نسلی تفریق کے قوانین (جم کروز لاز): امریکی تاریخ کا سیاہ باب


کچھ میری عادت ہے بات کی گہرائی میں جانے کی۔ لہٰذا اکثرحال کے رویہ کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے ماضی کی گلیوں میں چلی جاتی ہوں۔ جہاں بہت ہی کمسنی میں راگ الا پتی کچھ ایسی یادیں ہیں جو آج بھی بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیتی ہیں۔ شاید یہ بازگشت آپ کی یادوں کا بھی حصہ ہو کہ جب کراچی میں کم عمر معصوم بچے بنا سوچے سمجھے با جماعت بظاہر مہمل لیکن درحقیقت زہریلے کلمات الاپ رہے ہوتے تھے۔ مثلاً

اوپر سے گری چابی

سب مر گئے پنجابی

بنگالی بابو آیا۔ مرغی چرا کے لایا

مرغی نے دیے انڈے اللہ میاں سچے

یہی ہے یہی ہے پکڑ لو اسے

محمدؐ کا کلمہ سکھا دو اسے

”سندھی کاہل وجود ہوتے ہیں“۔ ”پٹھان بچوں کو پکڑ کے لے جاتے ہیں“۔ ”شیعہ تھوک کے پانی پلاتے ہیں۔ اور یہ بچوں کو کاٹ کے کھا بھی جاتے ہیں۔ “۔ ”سنی مچھروں کی طرح گندگی میں پلنے والے تو شیعہ بستروں میں رہ کر خون پینے والے“۔ ”ہندو کے ہاتھ کا پکا کھانا ناپاک ہوتا ہے“۔ ”عیسائی جمعدار نچلی ذات کا پلید ہے اس کے پانی کا گلاس الگ رکھو۔ “

باوجود اس کے کہ ان سوچوں کا دخول میرے گھر میں نہ تھا مگر یہ سوچیں کسی نہ کسی سطح پہ احساس برتری، جہالت اور غربت کی گودمیں پرورش پاتے معاشرہ میں برسوں پنپتی رہی ہیں کیونکہ ان کو سماجی، اخلاقی اور ریاستی سطح پہ چیلنج نہیں کیا گیا۔ اور پھر بعد کے برسوں میں ہم نے دیکھا کہ یہی سوچیں اور رویہ آسیب بن کر قانون کی صورت نافذ بھی ہو گئیں۔

میں جب آج کا پاکستان دیکھتی ہوں کہ جس میں نسل، مذہب، فرقہ اور علاقائی تفریق کی بنا پہ نفرتوں کا بازار گرم ہے۔ جب چرچ جلتے، مندر تباہ ہوتے، امام بارگاہیں مقتل کدہ بنتی ہیں، احمدیوں کو نوکریاں نہیں ملتیں اور ہندو بچیوں کو بھگا کر اور مشرف بہ اسلام کرکے ان سے شادی کی جاتی ہے تو میں انسانیت پہ نوحہ کناں تو ہوتی ہوں مگر مجھ پہ حیرت کے پہاڑ نہیں ٹوٹتے۔ ایسا تو ہونا ہی تھا۔ سماجی سوچ اور رویے اگر چیلنج نہ کیے جائیں تو قانون بن کر پورے ملکی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔

اب دو ڈھائی دہائی سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا وطن کی سر زمین سے وداع ہوئے۔ وہ خطہ جہاں میں نے آنکھ کھولی اورسماج بدلنے کے خواب دیکھے۔ سماج تو نہ بدلا لیکن کسی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی زندگی کا راستہ بدل گیا کہ جس کا اگلا پڑاؤ امریکہ تھا۔ نقل مکانی کے وقت بازو پہ امام ضامنؑ ہی نہیں، ہمارے خیر خواہوں نے دعاؤں کی گٹھری کے ساتھ پلو میں کچھ نصیحتیں بھی باندھیں، خاص کر یہ کہ ایرپورٹ پہ ان ”کالوں“ (افریقن امریکن) سے بچ کے رہنا۔ اور اپنے سامان اور پرس کی حفاظت کرنا۔ لوٹ لیتے ہیں۔ بلکہ اکثر تو چاقو سے حملہ بھی کر دیتے ہیں۔ تمھارا دو ننھے بچوں کا ساتھ ہے۔ ”اس طرح نئی زمین پہ قدم رکھنے سے پہلے ہی میرے دل میں ایفرو امر یکیوں کے خلاف خوف، ہزیمت اور نفرت کا بیج بونے کی کوشش کی۔

حالانکہ ”ہم سب“ کے فورم میں کچھ ادیب امریکہ کا وہ چہرہ قارئین کو دکھاتے ہیں کہ جس کو دیکھ کر جنت کی خوبصورتی بھی پیچھے رہ جائے۔ جو شایدایسی غلط بھی نہ ہو لیکن یہ پورا سچ نہیں۔ خو ش قسمتی سے میں امریکہ میں ایک سوشل ورکر کی حیثیت سے کام کرتی ہوں لہٰذا مجھے اس آدھے چہرے کی نقاب اٹھانے کا موقع بارہا ملتا ہے جس کے دیدار سے اکثر سرسری گزرنے والے محروم ہیں۔ تفصیل تو طویل ہے مگر آج بات ایک ہی موضوع تک محدود رکھتے ہیں۔ اور وہ ہے کالے اور گوروں یا مختلف قومیت رنگ و نسل کے درمیاں تفریق جو کسی نہ کسی سطح پہ امریکہ میں آج بھی جاری ہے۔

چونکہ کسی کے بھی حال کو سمجھنے کے لیے ماضی کو کھنگالنا ضروری ہے۔ لہذا اپنے موضوع کو اس ملک میں نسلی تفریق کی بنیاد پہ ماضی میں نافذ ”جم کروز لاز“ کے حوالے سے آگے بڑھاؤں گی۔ جو امریکہ میں ریاستی اور مقامی سطح پہ قانوناً رائج تھے اورجن کا آغاز انیسویں صدی کے اواخیر سے شروع ہوکر بیسویں صدی میں شہری حقوق کی تحریک تک جاری رہا۔ ان شرمناک قوانین کامقصد افریقی سیاہ فام نسل کو نسلی طور پہ برتر سفید فام کے مقابلہ میں کمتر اور حقیر نسل قرار دیتے ہوے زر خرید غلام بنا کر اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا اور پاور اور کنٹرول کے اس کھیل کو برقرار رکھنا تھا جو کم و بیش دو سو سال تک جاری رہا۔

بلکہ آج بھی جاری ہے۔ (ہم میں سے اکثر کو پتہ ہے کہ شمالی امریکہ اوردنیا کے دوسرے حصوں میں 5251 عیسوی سے 6681 عیسوی کے دوران بحری جہازوں میں بھر کر آنے والے ا فریقی باشندوں کو مویشیوں کی طرح بولی لگا کر ان کو خرید کر اپنے تصرف میں لایا گیا۔ ) امریکہ میں سیاہ فام نسل کے خلاف جم کرو قوانین مسلسل نا انصافی اور مجرمانہ تفریق کے عمل میں تسلسل کا باعث رہے۔

اب آپ پوچھیں گے کہ آخر ”جم کرو“ صاحب ہیں کون؟ جو امریکہ میں غلامی کے خاتمہ کے اعلان کے بعد بھی براجماں رہے؟ تو اس کی بھی ایک کہانی ہے۔

امریکہ میں خاص کر جنوب میں معیشت کی ترقی میں میں افریقہ سے درآمد غلام کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی تھی۔ جو کھیتوں میں فصلیں اگاتے۔ اپنے بیوی بچوں سے دور اپنے آقاؤں کی خواہشوں کا پیٹ بھرتے۔ ادہران کے گھر والوں سے بھی مشقت ہی نہیں کرائی جاتی بلکہ انہیں ایک دوسرے سے جدا بھی کر دیا جاتا۔ ان کو تعلیم، گھر، لباس حتی کہ مناسب غذا بھی پیٹ بھر نہ ملتی۔ اپنے حقوق کے لیے افریقیوں کو انتظار کی طویل سیاہ راتیں کاٹنی پڑیں مگر جب تیرہویں اور بعد میں چودویں اور پندرہویں ترمیم کے بعدغلامی غیر قانونی پائی تو آزادی مل گئی تو برابری کا درجہ ملنا تو آسان نہ تھا۔ لہٰذا ان نو آزاد افریقیوں کی اسٹیج کے کرداروں کی مدد سے تمسخر اڑا کے تفریحًا ایک ایسی تصویر پیش کی گئی جو جنوب کے غلام افراد کی ذلت آمیز تصویر تھی۔

ان اسٹیج شوز کا بانی نیویارک کا رہنے والاگلوکار اور نغمہ نگار ”تھامس ڈارٹمت ڈیڈی رائس“ تھا جو 8081 میں پیدا ہوا۔ اس نے امریکہ کے جنوب میں جاکرغلاموں کا مشاہدہ کیا اور کچھ کردار وں کی تشکیل کی جن کو سفید فام اپنے چہرے پہ کالک (کوئلہ یا کالی پولش) مل کر ہیٹ اور کوٹ پہن کر اسٹیج پہ ادا کرتے۔ ان بلیک فیس منسٹرل شوز میں تیز متحرک ناچ اورمبالغہ کی بنائی مفروضات پہ مبنی افریقینوں کے خلاف مواد ہوتا۔ جن میں انہیں کاہل، بیوقوف، جاہل، مجرم اور جنسی طور پہ بے قابو دکھایا جاتا۔

اس کا سب سے مقبول اور بیوقوف کردار بوسیدہ لباس میں ملبوس ”جم کرو“ تھا جو گانا گاتا ”جمپ جم کرو“۔ یہ اسٹیج شوز اتنے عام ہوئے کہ لندن تک پہنچ گئے۔ اس طرح اس دور میں ایک نسل کی تضحیک اپنے کو برتر سمجھنے والی سفید فام قوم کے کلچر کا حصہ بن گئی۔ اور پھر یہ تفریقی رویہ بعد کے سالوں میں قانون کی صورت لاگو ہوا۔ اس رویے کی وجہ سے ہی نفرت اور دہشت سے بھری مشہور زمانہ کے کے کے (ka Kluk klan) جیسی تحریکوں نے افریقیوں کے خلاف نفرت کا محاذ کھڑا کر دیا۔ جو ان کے گھرجلاتے اور تشدد کرتے۔ (مجھے امید ہے کہ اس واقعہ سے آپ کو ضیا دور کے قوانین اور ان کی شہ پہ مختلف فرقوں اور علاقوں کے خلاف روا پرتشدد رویہ ضرور یاد آگیا ہوگا۔ ) بلیک فیس کی یہ تاریخ 0791 تک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

اب کچھ ان قوانین کا بھی ذکر ہوجائے جو امریکہ کی تاریخ کا شرمناک باب ہیں۔ اور جن کو ”جم کرو“ کے فرضی کردار کی مناسبت سے ”جم کرو لاز“ کا نام دیا گیا۔ کیونکہ ان اسٹیج شوز نے ثقافت کو استعمال کرتے ہوئے قوم کا ایک خاص مزاج بنانے میں بنیادی کام کیا۔ جم کرو لاز جنوبی امریکہ میں نسلی تفریقی بنیاد پہ علیحدگی کی تحریک کے حامی ہی نہیں بلکہ انہیں برقرار رکھنے کے لیے جنوب کی ریاستوں میں قانوناً 7781 عیسوی سے 5691 عیسوی تک لاگو رہے۔

تاہم اس سے پہلے کہ ہم جم کرو قوانین کا ذکر کریں 0691 میں ہونے والا ایک واقعہ سنیں جو ایک چھ سالہ ایفروامریکی لڑکی ”روبی بریجس“ کے اسکول کے پہلے دن پیش آیا۔ گو 0691 تاریخ کے اعتبار سے اتنا پرانا نہیں لیکن اہم ضرور ہے کیونکہ خاص کرجنوبی ریاستوں میں اس وقت تک ایفریقن بچے سفید نژاد بچوں کے اسکول میں نہیں جاتے تھے۔ ”روبی نیو“ اورلین میں رہنے والی تاریخ ساز پہلی بچی تھی جو مقابلہ کے امتحان میں بہترین نمبر لے کر صرف گورے بچوں کے اسکول میں داخلہ کی حقدار ہوئی۔

پہلے دن یہ بچی دو پولیس مارشلز کی حفاظت میں اسکول میں داخل ہوئی۔ اس کے دونوں جانب مخلوط تعلیم کے اس فیصلہ سے چراغ پا والدین شدید احتجاج کررہے تھے۔ اکثریت نے اپنے بچے اس وجہ سے نکلوا لیے تھے کہ وہ اپنے بچوں کو کسی کالی رنگت والی نسل کے ساتھ برابری سے پڑھتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ روبی پورے ایک سال تک اکیلی ہی ایک گوری اور نرم مزاج ٹیچر مس ہنری سے پڑھتی رہی۔

تاہم بعد میں بتدریج گورے بچوں کے اسکولوں میں کالی رنگت والوں کی تعداد بڑھی۔ یہ واقعہ اسی نسلی تفریق کی مثال ہے کہ جس کو ”جم کرو لاز“ نے یقینی بنایاکہ کالوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا اور بظاہر برابری کا درجہ دینے کے باوجود دونوں قوموں کوعلیحدہ رکھا جائے۔

مثلا افریقی امریکی کو سفید فام کے اسکولوں، ہسپتالوں، جیلوں، ریسٹورنٹس اور رہائشی مکانات میں رہنے کی اجازت نہ تھی۔ اس رویئے کی چند اہم مثالیں درج ذیل ہیں۔

1۔ کسی بھی شہری کا سب سے اہم رائے دہی یا ووٹنگ کا حق ہے افریقی نژاد شہریوں کو نسلی طور پہ کمتر اور کم عقل جان کر حقِ رائے دہی سے عرصے تک محروم رکھا گیا۔

2۔ ایک کالا آدمی کسی گورے سے ہاتھ ملانے کے لئے نہیں بڑھا سکتا تھا۔ اسی طرح زنا کے خدشہ کے باعث وہ کسی سفید عورت کو چھونے کا مجاز نہ تھا۔

3۔ کالے اور گورے ساتھ بیٹھ کر نہیں کھانا کھا سکتے تھے اور اگر وہ ساتھ ہیں تو دونوں کے درمیان کسی طرح سے تفریق کرکے پہلے گورے کو کھانا پیش کیا جاتا۔

4۔ اہم کالا آدمی کسی گوری عورت کی سگریٹ نہیں جلا سکتا تھا۔

5۔ اگر کوئی گورا گاڑی چلا رہا ہے تو کالا ہمیشہ پیجھے بیٹھے گا۔

6۔ بسیں، بس اسٹاپ کے سیٹنگ روم، اسکولز، ہسپتال، پانی کے نلکے، شکنی امراض کے علاج خانے، باتھ رومز حتی کہ جیل خانے بھی جدا جدا ہوتے تھے۔ یہی نہیں نسل کو خالص رکھنے کے لیے غیر نسل کے افراد سے شادی بھی غیر قانونی تھی۔ اس قسم کی شادی کو 7691 میں سپریم کورٹ نے قانونی بنایا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ کی مشہور فلم ”گیس ہو از کمینگ ٹونائٹ؟ “ ( 7691 ) اس مو ضوع کی عمدہ عکاس ہے۔ قانوناً یہ تفریق محض کالے ہی نہیں بلکہ لاطینی اور دوسری نسل کے خلاف بھی تھی۔

اس احساس برتری کے سبب شہری حقوق کے لیے لڑنے والوں پہ حملہ آور ان پر حملہ کرتے اور یوں انہیں موت کے گھاٹ اتار دینابھی کوئی بڑی بات نہ تھی۔ اس قسم کی دہشت گرد یوں کا بنیادی مقصد اپنی نسلی برتری کو قائم رکھتے ہوے ملک کی سیاست، معیشت اور دوسرے اہم شعبوں پہ قابو رکھنا تھا اور اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے اور کیا اوچھے اور گھٹیا ہتھکنڈے ہوسکتے ہیں؟ اس طاقت سے لڑنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کھلے اور تعلیم یافتہ ذہنوں کے ساتھ یکجا ہوکر ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی جائے خواہ یہ ظلم دنیا کے کسی بھی خطہ میں ہورہا ہو۔ مارٹن لوتھر کنگ کے کہنے کے بموجب ”کسی ایک جگہ بھی ہونے والی نا انصافی ہر طرف انصاف پہ خطرہ کے مترادف ہے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments