دلی دیکھی؟ اور دیکھو گے؟


دو چھتی میں جست کے سیاہ روغن سے رنگے ٹرنک میں بڑا سا ہضمی قفل لگا ہوا تھا۔ جسے سو جتنوں سے کھولنے کے بعد صندوق سے نکلی بھی تو ایک شکستہ، سرورق پھٹی کتاب۔ اس کتاب کے دوسرے صفحے پر یہ تحریر لکھی تھی۔

’دِلی دل دینے کے قابل تھی مگر ہم ہی دل والے نہ تھے۔‘

یہ کتاب ہمارے ابا کے رشتے کے ماموں مرزا اجمل بیگ کے سامان سے نکلی۔ لکھنے والی کوئی خاتون تھیں۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ دلی کے بارے میں مجھے بس اتنا معلوم تھا کہ جو بچہ بڑوں کی محفل میں زیادہ شور مچاتا، کوئی نہ کوئی پکڑ کر اسے ’دلی دکھا دیتا۔‘ یہ دلی دکھانا کیا تھا؟ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنھوں نے بچپن میں دِلی دیکھی ہو۔

قارئین کی آسانی کے لیے بتا دوں کہ ’دلی دکھانے‘ والا اس کارِ خیر کی ابتدا یوں کرتا کہ شریر بچے کے دونوں کان ہتھیلوں سے دبا کر پکڑ لیے جاتے اور پھر یوں ہی کھوپڑی پچکائے پچکائے اسے زمین سے فٹ، سوا فٹ اٹھا کر سامنے اشارہ کرتا ’وہ دیکھو سامنے دلی، آئی نظر؟‘

دلی دیکھنے والے کے کانوں میں سائیں سائیں ہو رہی ہوتی اور سارا جسم بلی کے منھ سے لٹکے بلونگڑے کی طرح گردن کے زور پر جھول رہا ہوتا۔ ایسے میں اگر دلی دیکھنے کی کوئی خواہش ہوتی بھی تو وہیں دم توڑ جاتی تھی۔ چلا چلا کر کہتے ’بس، بس، دیکھ لی دلی۔‘

اس پر پوچھا جاتا ’اور دیکھنی ہے؟‘ اب ایسی دلی کون کافر مزید دیکھنا چاہتا؟ چلا چلا کر یقین دلایا جاتا کہ دلی کا یہ پھیرا کافی ہے۔ اس کے بعد دلی دیکھنے والے ایسے چپکے بیٹھتے کہ سانس کی آواز بھی بمشکل سنائی دیتی۔

اس کھیل کے پیچھے جانے کیا روایت ہو گی؟ مگر جو بھی روایت ہو گی وہ دلی کے خوفناک ماضی سے ضرور جڑی ہوئی ہو گی۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ پرتھوی راج چوہان نے اپنا راج ہمیشہ قائم رکھنے کے لیے لوہے کی ایک میخ حساب کتاب کر کے ایسے ٹھنکوائی تھی کہ راجہ باسک ( ناگ دیوتا) کو اپنے پایہ تخت تلے کیل دیا۔

بادشاہوں کا یہ ہے کہ انھیں بدگمانی کا مرض ہوتا ہے۔ سنا ہے پرتھوی راج چوہان نے راج ہٹ میں سب کے منع کرنے کے باوجود وہ میخ نکلوا کر دیکھی کہ آیا واقعی راجہ باسک کیل دے گئے یا نہیں؟ میخ کا آخری سرا خونم خون تھا۔ بادشاہ کو تو یقین آ گیا مگر راجہ باسک تربرا کے کہیں کے کہیں نکل گئے اور پھر دلی میں کبھی وہ نہ ہو سکا جو پرتھوی راج چوہان نے چاہا تھا، یعنی ان کی حکومت۔

دلی جو لاہور ہی کی طرح شہر نگاراں ہے، اس شہر کو بسانے والوں میں ہمارے بڑے شامل تھے۔ اس کی مٹی میں ہماری کئی نسلیں دفن ہیں مگر پاکستان بنتے ہوئے ہمارے بڑوں نے جانے کون سی دلی دیکھی تھی کہ کبھی پلٹ کر ذکر بھی نہ کیا۔

دلی کے قصے ہم نے کتابوں میں پڑھے اور یاد کر لیے۔ دلی کے لٹنے کی داستانیں بھی اور وہ روایتیں بھی جو کسی کتاب میں نہ لکھی گئیں بس سینہ گزٹ سے ہم تک پہنچیں۔ ان سب روایتوں میں یہ بات مشترک ہے کہ یہ شہر بار بار لٹے گا؟ کیوں؟ اس بارے میں راویان خاموش ہو جاتے تھے۔ یہ بات شاید میلان کنڈیرا کے قاری سمجھ سکیں۔

گذشتہ ہفتے دلی ایک بار پھر لٹی تو جانے کیسے وہی سرورق پھٹی کتاب ’دلی کی ایک شام‘ ہاتھ آ گئی۔

بیچ میں کتنے ہی سال گزر گئے ہیں۔ دلی سے ان لوگوں کی قبروں کے سوا کیا رشتہ رہ گیا ہے کہ جن کی تصویروں کے لتھو گرام بھی اب دھندلا چکے ہیں۔ مگر دلی کے لٹنے پر انسانیت کے عمومی رشتے کے سوا بھی کوئی دکھ ہے۔ یہ دکھ کیا ہے؟ یہ بھی میلان کنڈیرا کے ناول پڑھنے والے ہی جان سکتے ہیں۔

دلی کے حالات کشیدہ ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ اکثریت کی بربریت کوئی نئی بات نہیں۔ یہ کھیل ہم نے اپنے ملک میں بھی بارہا دیکھا ہے۔ کمزور پر طاقتور غراتے ہی رہتے ہیں۔

شہریت کے قانون پر احتجاج سے بڑھتی ہوئی یہ بات دلی کے لٹنے تک آ پہنچی۔ انداز بالکل وہی جو سنہ 2002 کے گجرات مسلم کش فسادات کا تھا۔

یہ انڈیا کا داخلی معاملہ ہے۔ ہم صرف انسانیت کے ناطے افسوس کر سکتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بھی کبھی ایسے واقعات نہ ہوں۔ اس سے آگے نہ اخلاقیات اجازت دیتی ہیں نہ دنیا داری۔

دین سے دنیا بھاری، دنیا داری تو نبھائیں گے مگر نریندر مودی کے ان اقدامات سے دو باتوں پر، جن پر پہلے یقین نہ تھا، اب یقینِ کامل ہو چکا ہے۔

ایک تو یہ کہ پرتھوی راج چوہان نے واقعی راجہ باسک کو ناراض کر دیا تھا اور اب دلی کا تخت ہلتا ہی رہے گا۔ دوسری بات یہ کہ جب ابو بنگلہ دیش کے الگ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے تو میں ان سے ایک سوال کرتی تھی۔ جب صدیوں مسلمان اور ہندو اکٹھے رہتے تھے اور بنگالی مسلمان ہونے کے باوجود ہم سے الگ ہو گئے تو پاکستان کیوں بنایا گیا؟

اس سوال پر ابو، اس بچے کی سی مسکراہٹ سے جسے ابھی ابھی دلی دکھائی گئی ہو اور وہ مزید دلی نہ دیکھنا چاہتا ہو، کہتے تھے ’بیٹے جی! پاکستان ناگزیر تھا۔‘

اس کے آگے وہ کچھ نہ کہتے تھے اور وہاں سے اٹھ کر چلے جاتے تھے۔ ظاہر ہے انھیں میرے اس سوال سے بہت دکھ پہنچتا تھا۔

آج دلی والوں کو بھی دلی دکھا دی گئی اور ہم تو یہاں بیٹھے بیٹھے روز ہی دلی دیکھا کرتے ہیں۔ اب ایسا ہے کہ سائیں سائیں کرتے کانوں میں ابو کی آواز گونج رہی ہے اور یقین سا ہوتا جا رہا ہے ’پاکستان واقعی ناگزیر تھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).