طالبان امریکہ امن معاہدہ۔ بھارت پریشان کیوں؟


افغان طالبان اور امریکہ کے مابین قطر میں طے پانے والے امن معاہدے پر جہاں ایک طرف دنیا بھر میں افغانستان میں 19 برس سے جاری جنگ کے خاتمہ پر خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں صف ماتم بچھ چکا ہے۔ انڈین تجزیہ کار اسے پاکستان کی فتح اور مودی کی ناکامی سے تشبیہہ دے رہے ہیں۔ پاکستانی دانشوروں کے مطابق یہ مارخور کی کامیابی ہے جبکہ امریکی تجزیہ نگار اسے امریکی سفارتکار زلمے خلیلزاد کی کامیابی گردانتے ہیں۔ زلمے خلیل زاد امریکی سفیر برائے افغانستان، امریکی سفیر برائے عراق، امریکی سفیر برائے اقوام متحدہ اور امریکی نمائندہ برائے افغانستان رہے۔ ان کا تعلق افغانستان کے علاقہ مزارشریف سے ہے اور اس وقت وہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان مفاہمتی عمل ہیں۔

امریکہ اور افغان طالبان کے مابین طے پانے والے امن معاہدہ میں بلاشبہ قطر، پاکستان اور روس کی کاوشیں شامل ہیں جبکہ امریکی حکومت کو معاہدہ پر رضاء مند کرنے اور معاہدہ طے کروانے میں مائیک پومپیو اور زلمے خلیلزاد کا کردار تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔

معاہدہ طے پا چکا ہے اور جہاں پاکستان، افغانستان اور امریکی عوام نے معاہدہ کو سراہا ہے وہیں ہمارے پڑوسی ملک بھارت سے چیخوں اور سسکیوں کی آوازیں سوشل میڈیا کے ذریعے اقوام عالم کے کانوں تک پہنچائی جا رہی ہیں۔ بھارت کے سابق آرمی افسر اور تجزیہ نگار پراوین ساہنی لکھتے ہیں کہ

اپسالہ یونیورسٹی سویڈن میں امن اور تنازعات ریسرچ کے بھارتی نزاد پروفیسر اشوک سوائیں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ
”طالبان امریکہ امن معاہدہ دوحہ قطر میں طے پایا، پاکستان میزبان اور امریکہ کے ساتھ پہلی صف میں بیٹھا ہے اور انڈیا کہاں ہے؟ کیا اس طرح مودی نے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہاء کیا ہے؟ “

https://twitter.com/ashoswai/status/1234026700394156032?s=19

بھارت کے کم و بیش تمام تجزیہ نگار، صحافی اور خطے کی جغرافیائی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے افراد اس امن معاہدے پر خدشات کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس معاہدے کی وجہ سے بھارت کی اربوں ڈالر کی افغانستان میں سرمایہ کاری ڈوب گئی جبکہ پاکستان نے ایک بار پھر خطے میں اپنی اہمیت کا لوہا منوایا۔

دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو 200 سے زائد دن ہو چکے ہیں۔ جو آگ کشمیر میں لگی تھی وہ پھیلتی پھیلتی اب دہلی کی سڑکوں کو سرخ کرتی پورے ہندوستان میں پھیل چکی ہے۔ دہلی میں مسمانوں پر ہونے والے مظالم اور حکومتی سرپرستی میں آر ایس ایس کے دہشتگردوں نے مسلمانوں کو زندہ جلایا، زندہ مسلمان مٹی میں دفن کر دیے، املاک مساجد اور گھروں کو آگ لگا دی اور ان مظالم کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر تیزی سے اقوام عالم بالخصوص مسلم امہ تک پہنچ رہی ہیں اور مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کا سبب بن رہی ہیں۔

اگر ہم ماضی پر نظر دوڑائیں تو 1989 میں جب ایک جانب افغان مجاہدین نے روس جیسی سپرپاور کو افغانستان میں شکست دے کر افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تھا اس کے فوری بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف کشمیریوں کی طرف سے شروع ہونے والی مسلح تحریک آزادی کشمیر میں افغانستان سے بہت بڑی تعداد میں مجاہدین نے کشمیر کا رخ کیا تھا۔

امریکہ افغان امن معاہدے کے بعد افغانستان میں 19 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو رہا ہے جبکہ بھارتی کانگریس کی حکومت کی طویل جدوجہد سے انڈیا میں قائم ہونے والے امن کو مودی سرکار نے گزشتہ ایک سال میں ختم کر کے پورے ہندوستان کو ہندو مسلم فسادات کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ مظالم بڑھتے رہے تو خطہ میں موجود جہادی قوتوں کی توجہ بھارت پر جائے گی جس کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر خونریزی اور طویل مسلح جنگ کا آغاز بھی ممکن ہے۔

اقوام عالم کو جہاں افغان امن معاہدہ پر عملدرآمد ممکن بنانے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے وہیں عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں بسنے والے مسلمانوں پر بھارتی سرکار اور اس کی سرپرستی میں آر ایس ایس کے مظالم کو بھی روکنا ہوگا۔ ممکن ہے کہ انڈیا بہت جلد افغانستان سے بھی بدترین حالات سے دوچار ہو جائے۔ افغانستان میں امن کے قیام کے فوری بعد ضرورت اس امر کی تھی کہ جنوبی ایشیاء ایک مضبوط بلاک بن کر آگے بڑھتا، خطے کے ممالک کے باہمی تنازعات حل ہوتے اور یہاں بسنے والے انسان تجارتی تعلقات کو فروغ دے کر اس خطے کی غربت اور معاشی زبوں حالی کے خاتمہ کے لئے مل کر کام کرتے مگر بھارت میں ہٹلر نظریات کی حامی آر ایس ایس نامی دہشتگرد تنظیم کے زیراثر حکومت کے وزیراعظم نریندرمودی خطے کو نئی جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں جس کے بعد عالمی برادری کی خطہ میں قیام امن کے لئے کاوشیں رائیگاں ہونے کا امکان بڑھتا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments