مایون ہم چترالیوں کے لیے کرونا وائرس نہیں لانا


مُبارکاں، ودھائیاں تمہاری سہیلی ثمینہ کے شوہر کو۔ ہاں تو وہ شاہکار وارد ہوگیا ہے جس کی آمد کے لیے فارموسیوٹیکل کمپنیاں چُھرے تیز کررہی ہیں۔ ان کی بیویاں سنہرے خواب بن رہی ہیں۔ چارارب، پانچ ارب کے تخمینے لگ رہے ہیں۔ چلو تمہاری ثمینہ کا ایک اور شاندار وِلا تیار سمجھو۔ فوزیہ ہماری مشترکہ دوست میری تواضع کررہی تھی۔

میرے کان تپنے لگے تھے۔ موبائل کانوں سے لگا جیسے آگ چھوڑ رہا تھا۔ گاڑی سگنل پر رش میں پھنسی کھڑی تھی۔ اس کی ایک اپنی گھبراہٹ اوپر سے فوزیہ کی یہ جی جلانے والی گفتگو۔ موبائل آف کردیا۔

دفعتاً ایک زور دار قسم کا دھپّاکھڑکی کے راستے میرے شانے پر پڑا۔ تڑپ کر میں نے باہر دیکھا۔ کھلے شیشے کے سامنے ایک نوجوان کلین شیو سرخی غازے میں لتھڑا ستاروں سے سجی جھلمل تنگ قمیض سے سینہ نکالے کہتا تھا ”حاجنے ایک سو روپیہ۔ “ میرا تو جیسے میٹر گھوم گیا۔ کھڑکی کے بالکل پاس وہ میرے ہتھ چھٹ ہاتھ کے نشانے پر تھا۔ ویسا ہی ایک زورداردھپّا اس کے شانے پر مارتے ہوئے میں نے چنگھاڑتے ہوئے کہا۔

ڈوب مرو جاکر کمبخت کسی کھوہ کھاتے میں۔

اس کے کوسنوں پر تین چار اسی جیسے حلیے والے اِدھر اُدھر مانگتے پھرتے ساتھی بھی آدھمکے۔ شکر اللہ کا کہ رش کا زور کم ہونے پر گاڑی بھی چل پڑی۔

ماشاء اللہ خیر سے یہ فقیروں کی ایک نئی قسم پیدا ہوگئی ہے۔ تالیاں پیٹتے، ادائیں دکھاتے کمائی کے ایک نئے ڈھب سے سامنے آئی ہے۔

اف کتنی ناکارہ اور غیر فعال یہ حکومت ہے۔ ان جیسے مشٹنڈوں کے لیے کوئی پروگرام نہیں بن سکتا۔ پکڑ کر گاڑی میں بھر کر انہیں کسی کیمپ میں لے جاکر کام پر لگائیں۔ ستر سو کام نکل سکتے ہیں۔ مگر کام کرنے ہوں تو۔ ساری قوم بھیک مانگنے پر جتی ہوئی ہے۔ کشکول ہاتھ سے نہیں چھٹتا۔ در در کاسہ پھیلائے پھرتے ہیں۔ اب چھوٹوں نے بڑوں سے ہی سبق لینا ہے۔ جب بڑوں کو شرم نہیں تو چھوٹے کِس کھاتے میں۔ غیرت، عزت، شرم و حیا انہی کے لیے کیوں؟

جلتی بُھنتی کھولتی گھر آئی۔ ظہر کے بعد اخبارات کو دیکھنا کھانے ہی کی طرح ضروری ہوتا ہے۔ پہلی خبر کرونا وائرس کی پاکستان آمد بارے تھی۔ ارے بھئی اِسے تو آنا ہی آنا تھا۔ ہماری خود غرض کاروباری اشرافیہ دانت تیز کئیے بیٹھی تھی۔

اب کیا ہوگا؟ مرنا تو غریبوں نے ہی ہے۔ اسپتالوں کی زبوں حالی، ڈاکٹروں کی بے حسی اور لالچ، ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹیریوں کی غیر معیاری رپوٹیں اور ڈاکٹروں کے ان سے طے کمیشن۔

سال ہا سال سے دیکھتی ہوں کیا دیہاتی اور کیا شہری ہیپاٹائٹس جیسی بیماریوں کا شکار ہیں۔ ڈینگی نے قیامت ڈھائی اور اب یہ کرونا آدھمکا۔

اِن غریبوں کو بھی اللہ نیک ہدایت دے۔ یہ بھی ہڈحرام، دھوکے باز، چور اور بے ایمان ہیں۔ کہاں ڈنڈی مارنی ہے، کہاں دھوکہ دینا ہے، کہاں دو نمبریاں کرنی ہیں۔ دکانوں سے کتنا اور کیسے کمیشن طے کرنا ہے۔ دو نمبر چیزیں لانی ہیں۔ مالکوں کو الّو کیسے بنانا ہے؟ یہ ان سب حربوں میں بہت طاق ہیں۔

اب چترال سے آنے والی ایک کال کا حال سُنیے۔ چترال سے ارشاد بابا کا فون ہے۔

مارچ کا آغاز ہے۔ شگوفے پھوٹ رہے ہیں۔ درختوں پر سبز روئیدگی آنکھوں کو بھلی لگ رہی ہے۔ زمین انگڑائی لے رہی ہے۔

آپا اُس خوبصورت سی صبح کا انتظار ہے جب وہ ہمارا پیارا مایون دور دیسوں سے اڑانیں بھرتا ہماری وادی میں آکر اخروٹ کے درخت کی کسی شاخ پر بیٹھ کر اچھے دنوں کی نوید اپنی پیاری اور رسیلی آواز میں سُناتا ہے۔ مایون کی یہ آواز چترالیوں کے لیے حیات کا خوبصورت پیغام بن کر فضا میں بکھرتی ہے۔ چہرے کھلکھلا اٹھتے ہیں۔ امنگیں جاگ جاتی ہیں۔ ہونٹ کھل اٹھتے ہیں مگر اِس بار بہت خوف ہے لوگوں میں۔ کہیں مایون اور وادی میں اُترنے والے دوسرے پرندے کرونا وائرس نہ لے آئیں۔ ہمارے غریب لوگ کیا کریں گے۔ چار ماہ سے گھروں میں بند لوگ اور ڈھورڈنگر اب باہر نکلنے کے متمنی ہیں۔ نہ انتظامات وہ ہیں، نہ شعور، نہ آگہی اور نہ حکومتی ذرائع قابل اعتبار اور قابل بھروسا۔

مجھے یاد آیا تھا۔ ایک بار میرا بہار کے دنوں میں ہی چترال جانا ہوا تھا۔ مایون کیا آیا تھاوادی تو جیسے مسکرا اٹھی تھی۔ ایک دوسرے کو مبارکباد دیں جارہی تھیں۔

میں جس گھر میں ٹھہری تھی اس کے مکینوں کی مسرت اور سرشاری میرے لیے بڑا انوکھا تجربہ تھا۔

ارشاد بابا کی پھول کیطرح نازک والدہ جن کے چہرے سے شفقت قندیل کی روشنی کی طرح پھوٹتی تھی۔ مایون کی کہانی اور اِس خوبصورت پرندے پر کی گئی چترالی شاعروں کی شاعری انھوں نے ہی مجھے سُنائی۔

مایون پچھلے سال جو وعدے ہم سے لے کر گئے تھے وہ یاد ہیں۔

یو نئے مایون متے کیاغ الاؤ

(پیارے مایون میرے لیے کیا لائے ہو)

کیا دادی ماں کے لیے کشیدہ کاری کی سوئی لے کر آئے ہو؟

ہاں دادی اماں کے لیے کشیدہ کاری کی سوئی تحفوں میں شامل تھی۔ لیکن پتھرپر سے پانی پیتے وقت بھول آیا۔

ارہر کے بیج تھوڑی مقدار میں تحفے میں لایا، پر دوران سفر نہ جانے (کس نے ڈاکہ ڈالا) ۔

اُس رات کھوار زبان اور کچھ اُردو میں، میں شاعروں کے محبوب مایون سے نا صرف روشناس ہوئی تھی بلکہ پرانے وقتوں کے ثقافتی عروسی ملبوسات، گھوڑوں پر بارات اور باراتوں کا دنوں ٹھہرنا جیسے واقعات کی تفصیلات سے بھی شناسا ہوئی۔ ان باتوں میں الف لیلیٰ کی کہانیوں جیسا طلسم تھا۔ اس منظر میں کلائمکس اسوقت آیا جب منقش چوبی ڈبے آئے اور نشست گاہ کے قالینی فرش پر یاقوت نیلم، زمرد اور زرقونوں کے گلابی، سبز، سفید اور سرخ پتھر بکھر گئے۔ اللہ میں نے حیرت اور شوق کی بلندیوں سے انہیں جھکتے ہوئے چھو کر دیکھا میرے بچپن کے جھلملاتے رنگین خوابوں کے یہ عکس اسوقت میرے سامنے پڑے تھے۔

اپنے بچپن میں ہر روز جب میں بادشاہوں کی کہانیاں پڑھتی ان کے زمرد یاقوت اور ہیروں جیسے جواہرات سے پُر خزانوں کی تفصیلات اور ان کی ملکاؤں کے سروں گلوں اور ہاتھوں کو چار چاند لگاتے زیورات کا احوال پڑھتی تو سارا دن گویا اُن کی تصوراتی صورتوں کے نقش بناتی رہتی۔ اُس رات میں یہ سب دیکھ رہی تھی۔

اب میں ارشاد بابا سے کیا کہتی۔ بس پہاڑی اور میدانی علاقوں کے لوگوں کے لیے دعائے خیر ہی کرسکتی ہوں کہ ہم اِس نئی آفت سے محفوظ رہیں (امین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments