یاراں جہانِ انٹرنیٹ کے نام ایک کُھلی چِٹھی


سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے زمانے سے صبح نیند کھلتے ہی (میری) آنکھیں اور انگلیاں موبائل فون ٹٹولنے کی عادی ہو چکی ہیں۔ سرِ آغازِ صبح کس کو کیا دیکھنے، سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے یہ منحصر ہے اُس کی اور اُس کے دلبرانِ جہانِ انٹرنیٹ کی شخصیات اور دل چسپیوں پر۔ مجھے تو کبھی کبھی سوشل میڈیا رحمتِ خدا وندی سے کم نہیں لگتا بالخصوص جب میرا فاصلہ اپنی جنم بھومی اور اس میں جنمے احباب سے کئی سمندروں پر محیط ہے۔

اس کی ایک اور خاص وجہ یہ بھی ہے کہ میرے رفقا و مہربانِان فیس بک میں باذوق، ادبی تخلیق کار و قارئین شامل ہیں۔ ان کی موجودگی کی بنا پر میرے یہاں آج کی حسین صبح کی ابتدا دیوارِ فیس بک پر چسپاں ایک حرکت پزیر تصویری پوسٹ سے ہوئی۔ جس میں میری ایک فیس بک دل آرام اپنے دھیمے اور مٹھاس بھرے لہجے میں ٖفیض احمد فیض کا کلام پڑھنے کے ساتھ ناظرین کو لاہور میں منعقد ہونے والے سالانہ کتب میلے سے خرید کی ہوئی ایک کتاب سے متعارف بھی کروا رہی تھیں۔

کتاب کا نام ہے، ڈیئر ہارٹ۔ یہ کتاب زمانہِ اسیری میں فیض احمد فیض کے نام ایلس فیض کی جانب سے لکھے گئے خطوط پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا مختصر سا ریویو دیتے ہوئے سہیلی نے بتایا کہ کیسے ایلس نے ان خطوط میں روز مرہ کے معاملات و معمولات کو قلم بند کیا ہے جیسے وہ اپنے کسی بہت پیارے کو جو ان کی دسترس میں نہیں اپنی دن بھر کی روٹین سناتی ہوں۔ یہ سن کرمیرے دل میں خیال آیا ارے یہ تو بہت آسان ہے دن بھر کی روٹین بطورِ خط لکھنا یقیناً میرے لیے ایک باعثِ فرحت کام ہو گا۔ مگر اس مضمون کے ذہن میں آتے ہی یہ خیال بھی کسی ڈرے ہوئے کبوتر کی مانند آنکھیں میچے، سر نہوڑائے، دبے پاؤں چلا آیا کہ خط لکھا کس کے نام جائے؟

میری دسترس سے تو سبھی باہر ہیں پھر چاہے وہ محب و مقابلِ دشمنان ہوں یا دشمنان از خود۔ میرے ذہن میں خط کو لے کر کئی طرح کی خیال بازی شروع ہوگئی۔ پھر سوچا کیوں نہ ایک کھلا پتر، کھلی چٹھی لکھی جائے جو سبھی کے نام ہوتی ہے اور اصل میں شاید کسی کے بھی نام نہیں ہوتی۔ انگریزی زبان کے الفاظ اوپن لیٹر اپنی ظاہری ساخت ہی میں اس لفظ کے پیچھے چھپی معنویت کو عیاں کرنے کے اہل ہیں جب کہ اردو یا ہندی میں یہ خاصا سپاٹ اظہاریہ معلوم ہوتا ہے کھلی چٹھی یا کھلا خط۔

خیر اس تحریر کے ذریعے میں اپنے جیون میں شامل کچھ آہنگ، طرزِ خیال اور رنگ آپ کے ساتھ بانٹنا چاہوں گی جو میری روز مرہ کی زندگی کا حصہ ہیں۔ میں چونکہ دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے قریبا ”انیس یا بیس گھنٹے ہر روز اور پورے چوبیس گھنٹے باقی کے تمام روز اپنے آپ ہی کے ساتھ گزارتی ہوں تو میرے یہاں اکثر ایک تصوراتی بسنت کا سا سماں رہتا ہے جس میں کئی رنگ گمانی گڈیاں خیال کی اڑان لیے میری فہم کے آسمان پر رنگ بکھیرتی رہتی ہیں۔

کسی گمان کی ڈور کبھی کبھی ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو جھٹ سے نئی ڈور کو مانجھا لگانے کی باری آجاتی ہے۔ کبھی کوئی نوعمر گڈی پرائی یادوں کی بستی سے آئے پتنگ لوٹنے والوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے اور منظر پر آتے ہی غائب ہو جاتی ہے۔ کبھی مضبوط ڈوری کی شہ پر پرواز کرتی متضاد سوچوں میں بے وقت پیچا ڈل جاتا ہے اور کبھی کچے دھاگے سے بندھے وہم بو کاٹا کی گونج بن کر میرے ذہن سے مفتوحی رخصت لے لیتے ہیں۔

اشاروں، کنایوں کی دنیا سے ہٹ کر کچھ باتیں سادہ زباں میں کرتی ہوں۔ فیس بُک پر خوش کن پوسٹس دیکھنے کے بعد میں نے بھوکے پیٹ دیوانِ غالب کی ورق گردانی کی، پھر اس کو تکیے کے پاس رکھ دیا اور خود ناشتہ بنانے چلی گئی۔ مجھے ہر صبح ایک ہی سا ناشتہ ایک ہی مقدار میں بنانے کی اس قدر پریکٹس ہو چکی ہے کہ اب اس شغل کے دوران بھی سوچوں کے کئی جزیروں میں چہل قدمی ہوتی رہتی ہے اور مجال جو پراٹھے، انڈے اور چائے کی ساخت، شکل، ذائقے اور پکنے میں کوئی اونچ نیچ ہو جائے۔ تو ایک ساتھ دو متوازی جہانوں میں سرگرم عمل ہونے کا سلسلہ (ہر دن کی طرح) رسوئی سے ہی شروع ہو گیا۔ ہاتھ میرے بیلن سے پراٹھے کی گولائی کاڑھنے میں جتے تھے جبکہ دھیان میرا مَرزا نوشہ کی اس شعر کے دوسرے مصرے پہ ٹکا ہوا تھا:

ادب ہے اور یہی کش مکش تو کیا کیجے

حیا ہے اور یہی گو مگو تو کیوں کر ہو

اب میری بلا سے مرزا کی اس شعر سے جو بھی مراد ہو میں اس کو اپنے کھلے پتر کے ضمن میں سوچ رہی تھی کہ حیا اگر بس یونہی کی گو مگو اور انا پرست اگر مگرکا نام ہے تو پھر اس کا پاس کس کارن یا اگر یونہی حیا اور ادھر ادھر کی لغویات حائل رہیں تو بات کیونکر بن پائے گی لہذا لکھ ڈالو جو جی میں ہے، کہہ ڈالو وہ بات جس کی سنوائی تمہیں آئے دن مضطرب رکھتی ہے۔ دوسرے مصرعے کی تاثیر نے میری ہمت بندھائی اور میں نے خیال کی نیا کے پتوار ڈھیلے چھوڑ دیے۔

اگلے سین میں مَیں ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھی ہوں اور گمان کی نیا اس خیال کے بھنور میں ڈگمگا رہی ہے کہ ایسا کیا ہے جو مجھے مستقل خوشی دیتا ہے اور جس سے کبھی میرا جی نہیں بھرتا تو آواز آتی ہے ’خوبصورتی‘ اب خود سے میرا اگلا سوال یہ تھا کہ ’خوبصورتی‘ کیا ہے جس کا کوئی نپا تلا جواب نہیں تھا میرے پاس۔ ہر وہ شے، شخص، رشتہ، تجربہ، مشاہدہ، نظارہ جو انسانی وجود میں خوشی کا احساس بھر دے شاید وہ خوبصورتی ہے۔ مگر ایسا بھی عین ممکن ہے کہ انسان بیک وقت خوبصورتی سے جڑے کسی خوش آئند تجربے سے اپنے خواس ِ خمسہ کی بدولت گزر رہا ہو مگر خوشی کو محسوس کرنے کا تجربہ نامکمل ہو۔

ان سوچوں کی کڑی نے آن کی آن میں ذہن کے اندر موجود برسوں پرانی اس یاد کوٹھری کے زینے اترنا شروع کر دیے جہاں کسی زمانے میں ارسطو کے فلسفلہِ خوشی، سچ اور خوبصورتی کے بارے میں لکھی کچھ جالے دار، گرد آلود اسائنمنٹس اور ٹرم پیپر پڑے تھے۔ وہاں سے تو خیر جھاڑ پونچھ کے نتیجے میں دھول بھرا سانس اندر کھنیچنے سے خراش محسوس کرنے کے سوا کچھ نہ ملا اور متوازی دنیا میں مَیں اب حیقیقتاً کھانستے ہوئے کھڑکی میں رکھے گلاب کے پودوں پر سے دھول جھاڑ رہی تھی اور میں نے دیکھا کہ سرخ گلاب کا نیا غنچہ کھلنے کو تیار کھڑا ہے۔ پودوں کی جھاڑ پونچھ میں ناشتے کے برتن دھونے کے بعد کر رہی تھی اور اب توسرخ کے ساتھ زرد گلاب، اور دوسری آرائشی بیلوں کو پانی بھی دے چکی تھی۔

گلاب کے اس غنچے نے میری توجہ حافظ کے اس شعر کی جانب دِلائی

گلبن عیش میدمد ساقی گل عزار کو

باد بہار می وزد بادہ خوشگوار کو؟

ترجمہ: عیش کے پھولوں کی شاخ کھل رہی ہے، گلاب جیسے گالوں والا ساقی کہاں ہے؟ بہار کی ہوا چل رہی ہے، خوش گوار شراب کہاں ہے؟

حافظ کی طرح میں بھی سوچتی ہوں کہ جس ساقی کا خاکہ میں نے پچھلے بارہ برس سے اپنے ذہن میں بنا رکھا ہے وہ کہاں ہے۔ اب تو خود سے یہ سوال کرنے کا وقت آگیا ہے کہ کہیں وہ صرف میری ذہنی اختراح ہی تو نہیں ہے۔ ہاں ہاں ٹھیک اندازے لگا رہے ہیں آپ لوگ کہ اچانک سے خط کا موڈ بدل گیا ہے اور میں یہ کیسی شرم ناک باتیں کھلے میں ہی کرنے لگی ہوں۔ آپ کچھ بھی سوچنے میں آزاد ہیں کہ میں غالب کا کہنا مان چکی ہوں اور یوں بھی اب ایلس فیض کی روٹین کے برعکس میری زندگی میں ایسے کوئی واقعات نہیں ہیں جنہیں میں خط کے ذریعے شیئر کرنا ضروری سمجھوں جیسے وہ فیض صاحب کو شاید آٹے کے بڑھتے داموں سے یا گھر میں آنے والے لوگوں کی آمد و رفت سے باخبر رکھنا ضروری سمجھتی تھیں اس کے بر عکس میری زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا جس کا ذکر تحریری شکل میں اہم ہو۔

ہاں البتہ میرے گوشہِ خیال میں طرزِ زندگی کا ایک مخصوص تصور موجود ہے جس میں گاہے بگاہے میں نے تمنا اورتوقعات کی کئی بیلیں اگا رکھی ہیں۔ جیسے کہ میرے یہاں عشق کا حقدار وہ ہے جس کو اردو آتی ہو۔ لوگوں کو ایک دوسرے کو اپنے عقد میں لینے سے پہلے حافظ شیرازی کے دیوان سے فال نکالنی چاہئیے۔ کسی بھی نوعیت کی پذیرائی، جذباتی اظہار اور اختصار کے ساتھ معنی خیز گفتگو کے لیے عمدہ اشعار کے انتخاب کا گُر ہونا ضروری ہے اور انتخاب سے پہلے عمدہ شاعری کا فہم۔

خوبصورتی کو سرہانے اور اپنانے کے لیے سچ کا ادراک لازم ہے۔ بیزاری انسان سے کس قدر ایبسرڈ حرکات کروا سکتی ہے اس کے لیے بیکٹ کے گوڈو سے واقفیت لازمی ہے۔ انسانی سماجی انٹرپرسنل رشتوں کی گھبیرتا سمجھنے کے لیے ہیملیٹ کی گرٹروڈ اور بردرز کرامازوو کی گروشینکا سے جانکاری مدد دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کو اپریشیٹ کرنے کے لیے بہت بڑے فلسفلی ہونے کا دعویٰ ضروری نہیں۔ صبح سویرے کھڑکیوں سے پردے ہٹا کر سورج کی شعاؤں کو چہرے پر مچلتا دیکھنے کے لیے کسی فارمل ڈگری کی حاجت نہیں۔

تتلی کو پکڑنے سے رنگ انگلیوں پہ رہ جاتا ہے اس تجربے کے مشاہدے کے لیے کسی نو سے پانچ دفتر میں بیٹھنے کی ضرورت نہیں پڑتی، ایک آزاد خیال اِمپاورڈ عورت اگر اپنی عورت وتا کو زندہ رکھنا جانتی ہے اور بناؤ سنگھار پرسراہے جانے، چاہے جانے کی خواہشمند ہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ کنفیوزڈ یا پِدر سری نظام کی حامی ہے۔ لغو قسم کی سماجی کنسٹرکشنز کی بِنا پر خود کو کسی بھی مخصوص خانہ بندی کا حصہ بنانا اور پھر دنیا بھر کی تمام سماجی و اخلاقی اقدار، ذمہ داریاں، اداکاریاں اور کرداری بیماریاں اسی خاص نقطہِ نظر سے اخذ کرنا میرے نزدیک ہماری اوسطً ساٹھ سالہ زندگی کی سب سے بڑی بیوقوفی ہے۔

بات شروع کہاں سے ہوئی اور نجانے کس ڈگر پہ نکل گئی۔ باقی کی باتیں آئندہ کے خط میں۔

نیک خواہشات و محبت!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments