افغانستان: خدشات اب بھی موجود ہیں


افغانستان چار دہائیوں سے تندور سے بڑھ کر دہک رہا ہے اور اس کی حدت تمام خطے کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ گزشتہ دنوں طالبان اور امریکا کے مابین قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کے بعد اس آگ کے سرد پڑنے کی امید ضرور پیدا ہوئی ہے لیکن حتمی طور پر قیام امن اور افغان مسئلے کے حل سے متعلق خدشات اب بھی باقی ہیں۔ اس معاہدے سے قبل گزشتہ ہفتے تمام فریقین کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم سابقہ تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے افغان مسئلے کی حساسیت کو سمجھنے اور اس متعلق فکرمند رہنے والا ہر شخص فریقین کی طرف سے وعدے کی پاسداری کے لیے دعاگو تھا۔

اس کے باوجود کہ صدر ٹرمپ خود آئندہ الیکشن کی ضرورت کے تحت افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے لیے اتاؤلے ہوئے بیٹھے ہیں اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے باوجود اپنی کرنی کر ہی گزرتے ہیں، ان کی افتاد طبع کے باعث آخر وقت تک زیادہ خدشات امریکہ کی طرف سے ہی تھے۔ کیونکہ پچھلے سال ستمبر میں بھی جب افغان قضیے کے حل کے امکان روشن ہوئے تو عین وقت پر ٹرمپ نے امریکی فوجیوں پر حملے کو جواز بناکر طالبان سے بات چیت کا عمل ختم کر دیا تھا۔

لیکن خوش آئند بات ہے کہ معاہدے پر دستخط سے قبل جنگ بندی کے دنوں میں کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا اور یہ عرصہ بالکل پر امن طریقے سے گزرا۔ افغانستان کے عوام گزشتہ چالیس برسوں سے جاری قتل و غارت اور بدامنی سے بری طرح تنگ آ چکے ہیں اور امن کے لیے وہ بہت بیتاب ہیں۔ اسی لیے جب قطر میں اس معاہدے پر دستخط ہو رہے تھے تو افغان عوام نے سڑکوں پر نکل کر جشن بھی منایا۔

لیکن بڑا سوال اس وقت یہ ہے کہ کیا افغان کسی بین الافغان معاہدے یا وسیع البنیاد عبوری حکومت پر بھی اتنی ہی سہولت سے آمادہ ہو جائیں گے؟ یہ حقیقت ہے کہ امریکا اور طالبان معاہدے کے بعد بھی بین الافغان ڈائیلاگ کے بغیر افغانستان میں پائیدار امن کی امید نہیں ہے۔ بین الافغان مذاکرات اب تک نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ افغان طالبان خود کو افغانستان کا حقیقی اسٹیک ہولڈر اور اشرف غنی حکومت کو کٹھ پتلی تصور کرتے تھے۔

ان کا بنیادی مطالبہ افغان سر زمین سے غیر ملکی افواج کا انخلا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ قابض افواج وہاں سے نکل کر افغانوں کو اپنا سیاسی مستقبل خود طے کرنے دیں۔ ماضی میں جب کسی بندوبست کے بغیر سویت فوج افغان سر زمین سے نکلیں اور عالمی طاقتوں نے بھی افغانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تو وہاں بدترین خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ جس کے اثرات افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان بلکہ پورے خطے پر پڑی اور آج تک بدامنی سے یہ خطہ پوری طرح نہیں نکل سکا۔ اس تجربے کو مد نظر رکھنے کے باوجود افغان مسئلے کے حل کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان پیشگی مفاہمت نا گزیر تھی کیونکہ بیرونی قوتوں کے ہوتے ہوئے افغان اسٹیک ہولڈرز کے درمیان کسی منصفانہ سمجھوتے کی توقع نہیں تھی۔

طالبان کی حد تک بات کی جائے تو وہ امریکا کی جانب سے ان کے خاتمے کی سر توڑ کوشش ٹیکنالوجی و وسائل کے بھرپور استعمال کے باوجود نہ صرف متحد ہیں بلکہ فعال بھی۔ قطر معاہدے کے بعد افغان طالبان ویسے بھی ایسی قوت تسلیم کیے جائیں گے جو ایک سپر طاقت ریاست کو مکمل شکست نہ سہی اپنے موقف سے پسپا کر چکی ہے کیونکہ طالبان امریکا سے انخلا کی شرط منوا چکے ہیں۔ جبکہ امریکا کو افغانستان میں 750 ارب ڈالرز خرچ کرنے، 2300 فوجی زخمی کرانے اور اٹھارہ سال تک افغان کہساروں سے سر پٹخنے کے بعد فی الوقت یہی فیس سیونگ ملی ہے کہ طالبان نے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغان سر زمین دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کرادی ہے۔

حالانکہ یہ بھی امریکی کامیابی نہیں بلکہ ”دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے“ والی بات ہے۔ کیونکہ القاعدہ کو افغانستان میں کھلی چھوٹ دینے کی غلطی کا ادراک بہت پہلے طالبان کے امیر ملا عمر نے اپنی زندگی میں ہی کر لیا تھا اور القاعدہ قیادت کو بھی آگاہ کر دیا تھا کہ مستقبل میں اگر طالبان کی امارت دوبارہ قائم ہوئی تو افغانستان میں ان کو جگہ نہیں ملے گی۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکی وہاں سے جو دستاویزات اٹھا کر لے گئے تھے ان سے اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے اور امریکی مصنف سٹیو کول کی کتاب ”ڈائریکٹوریٹ ایس“ میں اس کا حوالہ بھی ملتا ہے۔

دوسری جانب افغان حکومت تنازعات کا شکار ہے اور حالیہ صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں کشیدگی بہت بڑھ چکی ہے۔ عبداللہ عبداللہ کی طرف سے متوازی حکومت کی قیام کی دھمکی کے بعد اشرف غنی کی حلف برداری کی تقریب بھی ملتوی ہو گئی تھی۔ اشرف غنی کی اس وقت پوزیشن نہایت کمزور ہے اور حامد کرزئی جیسے سابقہ اتحادی بھی ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ازبک، تاجک، حزب اسلامی اور مختلف وار لارڈز بھی اس نازک موقع پر لازما اپنی اپنی طاقت دکھانے اور مفادات حاصل کرنے کی کوشش میں ہوں گے۔

طالبان اس وقت بھی افغانستان کے ساٹھ فیصد رقبے پر قابض ہیں لہذا بین الافغان مذاکرات میں وہ تو یکسوئی کے ساتھ اور متحد ہو کر شریک ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ افغان حکومت اپنے باہمی تضادات پر قابو پاکر اپوزیشن کے ساتھ گفت و شنید کے بعد متفقہ وفد تشکیل دے کر طالبان سے کسی فارمولے پر بات کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ ان تمام قوتوں میں اتفاق رائے اگر نہ ہوا تو لازما ہر کوئی طالبان کے ساتھ ساتھ علیحدہ لین دین کی کوشش کرے گا۔

اس کے بعد لامحالہ علاقائی قوتیں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ماضی کی طرح اپنے حمایتی افغان دھڑوں کی سپورٹ میں آگے آ جائیں گی۔ قطر معاہدے کے محظ ایک روز بعد ہی اشرف غنی کے قیدیوں کی رہائی سے مکرنے کے بعد افغان حکومت اور معاہدے کے مستقبل پر بہت سے سوالیہ نشان لگ چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آنے والی دنوں میں نہ صرف فریقین تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر قدم سوچ سمجھ کر رکھیں بلکہ عالمی قوتیں بھی ہر طرح سے اس معاہدے کو کامیاب کرنے میں مسلسل مددگار و معاون رہیں۔ یہی نہیں بلکہ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کے بعد بھی عالمی برادری کو افغانستان میں تعمیر نو اور روزگار کے لیے تعاون جاری رکھنا پڑے گا ورنہ دہشتگردی کے سر اٹھانے کا خطرہ موجود رہے گا۔

آخر میں موضوع سے ہٹ کر ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ افغان طالبان کی جد و جہد اس لیے کامیاب رہی کیونکہ وہ بیرونی اعانت کے بجائے خالصتا اپنے بل بوتے پر تھی اور اس مقصد کے لیے وہ اٹھارہ سال متحد ہو کر لڑے۔ آج کے حالات میں جد و جہد آزادی کی کوئی تحریک جس میں بیرونی مداخلت شامل ہو نہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی اور نہ ہی عالمی سطح پر اسے قبول عام کی سند مل سکتی ہے۔ لہذا اس کو مدنظر رکھتے کشمیر، فلسطین اور انڈیا کے مسلمان بھی باہم متحد رہ کر بیرونی اعانت کو قبول نہ کرتے ہوئے اپنی جد و جہد جاری رکھیں ان شاءاللہ ایک نہ ایک دن وہ بھی اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ حکم ربانی بھی یہی ہے اور قانون فطرت بھی کہ ”کم من فئۃٍ قلیلۃٍ غلبت فئۃً کثیرۃً باذن اللّٰہ واللّٰہ مع الصابرین“۔ (اکثر چھوٹے گروہ بڑی بڑی جماعتوں اور قوموں پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے غالب آ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments