After the Prophet: A book by Lesley Hazelton


لیزلی ہیزلٹن کی کتاب ”after the Prophet“ اسلام کے دو بڑے حصوں میں ٹوٹ جانے کی وجوہات کی ایک مکمل داستان ہے۔

The first Muslim میں پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی داستان حیات کو ایک مکمل اور زندہ صورت میں پیش کرنے کے بعد یہ کتاب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا احاطہ نہیں کرتی بلکہ ان تمام مراحل، حالات و واقعات کے گرد گھومتی ہے جو آپ کے وصال کے بعد اہل بیت، آپ کے دوست احباب، انصار مہاجر، کے درمیان کس طرح وقوع پزیر ہوئے اور مکہ سے عراق اور کوفہ تک خلافت راشدین کے دور سے سانحہ کربلا تک کیا کیا واقعات کس طرح سے وقوع پزیر ہوئے۔

سچ تو یہ ہے کہ ایک عام پاکستانی اردو قاری کی حیثیت سے اگر آپ کا اسلامی علم صرف اسکول کی اسلامیات لازمی تک محدود ہو اور معاشرے کے ان چند اصولوں کے تحت ایک طے شدہ پیمانے میں گھومتا ہو جس میں پڑھایا گیا ہو کہ کس طرح انصار نے مہاجرین کے لئے اپنے دلوں اور گھروں کے دروازے کھول دیے، اور اسلامی ریاست میں سب بھائی بھائی بن گئے تو یہ کتاب نہ صرف آپ کو چونکا دے گی بلکہ حیران و ششدر کر دے گی۔ تاریخ و واقعات کا وہ سلسلہ جو اسلامیات لازمی کی خوشنما صورت کے پیچھے دکھائی نہیں دیتا قاری پر لرزا طاری کر دیتا ہے اور اس کتاب میں جا بجا ایسے مقامات آتے ہیں جب اسے اس کے ریسورسز اور ان کی اہمیت اور صداقت جاننے کی ضرورت پڑتی ہے۔

اور اسے طبری کی تاریخ کے بارے میں سوچنا اور جاننا پڑتا ہے جو اسلامی تاریخ کو بیان کرنے والا ایک عظیم حوالہ ہے۔ مصنفہ کے جذبات و خیالات سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں اور آپ ضرور کریں گے کہ ہر مکتبہ فکر کو یہ اپنے خلاف ایک کوشش محسوس ہوتی ہے۔ مگر بالآخر یہ ماننا پڑتا ہے تاریخ میں محرکات چاہے نامعلوم ہوں، واقعات کی تاریخ تقریبا اسی طرح سے ہے۔

ہمارے معاشرے اور درسی کُتب میں ہمیں تصاویر کا محض ایک رخ یا کتاب کا محض ٹائیٹل دکھایا جاتا ہے۔ ایک زندہ اسلامی ریاست اور اس کے قائم کرنے والوں میں زندگی کی صورت دوڑتے رویے، اخلاق و کردار، اعمال و انداز، سوچ و فکر کو پردے کی اوڑھ میں رکھ کر محض اخلاقی اسباق کو نمایاں حیثیت دی جاتی ہے۔ ایسے میں ایک قاری کے ہاتھ میں جب اس طرح کی کوئی کتاب لگ جائے جس میں تاریخ کو بلامعذرت، بغیر کسی نرمی اور پردہ داری کے عیاں کر دیا گیا ہو تو ایک بار ضرور آپ کا ایمان نہ صرف اپنے دین سے، اس سے منسلک ہستیوں سے بلکہ اس اسلامی معاشرے کے بارے میں تاثر دراڑیں پیدا ہونے لگتی ہیں جس کے خوابوں، خیالوں اور عظیم سراپے کے گرد اس کے دن رات کے اعمال گھومتے ہیں۔

انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر پیغمبر اسلام کے دور میں آپ کے قریب ترین افراد بھی تعصب، سیاست اور طاقت کے کھیل سے بے خبر نہ تھے تو آج صدیوں کے بعد اگر اسلامی دنیا کے ہاتھوں سے اسلامی انداز فکر چھن چکا ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ اسلامی سلطنت، اس کی تاریخ اور جغرافیہ کا جھنڈا ہاتھوں سے گر جاتا ہے جس کا سہارا تھام کر ہر نفس اس عمر کو تمام کر دینا چاہتا ہے کہ وہ ایک عظیم امت مسلمہ کا رکن ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی عظیم امت اسلامیہ کی رکنیت سے نکلتے قاری پر اسلام کی ایک عالمگیر اہمیت روشن ہوتی ہے جو اسے یہ احساس دلاتی ہے کہ اسلام کے لئے اور رب سے تعلق کے لئے آپ کو کسی عظیم مملکت، کسی قبیلے یا فرقے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اسلام نامی مذہب اور اس مذہب کا رب ہر فرقے اور ہر جماعت، ریاست اور مملکت سے بے نیاز ہے، اسلام اسی کا ہے جس نے اسے تھام لیا چاہے وہ آج صدیوں بعد کا زمانہ ہو یا چودہ سو صدیاں پہلے کا، خدا اسی کے ساتھ ہے جس نے اپنے اعمال اور اخلاق کو دین فطرت کے ساتھ جوڑے رکھا پھر چاہے وہ سن 600 میں پیدا ہوا ہو، پیغمبر اسلام کے قریب ترین لوگوں میں رہا ہو یا چودہ سو صدیاں بعد کسی غیر مسلم ریاست میں!

اسلام وراثت میں منتقل نہیں ہوتا، یہ اقربا پروری میں بانٹا نہیں جا سکتا، اسے طاقت سے یا دولت سے نہ نافذ کیا جا سکتا ہے نہ تحفے میں دیا جا سکتا ہے۔ یہ افراد کے دلوں سے جنم لیتا ہے۔ اور اگر دل میں مذہب کی رگ کمزور ہو تو پھر حوالوں سے، رشتہ داریوں سے، وراثت سے یا طاقت سے اس کو بگاڑا اور جامد تو کیا جا سکتا ہے، دوبارہ جنم نہیں دیا جا سکتا۔

یہ کتاب بتاتی ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے بھی معاشرے کا دباؤ اپنا وجود رکھتا تھا۔ اگر آج ٹویٹر کس بھی پراپیگنڈا کو منٹوں میں فروغ دے دیتا ہے تو چودہ سو سال پہلے بھی شعرا کی صورت ایسے ریسورسز موجود تھے جو پریشر پوائنٹ ثابت ہوتے تھے۔ پیغمبر اسلام کی زندگی محض قرآن کے الفاظ پر ہی نہ چلتی تھی بلکہ جیتے جاگتے معاشرے میں ان کا وجود اور ان کے اہل بیت کی سلامتی کی راہ میں معاشرہ اور افراد کے رویے، اعمال، سوچ و افکار حائل ہوتے تھے اور آپ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر محض فرشتے وحی لے کر ہی نہ اترتے تھے بلکہ پورے معاشرے، خاندان، دوست احباب کے رویے بھی آپ کی ان آزمائشوں کا حصہ تھے جو آپ اور آپ کے اہل بیت نے دین اسلام کی رہ میں سہیں

یہ کتاب ان تمام رائج عقیدوں پر سوال اٹھاتی ہے جن پر ہم میں سے اکثر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ کچھ نئے عقیدوں اور یقین کو جنم بھی دیتی ہے۔ اسلام کو زندہ جاوید صورت میں دیکھنا اور اسلامی معاشرے کی عظیم تر تاریخ کے بدصورت حصوں سے روشناس ہونا جہاں مایوسی پیدا کرتا ہے وہیں کسی طاقت اور دین کا ان تماتر چیزوں سے بالاتر ہونا بھی ظاہر کرتا ہے۔ کتاب ایک خوبصورت روانی میں واقعات کو اس طرح زندہ جاوید صورت میں کہانی کی صورت ہمارے سامنے رکھتی ہے کہ پڑھنے والا ڈرتا سہمتا مگر خود کو جاننے سے محروم نہیں رکھ پاتا۔ یقینا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت دنیا جہان سے بڑھ کر ہے اور ان کے دین کی اہمیت اور حیثیت تماتر اسملامی سلطنت سے بڑھ کر ہے۔

اگر یہ کتاب مسلمانوں کو پراگندہ خیال کرنے کی کوشش سمجھی جا رہی ہے تو میرے خیال میں یہ کتاب اس کوشش کو بیک فائر کرتی ہے۔ کیونکہ اس کتاب کی تحریر تفریق کے تمام تر جوازوں کو رد کر دیتی ہے، وہ جواز جو ان سب واقعات کے بعد جنم لئے، اور وہ تفریقات جو ان واقعات کے نتائج میں پیدا ہوئیں کہ ایک قاری سمجھ سکتا ہے کہ اہل بیت اس تفریق کو بچانے کی کوشش میں دار پر چڑھ گئے مگر مسلمان اپنے تعصبات کی رو میں اس تفریق کو پیدا کر کے رہے۔

وہ فرق جو ہر معاشرے کے سب افراد میں پایا جاتا ہے، وہ فرق جن کو پانی دیا جائے تو دنیا میں کوئی بھی قوم گروہ یا ریاست پنپ نہ سکے۔ وہی فرق جن کو بھلا کر قومیں، گروہ اور ریاستیں جنم لیتی ییں۔ بدقسمتی سے ہم مسلمان اس فرق کو بھلا نہ سکے۔ اہل بیت کی قربانیوں کے باوجود وہ فرق جو ہماری مسلمان امت کے بیچ پنپ کر رہے۔

اس کتاب میں موجود واقعات اگرچہ جس قدر بھی مستند ہوں مصنفہ نے بہرحال اپنے تاثرات اور احساسات کو اس کتاب میں گوندھ دیا ہے۔ اور تاثرات و احساسات و عوامل ہیں جو مصنفہ کو متاثر کر کے اس کی سوچ و فکر پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ اگر تو اس کتاب کو آپ تنقیدی اور فکری نظر سے پڑھ سکتے ہیں تو ضرور اس سے بہت کچھ اخذ کر سکتے ہیں ورنہ ہو سکتا ہے کہ آپ رائیٹر کے جذبات کے ساتھ منسلک ہو جائیں اور چیزوں کو اصل رنگ میں جاننے سے محروم رہ جائیں۔ یقینی طور پر یہ کتاب ایک محدود طبقے تک کے لئے ہے، اور اس پر ایمان لانے کے لئے نہیں لکھی گئی بلکہ ایک غیر جذباتی قسم کی جانبداری کی متقاضی ہے۔ ورنہ مصنفہ کے یہی جذبات و احساسات کو کچھ اذہان گستاخی پر بھی محمول کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments