مبشر صاحب نے گولڈ میڈل پایا


\"mubashir

مبشر صاحب کو سردی بھی بہت لگتی ہے اور اچھی بھی بہت لگتی ہے۔

کراچی میں سردی صرف جنوری میں پڑتی ہے۔ وہ بھی تب، جب آپ اپنے کمرے کا اے سی سولہ پر رکھیں۔ ایک الماری گرم کپڑے سے بھری رکھی ہے جس کا تالا بند ہے اور چابی اللہ جانے کہاں کھوگئی ہے۔ کبھی ضرورت پڑے گی تو اسے ڈھونڈیں گے۔

دفتر سے اسلام آباد کا حکم آیا تو ایک تو دوستوں سے ملنے کی خوشی تھی، دوسرے سردی سے، لیکن میں وہی شے لانا بھول گیا جو ضروری تھی۔ میرے ایک باس کہتے تھے، ’’مبشر اتنی جلدی میں رہتا ہے کہ اگر فائر بریگیڈ میں ہوتا تو ہمیشہ پانی کے بغیر آگ بجھانے پہنچتا۔‘‘ چنانچہ میں بغیر کسی بنیان اور سوئٹر کے، سادی شرٹ پہن کر، کچھ گرمی کی وجہ سے اور کچھ پی ٹی آئی والوں سے پھڈا کرنے کو آستینیں چڑھاکر اسلام آباد پہنچ گیا۔

کل بھائی احمد حسین نے کہا کہ رات کو مونال ریسٹورنٹ پر کھانا کھائیں گے۔ میں نے کہا، ’’کیوں نہیں۔‘‘ میری جانے بلا کہ یہ جگہ کہاں ہے۔ مجھے کھانے سے مطلب ہے۔ انھوں نے کہا، ’’وہاں درجہ حرارت اسلام آباد سے پانچ درجے کم ہوتا ہے۔‘‘ میں نے سینہ پھلاکر، بلکہ سچی بات ہے کہ توند پھلاکر کہا، ’’سردی سے کون کم بخت ڈرتا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا، ’’ایڈز سے بھی کون ڈرتا ہے لیکن بے احتیاطی کریں تو لگ جاتی ہے۔ بے احتیاطی کریں تو سردی بھی لگ جاتی ہے۔‘‘

ہم صحافیوں کو تنخواہ بینک والوں کی طرح چھبیس ستائیس ہی کو مل جاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک دو مہینے پہلے کی ہوتی ہے۔ چنانچہ بٹوہ پیسوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے کہا، ’’کھانا کھانے شام کو جانا ہے، اس سے پہلے ایک جیکٹ خرید لیتے ہیں۔‘‘

احمد حسین صاحب قبلہ مجھے سینٹورس لے گئے۔ کراچی کے ڈولمن کلفٹن جیسا ہی سمجھیں لیکن حسن تھوڑا زیادہ۔ میری ایک آنکھ میں آج کل دانہ نکلا ہوا ہے۔ اس میں درد ہے۔ مرہم لگانے سے ٹھنڈک پڑجاتی ہے۔ دوسری آنکھ میں سرد مہر حسن سے ٹھنڈک پیدا ہوئی۔

خیر، ہم ٹھنڈی آنکھوں سے گرم کپڑوں کی دکانیں دیکھتے پھرے۔ کیمبرج کی ایک جیکٹ پسند آگئی۔ قیمت آٹھ ہزار لیکن سیل میں آدھی قیمت پر مل گئی۔ میں نے اس وقت اسے پہننے کی زحمت گوارا نہیں کی۔

سر عثمان ہمیں لینے آئے۔ میزبان اصل میں وہی تھے۔ ہم ان کی گاڑی میں بیٹھے۔ احمد حسین نے زبردستی مجھے آگے ان کے برابر میں بٹھایا۔ چڑھائی کا سفر شروع ہوا تو آنکھیں کھلیں۔ میں نے سیٹ بیلٹ باندھی اور کرسی سے چمٹ کر بیٹھ گیا۔ ادھر سر عثمان منہ موڑ کر احمد حسین سے باتیں کیے جارہے تھے اور سامنے خطرناک موڑ آرہے تھے۔ گاڑی پہاڑی پر چڑھتی جارہی تھی اور میں سیٹ پر چڑھتا جارہا تھا۔ ڈر یہ لگ رہا تھا کہ جیسے میں بیٹھے بیٹھے پھسل رہا ہوں، گاڑی نہ پھسل جائے۔

نو سو سال میں نو کلومیٹر کا یہ سفر تمام ہوا۔ گاڑی رکی تو میں ڈھائی کلو کی مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجاکر باہر نکلا۔ سردی نے مزاج پوچھا تو پوچھا جیکٹ کہاں ہے۔ احمد حسین نے جیکٹ پہنائی لیکن اس کا ٹیگ زپ میں لٹکا ہوا تھا۔ میں نے ریشمی دھاگا توڑنے کی کوشش کی تو نہیں ٹوٹا۔ دانتوں سے زور لگایا تو جبڑا ہل گیا۔ ٹیگ نے کہا، میں مونال نہ دیکھوں؟ میں نے زپ چڑھائی اور ٹیگ کو اندر ڈال لیا۔

کھانے سے پہلے ویٹر چھری کانٹے رکھ گیا۔ میں نے چپکے سے چھری نکالی اور میز کے نیچے گھس کر ٹیگ کا دھاگا کاٹنے کی کوشش کی۔ چھری نے کہا، مجھ غریب پر اتنا ظلم کیوں کرتے ہو؟ مجھ سے تو گلی ہوئی ترکاری تک نہیں کٹتی۔

احمد حسین نے خفا ہوکر کہا، ’’میز کے نیچے کیا پراسرار حرکتیں کررہے ہو۔ مسٹر بین ہو کیا؟‘‘ مسٹر بین سنجیدہ ہوکر بیٹھ گئے۔ کھانا جیسے تیسے کھایا لیکن دماغ ٹیگ میں الجھارہا۔

واپسی پر خفیہ والوں نے روک لیا۔ ہم تینوں کو گاڑی سے اتارا اور مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کئی سوالات کیے۔ کون ہو، کیا کرتے ہو، کدھر سے آرہے ہو؟ کدھر کو جانا ہے۔ گلوخلاصی کے بعد ہم گاڑی میں بیٹھے تو سر عثمان نے کہا، میں نے خفیہ والوں کو پتا نہیں چلنے دیا کہ میں پی ٹی آئی کا ووٹر ہوں۔ کیسا؟ احمد حسین نے کہا، میں نے خفیہ والوں کو پتا نہیں چلنے دیا کہ میں کس ادارے میں کام کرتا ہوں۔ کیسا؟ میں نے کہا، میں نے خفیہ والوں کو پتا نہیں چلنے دیا کہ میری جیکٹ کا ٹیگ ابھی تک لگا ہوا ہے۔ کیسا؟

اتفاق سے اسی وقت ایک دوست کا فون آیا کہ چائے پینے میری طرف آجائیں۔ ہم تینوں وہاں پہنچ گئے۔ محفل جمی ہوئی تھی۔ اچھے اچھے لوگ تھے۔ سو لفظوں کی کہانیوں سے محبت کرنے والے ایک صاحب ملے جو سونے کی بہت موٹی چین پہنے ہوئے تھے۔ ان کی شرٹ کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ چین بہت نمایاں تھی۔ ہم نے چائے پی اور موٹی موٹی باتیں کیں۔

واپس آکر گاڑی میں بیٹھے تو احمد حسین نے ڈانٹ کر کہا، مبشر! کیوں ذلیل کرواتے ہو۔ مونال میں ٹیگ جیکٹ کے اندر تھا لیکن یہاں کیوں خاص طور پر باہر نکال کر بیٹھے رہے۔ یہ کوئی اولمپک گولڈ میڈل ہے جو سینے پر سجایا ہوا تھا؟ میں نے کہا، کیوں جناب؟ وہ آدمی بھی تو سونے کی مہنگی چین پہن کر بیٹھا تھا۔ میں کیسے بتاتا کہ مہنگی جیکٹ پہن کر بیٹھا ہوں۔ ٹیگ دکھانا تو بنتا تھا بھائی۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments