پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی ہے


ایک طرف پاکستان میں کرپشن کے خلاف جنگ کا سماں ہے اور حکومت کا سارا زور پچھلے دس سال میں آنے والی دونوں حکومتوں کو کرپٹ ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے۔ وہ مرکز میں جنرل مشرف کی حکومت کے طویل گیارہ سال کو کسی کھاتے میں نہیں لکھتے اور یہ رویہ جنرل ضیاء الحق کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر بیٹھی ہوئی ان کے کارندے بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سے وردی والے برسوں کو نکال کر باقی تمام عرصے کو بدعنوان پیش کرتی نظر آتی ہے اور اپنے اس کام میں ناکامی کا سارا بدلہ بھی وہ پاکستان کی غریب عوام سے لے رہی ہے مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت میں۔

ریاست عمرانیہ کے سرخیل صاحب بھی ہر غیر ملکی دورے میں اپنے اور اپنی کابینہ کے سوا پوری قوم کو بددیانت اور کرپٹ کہتے نہیں تھکتے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اسی قوم کے سربراہ ہیں ریاست ماں ہے تو سربراہ مملکت باپ ہوتا ہے۔ عام عوام کے لیے ماں سوتیلی ہے اور باپ خود غرض۔ ابھی ان می ماتم زاری جاری ہی ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے دنیا کے 180 ممالک میں کرپشن سے متعلق سال 2019 کی رپورٹ جاری کردی جس نے کرپشن کے الزامات جاری جنگ کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 2018 کے مقابلے میں 2019 کے دوران پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی، 2018 کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان کا اسکور 33 تھا جو 2019 میں خراب ہوکر 32 پر آگیا۔ 10 برس میں یہ پہلی بار ہے کہ کرپشن سے متعلق انڈیکس میں پاکستان آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے گیا ہے۔ زیادہ کرپشن والے ممالک میں پاکستان کا درجہ 117 سے بڑھ کر 120 ہوگیا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 2019 میں زیادہ تر ممالک کی کرپشن کم کرنے میں کارکردگی بہتر نہیں رہی اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس کے 180 رینکس میں پاکستان کا رینک 120 ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2019 میں پہلا نمبر حاصل کرنے والے ڈنمارک کا اسکور بھی ایک پوائنٹ کم ہو کر 87 رہا جب کہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کا انسداد بدعنوانی کا اسکور بھی کم رہا۔

رپورٹ کے مطابق امریکا کا اسکور 2، برطانیہ، فرانس کا 4 اورکینیڈا کا انسداد بدعنوانی اسکور 4 درجہ ہو گیا جب کہ جی 7 کے ترقی یافتہ ممالک بھی انسداد بدعنوانی کی کوششوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔

ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی کرپشن روکنے کے لیے اپنی سفارشات بھی دی ہیں جو درج ذیل ہیں۔ سیاست میں بڑے پیسے اور اثرورسوخ کو قابو کیا جائے۔ بجٹ اور عوامی سہولیات ذاتی مقاصد اور مفاد رکھنے والوں کے ہاتھوں میں نہ دی جائیں۔ مفادات کے تصادم اور بھرتیوں کا طریقہ تیزی سے بدلا جائے۔

دنیا بھر میں کرپشن روکنے کے لیے لابیز کو ریگولیٹ کیا جائے۔ الیکٹورل ساکھ مضبوط کی جائے اور غلط تشہیر پر پابندی لگائی جائے۔ شہریوں کو با اختیار کریں، سماجی کارکن، نشاندہی کرنے والوں اور جرنلسٹ کو تحفظ دیں۔ کرپشن روکنے کے لیے چیک اینڈ بینلنس اور اختیارات کو علیحدہ کیا جائے۔

کل تک ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل حکومت وقت کا پسندیدہ ترین ادارہ شمار ہوتا تھا۔ عمران خان نے جب بھی کرپٹ عناصر کے خلاف بات کرنی ہوتی تھی تو وہ اسی ادارے کی رپورٹس کا حوالہ دیا کرتے تھے اور آج جب وہ خود اقتدار میں بیٹھے ہیں اور پاکستان میں کرپشن بڑھنے کی رپورٹ دی گئی ہے تو ان کے سمیت ان کی تمام ٹیم اور سوشل میڈیا پر بیٹھے ہوئے ان کے بچے جمورے اس ادارے کی ساکھ اور رپورٹ کے غیر مستند ہونے کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔

موجودہ حکومت کرپشن کی طرف گامزن ہے اور پہلے دن سے ہی ہے۔ یہ آٹے اور چینی کے بحران اور اس پر منافع کے امیدوار سارے کے سارے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں تو کیسے ہم یہ مان لیں کہ کرپشن نہیں ہو رہی۔ صاف چلی شفاف چلی۔ تحریک انصاف چلی۔ محض ایک انتخابی نعرہ تھا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اور وقت یہ ثابت بھی کر رہا ہے۔

ملک میں آئے روز کسی نہ کسی چیز کا بحران سر اٹھاتا ہے۔ ابھی کرونا وائرس کا ایک مریض ہی سامنا آیا تو حفاظتی سرجیکل ماسک مہنگے کر دیے گئے۔ ہر دوسرا چینل اس حوالے سے رپورٹ کر رہا ہے حتیٰ کہ ہائیکورٹ میں رٹ بھی دائر کر دی گئی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں پنجاب حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ سرجیکل ماسک کی قیمتوں میں غیر آئینی طور پر اضافہ کر دیا گیا ہے اور کرونا وائرس کے پیش نظر ذخیرہ اندوزوں کی جانب سے قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔

درخواست گزار نے مطالبہ کیا ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ماسک کی دستیابی کو یقینی بنائے۔ جس پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مامون رشید شیخ نے ذخیرہ اندوزں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کا حکم دیتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومت اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 2 مارچ جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر وفاقی اور صوبائی حکومت کے ذمہ داروں کو ریکارڈ سمیت ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی ہدایت کر دی ہے۔

کسی آفت یا بحران میں ذخیرہ اندوزی کا کلچر بلاشبہ نیا نہیں ہے مگر اس پر حکومتی خاموشی یقیناً سوال اٹھاتی ہے۔ یا پھر حکومت چھوٹی موٹی کرپشن اور بد عنوانی کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ اس لیے چھوٹا کاروباری طبقہ اور مراکز اپنی من مانیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پنجاب کے ساتھ تو موجودہ حکومت کا رویہ پہلے ہی غیر انسانی ہے۔ آج صبح ایک خبر نے اپنی طرف متوجہ کیا کہ سمن آباد کے نالے میں ایک نوجوان گر کر جاں بحق ہو گیا۔

واضح رہے کہ سمن آباد لاہور کا یہ مشہور گندہ نالہ شہباز شریف حکومت میں کور کر دیا گیا تھا اور بڑی شاندار ڈبل سڑکیں بنا دی گئی تھیں شہباز شریف کے دور حکومت میں نالے کی دو سے تین دفعہ صفائی بھی کی گئی تھی۔ مگر بزدار حکومت نے نالے کا کور ہٹا دیا اور نالہ ننگا کر دیا جس کے بعد اب وہ انسانی جانوں کے لیے بھی خطرہ ہے اور کوڑا کرکٹ کا مرکز بھی۔ دوسری جانب شہر میں بھی گندگی عام ہے۔ اس نوجوان کی موت اور شہر کی گندگی لاپرواہی اور کرپشن کی اعلیٰ ترین مثال ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ بزدار حکومت کو گندگی اتنی زیادہ کشش کیوں محسوس ہوتی ہے۔

خیر کرپشن ہو رہی ہے ہونے دی جائے۔ لوگ مر رہے ہیں مرنے دیے جائیں۔ ہمیں کیا، ہمارا وزیراعظم تو ہینڈ سم ہے نہ اور پرچی کے بغیر تقریر کرتا ہے۔ گوبھی پندرہ روپے کلو مل رہی ہے شاید عوام کے لیے یہی کافی ہے۔ شاید گندے نالے کے پانی سے کرونا وائرس اور کرپشن کا وائرس بھی مر جائے اور گوبھی کا ماسک تیار ہو جائے۔ آپ بولتے کیوں نہیں ہیں، بولیں گے تو بات بنے گی یا پھر ہم نے سڑکوں کے کنارے رفع حاجت کی بدبو کے ساتھ ساتھ کرپشن کی ہدبو کو قبول کر لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments