صدی کی سب سے بڑی ڈیل


امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کوبلامبالغہ اس صدی کی سب سے بڑی ڈیل قراردیا جاسکتاہے۔نظریاتی ، سیاسی اور مذہبی نقطہ نظر سے متحارب فریقین بالاخر مذاکراتی میزپر بیٹھے۔ دودہائیوں تک سائے کی طرح ایک دوسرے کا تعاقب کرنے والے گروہوں نے لگ بھگ ایک لاکھ شہریوں کا خون بہایا۔ ماضی کے قیدی بننے کے بجائے انہوں نے زمینی حقائق کو تسلیم کیا اور قطر کے درالحکومت دوحہ میں بقائے باہمی کا معاہدہ کرلیا۔ ایک ایسا معاہدہ جس کی نظیر عصری تاریخ میں تلاش نہیں کی جاسکتی۔

بے سروسامان اور جدید ٹیکنالوجی سے نابلد گروہ دنیا کی سب سے بڑی عسکری مشین سے ٹکرایا۔ حتیٰ کہ اسے مذاکرات اور پھر ایک معاہد ے پر مجبور کیا۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈٹرمپ کو بھی کریڈٹ دینا چاہیے کہ انہوں نے ایک لاحاصل جنگ سے دنیا کی جان چھڑائی۔ ٹرمپ ایک غیر روایتی اور متلون مزاج سیاستدان ہیں۔ ان کاا وڑھنا بچھونا بیوپار اور سیاست ہے۔سیاست بھی وہ ایک مغرور ساہوکار کی طرح کرتے ہیں۔ انسانی اقدار کے بجائے فیصلہ کرتے وقت نفع نقصان کا پیمانہ استعمال کرتے ہیں۔ افغانستان سے فوجی انخلا انہیں اگلے امریکی الیکشن میں جیتنے میں مدد دے گا لہٰذا انہوں نے دباؤ ڈال کر طالبان کے ساتھ معاہدہ کرالیا۔

سمجھوتے میں امریکیوں کی ناک بھی کٹی لیکن بازارسیاست میں یہ سودا مہنگا نہ تھا۔امریکی اقدار، نظریات اور دوعشروں کی قربانیوں کی دہائی دینے والے ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے اور ٹرمپ بازی لے گئے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔بیس برس تک اس نے امریکہ کادباؤبرداشت کیا۔ ڈرون حملوں اور دہشت گردی کے باوجود اپنے موقف پرچٹان کی طرح ڈٹارہا۔

افغانستان کے مسئلہ کے سیاسی حل اور تمام فریقوں بشمول طالبان کی شمولیت کے ساتھ مسئلہ کے حل پر مستقل اصرار کرتارہا۔پاکستان نے 21 فروری 1989ء میں آنجہانی سوویت یونین کو افغانستان سے انخلا کا اس وقت محفوظ اور باعزت راستہ فراہم کرایا جب اس کا انگ انگ شکستہ ہوچکاتھا ۔ ٹھیک اکتیس سال بعد یعنی 29 فروری2020 ء کو پاکستان ہی تھا جس کی مدد اورتعاو ن سے طالبان نے امریکہ سے مذاکرات کیے اور اسے عزت کے ساتھ افغانستان سے نکلنے کا موقع دیا۔

نوے کی دہائی کا تجربہ زیادہ خوشگوار نہیں۔ امریکہ نے سوویت انخلا کے بعد اپنا دامن جھاڑا اور پاکستان کو افغانستان کے معاملات طے کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا۔جوہری طاقت بننے کی کوششوں کی پاداش میںپاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کرکے اس کے کس بل نکالنے کی کوشش کی۔ کشمیر میں جاری مزاحمت کی حمایت کرنے کے ’’جرم‘‘ میں دہشت گرد ممالک کی واچ لسٹ پر ڈال کر افغانستان میں تعاون کا بدلا چکایا۔چنانچہ اگلے اکتیس برس تک دونوں ممالک کے تعلقات سردمہری اور جمودکا شکار رہے۔

پاکستان کے جید اسٹرٹیجک ماہرین کا نقطہ نظر تھا کہ امریکہ کو افغانستان سے کبھی بھی انخلاء نہ کرنے دیا جائے تاکہ اس کا پاکستان پر انحصار برقراررہے اور وہ اسلام آبا د پر پلٹ کر وار نہ کرسکے۔اس خدشے کا برملا اظہار کیاجاتاہے کہ ایک بار وہ افغانستان سے نکل گیا تو پاکستان کے خلاف کھڑا ہونے میں دیر نہیں کرے گا کیونکہ عالمی صف بندی میں چین کا تزویراتی شراکت دار پاکستان ہے۔ امریکہ چین اور پاکستان کے مشترکہ حریف بھارت کااسٹرٹیجک اتحادی ہے۔

اگرچہ اگلے 14ماہ میں امریکی افواج کے افغانستان سے نکل جانے کا اعلان کیا جاچکا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی داخلی صورت حال کافی گھمبیر ہے۔ صدر اشرف غنی حالیہ صدارتی الیکشن میں اپنی کامیابی کا جھنڈا لہرا چکے ہیں ۔ ان کے روایتی حریف عبداللہ عبداللہ ان کی صدارت پرمعترض ہیں۔ طالبان ابھی تک اماارت اسلامیہ افغانستان کے سحر سے باہرنہیں نکلے ۔ طالبان کے نمائندے ملا برادر نے امارات اسلامیہ کے نمائندے کی حیثیت سے امریکہ کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے ایک بہت بڑے حصے پر طالبان پہلے ہی قابض ہیں جنہیں اب امریکی افواج کے حملوں کا بھی کوئی خطرہ درپیش نہیں ۔ وہ رفتہ رفتہ ابھی پوزیشن مزید مستحکم کریں گے۔ صدر اشرف غنی کی حکومت کابل اور چند بڑے شہروں تک محدود ہے۔طالبان نے اس حکومت کو تسلیم کیا اور نہ کبھی اس کے ساتھ مذاکرات کیے۔ اب انہیں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات بھی کرنے ہیں اور اقتدار میں شراکت داری کا کوئی فارمولہ بھی وضع کرنا ہے۔

گلبدین حکمت یار بھی کابل میں ایک مدت سے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ حزب اسلامی میں وہ نئی روح پھونکنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔افغانستان کی فوج ابھی تک پیشہ ور فورس کی شکل نہیں اختیارکرسکی۔ افغان عمومی طور پر نظم اور ضبط کی پابندیوں کو اپنے اوپر مسلط کرنا پسند نہیں کرتے۔ہماری خواہش اور امید ہے کہ افغان سیاسی جماعتیں اورسیاستدان جلد ہی داخلی مسائل اور تنازعات کاپرامن حل تلاش کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ امریکہ ، پاکستان، چین اور روس کو مشترکہ طور پر افغانوں کی مدد کرنا ہوگی تاکہ وہ اپنے ملک میں دیر پا امن قائم کرنے کے قابل ہوسکیں اور خانہ جنگی کا شکار نہ ہوں۔

گزشتہ چالیس برسوں سے افغانستان کے اندر ہر علاقائی طاقت نے اپنے اپنے دھڑے پال رکھے ہیں جنہیں وہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔خاص طور پر بھارت کو یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ افغانستان مستقبل میں ا س کے مفادات کے خلاف استعمال ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو وہ اپنی پراکسی کے ذریعے امن عمل تباہ کرسکتاہے۔ابھی وہ حاموش ہے لیکن اس کا اضطراب دیدنی ہے۔ خوشی اس بات کی بھی ہے کہ طالبان، امریکہ اور پاکستان نے اس معاہدے کو فتح اور شکست کے پیمانے پر نہیں پرکھا۔’’فتح مبین‘‘ کا نعرہ مستانہ کسی بھی کونے سے بلند نہیں ہوا۔تمام فریق خوش ہیں کہ عشروں پر محیط ایک لاحاصل جنگ سے جان چھوٹی ۔

قطر کی حکومت نے زبردست بلوغت کا مظاہرہ کیا اور خاموشی سے اس سارے عمل کو مکمل ہونے دیا۔ اگرچہ ان کی کوششوں سے اور ان کی سرزمین پر اس صدی کی سب سے بڑی ڈیل ہوئی۔ قطری دیگر عربوں کے برعکس بہت ہی دانشمند اور زیرک لوگ ہیں۔ چھوٹا ملک ہونے کے باوجود انہوں نے عالمی سیاست میں دھیرے دھیرے ایک الگ مگر منفرد شناخت بنائی۔ ایک ایسے ملک کی شناخت جو دنیا میں امن اورمکالمے کا علمبردار ہے۔ تنازعات کو ہوا نہیں دیتا۔

ان کے حل کی کوششوں میں حصہ ڈالتاہے۔عرب ممالک نے اخوان المسلمین کا ناطقہ بند کیا تو قطر ان کی جائے پناہ بنا۔ حماس کا عرصہ حیات تنگ کیا گیالیکن قطر نے ان کے ساتھ راہ ورسم جاری رکھی تاکہ انہیں وقت آنے پرسیاسی عمل کا حصہ بنایاجاسکے۔ پاکستان بھی وزیراعظم عمران خان کی لیڈرشپ میں اسی راستے پر گامزن ہے جو امن اور استحکام کا راستہ ہے۔ تنازعات کو کم کرنے اور معاشروں اور ملکوں کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کا۔افغانستان کے استحکام کے لیے پاکستان پوری طرح کمر بستہ ہے۔کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمسایہ خانہ جنگی اورمعاشی بدحالی کا شکار ہو تو آپ چین کی بانسری نہیں بجاسکتے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments