سینٹر رضا ربانی کی تقریر


پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینٹر رضا ربانی قائد اعظم کے اے ڈی سی میاں عطا ربانی کے فرزند ہیں رضا ربانی پاکستان کے ان معدودے چند سیاستدانوں میں سے ہیں جو کسی بھی آمریت کا حصہ نہیں رہے اور جنہوں نے اپنے سیاسی سفر میں جمہوریت آئین کی سربلندی اور جمہوریت کے فروغ کے لئے عملی جدوجہد کی۔

رضا ربانی پیشہ کے لحاظ سے وکالت کے شعبہ سے منسلک ہیں لیکن وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں سیاست تاریخ اور ادب پر ان کی گہری گرفت ہے۔ چند روز قبل ان کی موجودہ معاشی صورتحال پر کی گئی تقریر بڑی پر مغز تھی ان کی تقریر میں اٹھائے گئے سوالات آج ہر پاکستانی کے جذبات کی ترجمانی کر رہے ہیں لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ انگریزی روزنامہ ڈان کے علاوہ ہمارے میڈیا نے اس اہم تقریر کو نمایاں کرنا مناسب نہ جانا۔ آج ان سوالات کا جواب طلب کرنے والی اپوزیشن قیادت لندن میں یہ کسی بنکر میں بیٹھ کر عوامی مزاحمت کے بجائے مصحلت کا شکار نظر آتی ہے اور بقول اکبر الہ آبادی
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ۔

سینئر رضا ربانی نے جمعہ کے روز سینٹ میں تقریر کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ جس کے تحت حکومت پاکستان کو چھ ارب ڈالر قرض حاصل ہوا اس معاہدہ کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کی جانی چاہیے۔

سینٹر رضا ربانی نے انکشاف کیا کہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے قرضہ کے حصول کے لئے جس تین رکنی ٹیم نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کیے وہ تینوں عوام کے نمائندے نہیں بلکہ عالمی اور قومی مالیاتی بیوروکریسی کے ملازم ہیں۔ اس تین رکنی ٹیم میں وزیراعظم کے مشیر خزانہ حفیظ شیخ گورنر آئی ایم ایف سے تعلق رکھنے والے سٹیٹ بنک رضا باقر اور حکومت پاکستان کے سیکرٹری خزانہ شامل ہیں۔ اس تین رکنی ٹیم کی تشکیل سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے موجودہ سیاسی حکومت میں عوامی نمائندوں کی کوئی حیثیت اور نمائندگی نہیں۔

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ وزیراعظم کے بیانات کے باوجود کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا، حکومت اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کی ایک شرط بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ بھی ہے۔

رضاربانی کی تقریر کے نکات پڑھ کر میں سوچنے لگا کہ ہمارا سیاسی نظام بظاہر پارلیمانی جمہوریت کی چادر اوڑھے ہوئے ہے لیکن عملاً یہ صدارتی نظام میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں اہم وزارتوں کا کنٹرول منتخب وزرا کے پاس نہیں بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کے مشیروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مقتدر حلقوں کے نمائندوں کے پاس ہے۔

عوام کے نمائندے عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں عوامی نمائندگی کا فارم پر کرتے وقت انہیں اپنی شہریت تعلیم دولت جائیداد اور ٹیکس ریٹرن بھی ظاہر کرنا ہوتا ہے اور اگر اس میں کوئی بھی چیز پوشیدہ رہ جائے تو پھر انہیں نا اہل قرار دے دیا جاسکتا ہے چاہے یہ عوامی نمائندے کتنے ہی با اٹر کیوں نہ ہوں۔ ہمارے سابق وزیراعظم بھی نا اہلیت سے بچ نہ سکے۔

لیکن اصل با اٹر طاقتور مقتدر تو یہ مشیر ہیں جو نہ عوام کو جوابدہ ہیں نہ ان پر کسی قانون ضابطہ کا اطلاق ہوتا ہے اور یہ ہماری معیشت کو بھی عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں یرغمال رکھ دیتے ہیں۔ ہماری تقدیر کے فیصلے یہ کرتے ہیں۔ کیا ان غیر منتخب مشیروں کا تقرر ہماری قومی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں اور ہماری نظریاتی سرحدوں کے محافظوں نے کس مصلحت کے تحت چپ سادھ رکھی ہے۔ قوم کو یہ بھی بتایا جائے کہ دنیا کے کس ملک کی معیشت نے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج لے کر اپنی معیشت درست کی۔ رضا ربانی کی تقریر پڑھ کر میں سوچنے لگا کہ تبدیلی کا خواب سراب نہ بننے کے لئے ہمیں ہر سیاسی جماعت میں درمیانے طبقے کے تاریخی نظریاتی اور طبقاتی شعور سے مالا مال رضا ربانی جیسے عوامی نمائندوں کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments