میلوش فورمان: چیک فلم ہدایت کار جس نے اپنی ریاست کو للکارا


اس مضمون میں ہم میلوش فورمان کا کچھ ذکر کریں گے جوگزشتہ سال کے اوائل میں امریکا میں فوت ہوئے۔

1950 اور 1960 کے عشروں کا یورپ ایک مایوس کن نظارہ پیش کررہا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کی تباہ کن یادیں ابھی تازہ تھیں اور سرد جنگ کے آغاز نے ان یادوں کو اور تلخ کردیا تھا۔ اس رنجیدہ ماحول میں نہ صرف اطالوی اور فرانسیسی سینما نے بلکہ پولش اور چیک فلموں نے بھی یورپ کی بڑی عمدہ عکاسی کی ہے۔ جس وقت فرانسیسی سینما میں ایک نئی لہر (New Wave) وارد ہورہی تھی۔ اسی دوران میں چیکو سلواکیہ کے فلم ہدایت کار بھی ایک نئے رجحان کی تشکیل کررہے تھے۔ اس رجحان کی زیادہ تر فلمیں چیک زبان میں بنائی گئیں۔

میلوش فور مان اس نئی لہر اور رجحان کے بانیوں میں تھے۔ 1960 کے عشرے میں فورمان اور دیگر ہدایت کاروں نے جو فلمیں تخلیق کیں انہوں نے سماجی شعور پھیلانے میں ہم کردار ادا کیا جو مشرقی یورپ کے گھٹن والے ماحول میں کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ وہ اپنی ریاست کو بہت مہارت سے للکار رہے تھے اور معیار پر بھی کوئی سمجھوتہ نہ کرتے تھے۔

مشرقی یورپ کے زیادہ تر ممالک نازی جرمنی کے استبداد کو بھگت چکے تھے جس کے بعد سوویت رہ نما استالن نے وہاں اپنی وفادار حکومتیں قائم کردی تھیں۔ چیکو سلواکیہ پر بھی کمیونسٹوں نے 1948 میں اپنی حکومت قائم کرلی تھی اور 1960 کے آتے آتے وہاں کے لوگ اس حکومت سے بیزار ہوچکے تھے۔ حزب مخالف کی تمام سیاست کو کچل دیا گیا تھا اور ایسے میں چیکو سلواکیہ کے دارالحکومت پراگ میں قائم اکیڈمی اور پرفارمنگ آرٹس نے مزاحمت کا علم بلند کیا۔

اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان جیسے ممالک میں ایسی کوئی اکادمی یا تو قائم نہیں کی جاتی یا پھر اسے بالکل غیر سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے تاکہ وہاں سے کوئی سیاسی شعور پیدا نہ ہوسکے۔ ہلکے پھلکے ذاتی تعلقات کے ڈرامے پیش کردیے جائیں تو لوگ خوش ہو جاتے ہیں اور لوگوں میں کہیں بھی مزاحمت کا جذبہ بیدار نہیں ہوتا۔ گو کہ پاکستان جیسے ممالک میں کاؤنسلیں اور بورڈ وغیرہ بنائے جاتے ہیں اور اکادمیاں بھی قائم کی جاتی ہیں جو بالادست نظریات کا ہی پرچار کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک کوئی ایسی اکادمی نہیں ہے جو سینما سے متعلق علم و فنون کی ترویج کرے یا لوگوں میں ظلم و ستم کے خلاف تخلیقی کام کے ذریعے جدوجہد کرنے کا سلیقہ پیدا کرے۔

مگر 1960 کے عشرے میں چیکو سلواکیہ کے فلم سازوں نے اپنے عوام میں سیاسی و سماجی شعور بیدار کرنے کے لیے خاصا کام کیا اور خود اپنی ریاست کے جبر اور نا اہلی کا پردہ چاک کیا۔ جب کسی معاشرے میں ریاست ظلم و ستم سے کام لیتی ہے جیسا کہ پاکستان سمیت کئی ممالک میں کیا گیا ہے تو وہاں کسی نہ کسی کو تو سوال اٹھانے کی جرات کرنا پڑتی ہے۔ چیک ہدایت کاروں نے ایسا کرتے ہوئے غیر تحریر شدہ اور اسکرپٹ سے ہٹ کر جملے استعمال کیے اور طنزو مزاح کو بھی اپنا طریقہ کار بنایا اور ساتھ ایسے اداکار استعمال کیے جو پیش ور نہیں تھے۔

ہم یہ جانتے ہیں کہ اکثر ”پیشہ ور“ فن کاراور اداکار خود اپنی ترویج و ترقی میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں نہ کہ عوام کا شعور بڑھانے یا ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں۔ اسی لیے جب بھارت میں 1970 اور 1980 کے عشروں میں آرٹ فلمیں آنا شروع ہوئیں تو اس میں زیادہ تر نئے اور غیر پیشہ ور لوگ شامل تھے اور امیتابھ بچن جیسے بڑے اداکار ان فلموں پر تنقید کرتے تھے کہ یہ بھارت کا تاریک چہرہ دنیا کو دکھا کر اپنے ملک کو بدنام کررہے ہیں۔ ایسی ہی باتیں پاکستان میں شرمین عبید چنائے وغیرہ کے بارے میں کی جاتی ہیں۔

میلوش فورمان نے 1963 میں اپنی فلم ”کالاپیٹر“ (Black Peter) بنائی جسے کسی طرح سنسر بورڈ کی منظوری بھی مل گئی۔ یہ فلم ایک ایسے نوجوان کے بارے میں ہے جسے اپنے کام میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی۔ گوکہ یہ فورمان کی پہلی فلم تھی اس نے فورمان کو ایک دم بڑے ہدایت کاروں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ فلم کا مرکزی کردار یعنی پیٹر کا کام یہ ہے کہ وہ دکان میں آنے والے گاہکوں کی جاسوسی کرے اور چور کو پکڑے۔

اس فلم کو غالباً سنسر بورڈ سے اجازت اس لیے مل گئی کہ اس میں کمیونسٹ اخلاقیات کی بظاہر ترویج کی گئی تھی۔ مگر فورمان نے اس فلم کے ذریعے کمیونزم پر تنقید کی۔ پیٹر اپنے کام سے نفرت کرتا ہے یعنی دوسروں کی جاسوسی کو غلط سمجھتا ہے اور یہ ایک طرح کا سیاسی پیغام بھی تھا۔

فورمان کی اگلی فلم ”گوری کے محبوب“ (Lovers of a Blonde) تھی۔ اس میں بھی سماجی طنز بڑا نمایاں تھا۔ یہ فلم ایک ایسے کارخانے کے بارے میں ہے جہاں صرف لڑکیاں کام کرتی ہیں۔ یہ کارخانہ ایک دیہی علاقے میں قائم ہے اور اس کا سربراہ ایک عمر رسیدہ مرد ہے۔ گاؤں کے تمام جوانوں کو فوج میں بھرتی کرکے سرحد پر بھیج دیا گیا ہے جو مغربی جرمنی کے ساتھ ملتی ہے۔

یاد رہے کہ مغربی جرمنی کو اس وقت مشرقی یورپ کی کمیونسٹ حکومتوں کا دشمن سمجھا جاتا تھا۔ اس کارخانے کا مالک نوجوان لڑکیوں کی تنہائی سے پریشان ہے اور ایک مسلسل تناؤ کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ وہ بالآخر فوج کے کمانڈر کے پاس جاکر درخواست کرتا ہے کہ کچھ نوجوانوں کو سرحد سے بلاکر واپس گاؤں بھیجا جائے تاکہ حالات معمول پر آجائیں۔ مگر فوجی کمانڈر کا مختصر جواب یہ ہے کہ ”جنگ کسی وقت بھی شروع ہوسکتی ہے۔ “ جس پر کارخانے کا سربراہ کہتا ہے۔ ”ممکن ہے جنگ سو پچاس سال تک نہ ہو اور اس وقت تک آپ پورے معاشرے کو ایک ہیجانی کیفیت میں کیوں رکھنے پر بضد ہیں۔ “

فورمان نے آمرانہ استبداد کے خلاف سوچ کو اپنی فلم فلم میں مزید آگے بڑھایا جس کا نام تھا ”فائربریگیڈ والوں کی پارٹی“ یا (Fireman، s Ball) ۔ یہ فلم 1967 میں بنائی گئی اور اس میں ایک دیہی علاقے کے فائربریگیڈ کے عملے کو دکھایا گیا ہے۔ جو اپنے سابق سربراہ کی چھیاسی ویں سال گرہ منانا چاہتا ہے۔ جس طرح پچھلی فلموں میں دکان اور کارخانے کو پورے معاشرے کا عکاس بنایا گیا تھا۔ اسی طرح اس فلم میں فائربریگیڈ کے محکمے کو ایک استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اس فلم میں نہ صرف سول اور فوجی افسر شاہی کو نشانہ بنایا گیا ہے بل کہ حکم رانوں کو اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے روگردانی کرتے بھی دکھایا گیا ہے۔

اس فلم میں دکھایاگیا ہے کہ جب تقریب شروع ہوتی ہے تو اس کی متوقع منصوبہ بندی ناکام ہوجاتی ہے اور اچانک غیر متوقع واقعات ہونے لگتے ہیں۔ گوکہ پورے گاؤں کو تقریب میں بلایا گیا ہے اچانک تقریب میں تقسیم کے لیے رکھے گئے انعامات غائب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ پھر فائر بریگیڈ کے اہل کار یہ بھی چاہتے ہیں کہ ایک مقابلہ حسن بھی کرایا جائے۔ مگر اس مقابلے کے لیے ایسے امیدواروں کو اہل کار منتخب کرتے ہیں جو نہ تو حسین ہیں اور نہ ہی اس مقابلے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔

اس فائر بریگیڈ کے عملے کے ذریعے فور مان نے پورے معاشرے کی عکاسی کی ہے کہ کس طرح ریاستی ادارے مختلف شعبدے بازیوں کے ذریعے معاشرے کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور خود اپنی بنیادی ذمہ داریاں بھی پوری نہیں کرتے۔ یہ فلم محاوراتی طور پر آخری تنکا ثابت ہوئی کیوں کہ اس کے بعد 1968 میں ”پراگ کی بہار“ (Prague Spring) کو کچل دیا گیا۔

جب 1968 میں سوویت فوجیں پراگ میں داخل ہوئیں تو کئی تخلیقی فن کار مغربی یورپ اور امریکا بھاگ گئے۔ فورمان بھی ہالی وڈ پہنچ گئے اور پھر 1975 میں اپنی غالباً سب سے اچھی فلم بنائی جس کا نام تھا One Flew Over The Cuckoo Nest یہ فلم 1935 کے بعد پہلی فلم تھی جسے چاروں بڑے آسکر انعام ملے یعنی بہترین فلم، بہترین ہدایت کاری، بہترین اداکار اوربہترین اداکارہ کے انعام۔ اس فلم میں فور مان کمیونسٹ حکومت کونشانہ نہیں بنا رہا تھا بل کہ معاشرے پر مختلف اداروں کی بالادستی کو للکار رہا تھا۔ جو سرمایہ دارانہ معاشرے میں بھی بدترین کردار ادا کرتے ہیں۔

اس فلم میں ایک پاگل خانہ دکھایا گیا ہے جس پر ایک نرس کی حکم رانی ہے جو آمرانہ طرز عمل رکھتی ہے اور اس طرح نہ صرف اپنی نا اہلی چھپاتی ہے بل کہ اپنی نا آسودہ خواہشات کا انتقام بھی نفسیاتی مریضوں سے لیتی ہے۔

اس فلم کے بعد فورمان نے ایک میوزیکل فلم (hair) کے نام سے بنائی جو ایک ڈرامے سے ماخوذ تھی۔ اس کے بعد 1984 میں فورمان نے مشہور موسیقار موزارٹ (Mozart) کی زندگی پر بھی ایک شان دار فلم بنائی جس کا نام (Amadeus) تھا۔ اس فلم نے بھی کئی آسکر انعام جیتے اور یہ فلم کسی شخص کی زندگی پر بنائی جانے والی بہترین فلموں میں شمار ہوتی ہے۔

فورمان کی بنائی ہوئی فلموں کی فہرست طویل ہے اور ہر طرح کی فلمیں شامل ہیں۔ مگر تمام فلموں میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ سب فلمیں طاقت کے بے جا استعمال کے خلاف جدوجہد پر مبنی ہیں۔

1997 میں بنائی جانے والی فلم (People vs Larry Flint) ایک حقیقی عدالتی مقدمے پر مبنی ہے جس میں اظہار رائے کی آزادی کو موضوع بنایا گیا ہے جس میں فحاشی کا بہانہ بناکر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے فن کاروں کے لیے فورمان کی فلمیں ایک صاف پیغام رکھتی ہیں وہ یہ کہ آپ اپنی تخلیقی صلاحیتیوں سے جبرو منافقت کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں۔ بالادست بیانیے اور نظریات کا پردہ چاک کیا جانا چاہیے اور اس کے لیے ہمیں نہ صرف کتابوں بل کہ فلموں سے بھی مدد مل سکتی ہے۔ ہمیں یہ سیکھنا چاہیے کہ دیگر ممالک میں کس طرح جبرو استبداد کو للکارا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments