہتی ہیں یا سہ رہی ہیں۔ اور پھر بھی اس کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دیتیں۔

عبایہ ایک زمانے میں بالکل ختم ہو گیا پھر اچانک گھٹنوں اور ٹخنوں تک کے عبائے آنے لگے اور لڑکیا ں دھڑادھڑ عبایا زیب تن کر نے لگیں لیکن پتا نہیں اسے آپ ہماری بدقسمتی کہہ لیں یا کچھ اور کہ عبائے کی آڑ میں اپنی مرضی اور من مانیاں کرتے ہوئے ہم نے کئی لڑ کیوں کو دیکھا۔ شروع سے مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھنے کا یہی نقصان ہوتا ہے ہر بات کھل کے سامنے آجاتی ہے ہم جس لڑکی کو سمجھتے کہ بہت باپردہ ہے پتا چلتا کہ عزیز بھٹی پارک اسے لازمی جانا ہوتا۔

کئی جگہیں تو ہماری آنکھیں اس وقت کافی پھٹ جاتی کہ جو لڑکی کالج میں ہر نئے لڑکے کے ساتھ گھوم رہی ہوتی اس کا ٹریڈ مارک بھی برقعہ ہے اور کالج کی کسی تقریب میں بغیر حجاب کے آتی اور دوسرے دن تقریب کا احوال ہم سے معلوم کر رہی ہوتی اور ہم آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہے ہوتے کہ کل آئی تو تھی جب پتا نہیں چلا اسے۔ اور ایک دو جگہیں تو جب ہم نے لڑکیوں کے برقعے اترتے دیکھے تو ہمیں لگا کہ یہ یتیم ہیں آخر جب یہ لڑکیاں گھر میں تیار ہوتی ہیں تو ان کی مائیں کہاں ہوتی ہیں؟ کیا وہ نابینا ہوتی ہیں؟ جنہیں لڑکیوں کے کپڑے کا پتا ہی نہیں ہوتا کہ وہ عبایا کے اندر کیا پہنے ہوئے ہوتی ہیں۔

اور اب ہم اس عبایہ اور اسکارف کے سفر کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں لڑکیاں جوق در جوق عبایہ اور اسکارف پہن رہی ہیں۔ اور کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ پردہ صرف بالوں کا ہی باقی لباس کوئی بھی زیب تن کر رکھا ہو اس میں شاید کوئی قباحت نہیں یا شاید جہاں دل کرتا ہے وہاں شریعت آجاتی ہے اور جہاں۔ ۔ ۔

خیر۔۔۔ چھوڑیں سب کی اپنی اپنی مرضی ہے جس انداز پہنے اوڑھے ہم کیا کہ سکتے ہیں۔ ہم تو اپنی کچھ دن والی کیفیت آپ سے بیان کرنا چاہ رہے تھے جو کہ ہم نے آگے شعری انداز میں لکھی ہے اگر یہ آزاد نظم کوئی شاعر پڑھے تو اس میں یقینا ہزار غلطیاں نکالے لیکن جناب یہ اس دل کی آواز ہے جب ہم نے ایک بچی کو دیکھا جو انتہائی سخت ترین گرمی میں سڑک پار کر رہی تھی ہماری پہلی نظر اس کے سفید کپڑوں پر پڑی جس پر نارنجی رنگ کہیں کہیں پر اپنی بہار دیکھا رہا تھا۔ ہم بس اسے دیکھتے گئے اور ہمیں لگا کہ کالج کے زمانے کی روح ہمارے اندر حلول کر گئی ہے اور وہیں اس سڑی ہوئی گرمی میں یہ نظم ہمارے شیطانی دماغ نے بنانی شروع کردی۔

مجھے حجاب پسند ہے

مجھے اسکارف پسند ہے

ہلکا گلابی تہہ در تہہ سر پہ میرے جما ہوا

پھول سنہر ا اس میں ٹکا ہوا

کنارے لیس سے سجا ہوا

سر پہ میرے جما ہوا

حسن کو میرے اجاگر کرتا ہوا

سفید بال میرے چھپاتا ہوا

دھوپ سے مجھ کو بچاتا ہوا

مجھے حجاب پسند ہے

مجھے اسکارف پسند ہے

آنکھیں میری تنی ہوئی

پلکیں میری سجی ہوئی

گال میرے گلابی

ہونٹ میرے عنابی

ناک میری ستواں

ماتھا میرا چڑھا ہوا

مجھے اسکارف پسند ہے

مجھے حجاب پسند ہے

اس شدید گرمی میں

لو کے تھپیڑوں میں

گاڑیوں کے دھؤوں میں

زمانے کے پلوشن میں

مجھے بچائے مجھے رکھے تروتازہ

نکھر ا نکھر ا ستھرا ستھرا

مجھے اسکارف پسند ہے

مجھے حجاب پسند ہے

ہلکا گلابی تہہ در تہہ سر پہ میرے جما ہوا

سفید کرتا ململ کا کڑھا ہوا

جینز کی پینٹ پر سجا ہوا

سینڈل جو میں نے پہنی ہو

ڈوریاں اس کی ٹخنوں تک سجی ہوں

سفید گلابی میرے پیر

ہاتھوں کی اور پیروں کی کروں میں کیور

مینی ہو یا پیڈی کیور

مجھے اسکارف پسند ہے

مجھے حجاب پسند ہے

ثمینہ صابر
Latest posts by ثمینہ صابر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments