امریکہ طالبان امن معاہدہ


ہفتے کے روز قطر کے شہر دوحہ میں جو معاہدہ ہوا ہے حتمی ہدف اس کا افغانستان میں دائمی امن کا قیام ٹھہرایا گیا ہے۔معاہدے کا متن مگر اس ضمن میں واضح سنگ میل کی نشان دہی نہیں کرتا۔ اسے غور سے پڑھیں تو حقیقت فقط یہ عیاں ہوتی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے آئندہ 14مہینوں کے دوران افغانستان سے امریکی افواج کی بحفاظت وطن واپسی کی راہ تلاش کرلی ہے۔ افغانستان میں اس کے بعد جو ہونا ہے وہ طالبان ہی طے کریں گے۔

اپنی بات سمجھانے کے لئے آپ کو یاد دلانا ضروری ہے کہ طالبان نے امریکی حکومت کے ساتھ یہ معاہدہ محض ایک ’’جنگجوفریق‘‘ کی صورت نہیں کیا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ’’اماراتِ اسلامی افغانستان‘‘ نے مذکورہ معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔معاہدے کے متن میں اگرچہ بارہا ٹرمپ انتظامیہ دنیا کو یاد دلاتی رہی کہ وہ ’’اماراتِ اسلامی افغانستان‘‘ کو بحیثیت ریاست اور حکومت تسلیم نہیں کرتی۔اسے محض ’’طالبان‘‘ پکارتی ہے۔

اس ’’فریق‘‘ کو مطمئن کرنے کے لئے مگر آئندہ 135دنوں کے اندر 5ہزار کے قریب امریکی فوجی افغانستان میں موجود پانچ فوجی اڈوں سے نکال کر وطن واپس بھیج دئیے جائیں گے۔افغان جیلوں میں بند پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو بھی اسی عرصہ میں رہائی کی نوید دلائی گئی ہے۔اس کے عوض طالبان نے اپنی حراست میں موجود ایک ہزار افغانوں کو رہا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

بات فقط خیر سگالی کے ’’باہمی‘‘ اقدامات پر ہی ختم نہیں ہوگی۔امریکہ اس برس کے اگست کے اختتامی ہفتے تک اس امر کو بھی یقینی بنائے گا کہ اقوام متحدہ کی ’’عالمی دہشت گردوں‘‘ والی فہرست سے طالبان رہ نمائوں کے نام نکال دئیے جائیں۔ ان پر عائد سفری اور دیگر اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ ہو۔

یہ سب ہوجانے کے بعد طالبان محض ایک ’’جنگجو‘‘ فریق نہیں رہیں گے۔اماراتِ اسلامی افغانستان‘‘ کو بلکہ بین الاقوامی طورپر تسلیم کرلیا جائے گا۔دنیا کی ’’واحد سپرطاقت‘‘ ہونے کے دعوے دار امریکہ اور اقوامِ متحدہ سے اپنا مقام اور مطالبات منوالینے کے بعد طالبان افغانستان میں موجود اپنے سیاسی مخالفین اور حریفوں کو بڑی رعایتیں دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔نسلی اور قبائلی بنیادوں پر تقسیم ہوئے افغانستان میں ’’فاتحین‘‘ اپنے مخالفین کو کھلے دل سے معاف کردینے کے عادی نہیں ہیں۔ ’’تاریخ‘‘ اس ملک میں بدلے گی نہیں بلکہ خود کو دہرائے گی۔میں اس ضمن میں خوش گمانی پھیلانے کو ہرگز تیار نہیں ہوں۔ اگرچہ اس پُرخلوص دُعا کے ساتھ کہ میرے خدشات بالآخر غلط ثابت ہوں۔

طالبان کو یہ حقیقت سمجھنے کے لئے ہارورڈ کی کسی یونیورسٹی سے سفارت کاری کی ڈگری حاصل کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ نومبر 2020 میں اپنی انتخابی فتح کو یقینی بنانے کے لئے ڈونلڈٹرمپ افغانستان سے ہر صورت اپنی افواج کو واپس نکالنا چاہ رہا ہے۔اس کی بے چینی کا طالبان نے متاثر کن مہارت سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ طویل مذاکرات کے ذریعے ہفتے کے روز ہوئے معاہدے کا متن ایسی زبان میں تیار کروایا جو 19برسوں سے جاری جنگ کا انہیں کامیاب فریق بناکر دکھاتا ہے۔امریکہ اس جنگ میں اپنے اہداف حاصل نہ کرپایا۔ محض ایک ایسے بندوبست کی راہ نکالنے پر مجبورہوا جو اس کے فوجیوں کی بحفاظت واپسی یقینی بنائے۔

ہفتے کے روز ہوئے معاہدے کو بغور پڑھتے ہوئے اس خیال نے بھی بہت پریشان کیا کہ طالبان نے اپنے کئی مطالبات Cut Off Date Lines کے ساتھ تحریری طورپر منوالئے ہیں۔امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کا برملا شکریہ ادا کیا کہ اس نے طالبان کو معاہدے پر رضامند کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔پاکستان مگر اب بھی FATFکی گرے لسٹ میں موجود ہے۔اس تنظیم نے ہمیں اس لسٹ سے نکالنے کے لئے مزید چار ماہ کی مہلت دے رکھی ہے۔زبانی یا تحریری طورپر لیکن ہمیں ہرگز یقین نہیں دلایا گیا کہ جون 2020 میں ہمیں گرے لسٹ سے ہر صورت نکال دیا جائے گا۔طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کرتے ہوئے ہمارے سفارت کاروں کو کم از کم اتنی یقین دہانی تو ابھی تک حاصل کرلینا چاہیے تھی۔

ہمارے وزیر خارجہ مگر بہت شاداں محسوس کررہے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان صاحب بھی اپنے ٹویٹس کے ذریعے یاددلارہے ہیں کہ مستقل مزاجی سے وہ ہمیشہ یہ اصرار کرتے رہے ہیں کہ افغانستان میں جنگ مسائل کا حل نہیں ہے۔طالبان سے مذاکرات ضروری ہیں۔ اپنے لیڈر کی ستائش میں مراد سعید اور اسد عمر جیسے وزراء نے بھی ٹویٹس لکھے۔ عمران خان صاحب کے ناقدین کو طنزیہ انداز میں یاد دلایا کہ افغانستان میں جنگ کی مخالفت کرنے کی بناء پر ان کے لیڈر کو ’’طالبان خان‘ ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ بالآخر مگر وہ ہی سچے ثابت ہوئے۔امریکہ طالبان سے مذاکرات کو مجبور ہوا اور ان کی عائد کردہ شرائط کے عین مطابق تیار ہوئے ایک معاہدے پر دستخط کئے۔

عمران خان صاحب کی ’’تاریخی بصیرت‘‘‘ کا ڈھنڈوراپیٹتے ہوئے تحریک انصاف کے وزراء اس امکان کو فراموش کئے ہوئے ہیں کہ آئندہ 14مہینوں کے لئے جس بندوبست کا نقشہ تیار ہواہے اس پر عملدرآمد کے لئے طالبان کی جانب سے جب بھی مزاحمت کا اظہار ہوا تو پاکستان سے Do More کا تقاضہ ہونا شروع ہوجائے گا۔ ہم FATF کی گرے لسٹ میں موجود رہیں گے۔ستمبر 2022 تک ہمیں IMF کی وہ تمام شرائط بھی لاگو کرنا ہوں گی جو پاکستان کی معیشت کو ’’بحال اور مستحکم‘‘ کرنے کے نام پر عائد ہوئی ہیں۔

IMFکی عائد کردہ شرائط کی وجہ سے ہمارے ہاں کسادبازاری برقرار رہے گی۔بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہوتا رہے گا۔مقامی سرمایہ کار سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طے کردہ شرح سود کی وجہ سے مقامی بینکوں سے قرض لے کر نئے کاروبار قائم کرنے یا پہلے سے موجود کاروبار میں اضافے کے لئے سرمایہ کاری کو تیار نہیں ہورہا۔پاکستان کو محض شکریہ کہتے ہوئے بہلایا جارہا ہے۔طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور بالآخر معاہدے پر رضا مند کرنے میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا اس کی ٹھوس معاشی حوالوں سے حوصلہ افزائی کی ضرورت کا ادراک تک نہیں ہورہا۔ ہم اپنے ’’اصولی مؤقف‘‘ کی ’’جیت‘‘ پر ہی بغلیں بجارہے ہیں۔

امریکہ نے ملابرادر سے مذاکرات کئے۔سراج الدین حقانی سے ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے صفحہ اوّل پر مضمون لکھوایا۔ حال ہی میں امریکی صدر نے مگر بھارت کا جودورہ کیا اس کے اختتام پر جاری ہوئے مشترکہ اعلامہ میں ’’پاکستان کی سرزمین‘‘ پر ’’دہشت گردوں کی پناہ گاہوں‘‘ کا ذکر بھی لیکن جاری رہا۔FATFکے حوالے سے بھی اصرار ہورہا ہے کہ پاکستان میں موجود ’’دہشت گردوں‘‘ کو منی لانڈرنگ وغیرہ کے الزامات کے تحت کڑی سزائیں سنائی جائیں۔

ملابرادر اورسراج الدین حقانی Mainstream  ہوگئے ہیں۔اقوامِ متحدہ اگست 2020کے آخری ہفتے میں ان جیسے رہ نمائوں کو ’’عالمی دہشت گردوں‘‘ کی فہرست سے بھی نکال دے گا۔یہ سہولت مگر پاکستان کی ’’دہشت گرد‘‘ ٹھہرائی تنظیموں یا رہ نمائوں کو میسر نہیں ہوگی۔ اس سہولت کی عدم دستیابی مگر ہمارے ہاں موجود نام نہاد ’’مذہبی انتہا پسندوں‘‘ کی دل شکنی کا باعث نہیں ہوگی۔ ان سے متعلق افراد کو بلکہ ہفتے کے روز ہوئے معاہدے سے پیغام یہ ملا ہے کہ بالآخر ’’حق‘‘ ہی فتح پاتا ہے۔طالبان اپنے نظریات پر ڈٹے رہے اور بالآخر ’’دنیا کی واحد سپرطاقت‘‘ کو جھکنے پر مجبور کردیا۔وہ خود کو ’’اچھا‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کریں؟

اپنی ’’ٹانگ اونچی‘‘ دکھانے کے لئے امریکی میڈیا میں بہت مکاری سے یہ ’’خبر‘‘ بھی پھیلائی جارہی ہے کہ ہفتے کے روز ہوئے برسرِ عام معاہدے کے علاوہ بھی ’’چند ’’ضمنی شرائط‘‘ ہیں جنہیں منظرِ عام پر نہیں لایا گیا۔ان کے ذریعے “Monitoring”کا ایسا نظام مرتب ہوا ہے جو امریکہ کو یقین دلائے گا کہ طالبان نے ’’القاعدہ‘‘ سے اپنا تعلق ختم کرلیا ہے۔بجائے امریکی اور افغان افواج سے لڑنے کے طالبان ان دونوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں ابھرتی ’’داعش‘‘ یا “ISIS”کے خاتمے کو بھی یقینی بنائیں گے۔میری ناقص رائے میں مبینہ طورپر’’خفیہ‘‘ رکھے ’’ضمنی بندوبست‘‘ والی کہانی Fake News ہے۔مقصد اس کا امریکہ میں ٹرمپ کے ناقدین کو یہ گماں فراہم کرنا ہے کہ افغانستان ایک اور ویت نام ثابت نہیں ہوگا۔امریکی افواج وہاں سے ’’باعزت‘‘ انداز میں وطن لوٹ رہی ہیں۔

دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خیرکی فریاد کرتے ہوئے بھی ہمیں آئندہ 14مہینے بہت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ 10مارچ 2020سے ہفتے کے روز ہوئے معاہدے کا عملی اطلاق شروع ہونا ہے۔اس اطلاق کی راہ میں بے تحاشہ رکاوٹوں کے ابھرنے کے امکانات کو خدارا نظرانداز نہ کیا جائے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments