کچھ صدر مملکت کی خدمت میں۔۔۔ واہ عالی جاہ واہ


عزت ماب صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی صاحب کا، امت مسلمہ کے غم اور انسانیت کی تڑپ لئے ہوئے ٹویٹر پر ایک بیان نظر سے گزرا۔ آنجناب دہلی کے حالیہ فسادات کو بربریت قرار دیتے ہیں۔ وہاں مساجد کی شہادت کو بابری مسجد کی شہادت سے جوڑتے ہیں۔

صدر مملکت دکھی ہیں۔ اسی لئے کم از کم مذمتی بیان داغ کر اپنا فرض پورا کر رہے ہیں۔ یقیناً انسانیت کے ناتے ہر انسان ظلم کو ظلم ہی کہے گا۔ انسانیت کی تذلیل کوئی بھی کرے وہ قابل مذمت ہے۔

لیکن جناب صدرِ مملکتِ اسلامی جمہوریہ پاکستان! جان کی امان پاتے ہوئے عرض ہے کہ جن سرحد پار اعمال کو آپ قابل مذمت قرار دے رہے ہیں۔ وہی اعمال آپ کی مملکت خداداد میں بارہا رونما ہو چکے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں صرف آپ کے عہد سعید میں ارض پاک پر کئی احمدی مساجد سے اس سے بڑھ کر بربریت کا سلوک ہو چکا ہے۔ چلیں پاکستان کے قانون میں احمدیوں کے لئے لفظ مسجد ممنوع ہے تو اسے احمدیوں کی عبادت گاہ کہ لیتے ہیں۔ لیکن کیا مساجد، چرچ، عباد گاہ کی حرمت کا ذکر خود رب کائنات نے قرآن حکیم میں نہیں فرمایا۔

سیالکوٹ کی سو سالہ پرانی تاریخی مسجد اور احمدیوں کی عبادت گاہ دہلی کی مساجد اور بابری مسجد سے زیادہ بربریت کے ساتھ مسمار کی گئی ہے اور یہ کارنامہ آپ کے دور حکومت میں سرانجام پایا۔ ابھی چند روز قبل کھڑیپر قصور میں قریباً ایک صدی پرانی مسجد اور احمدیوں کی عبادت گاہ پر مسلمانوں نے قبضہ کر کے جشنِ فتح منایا ہے۔

جب ایک چور چوری نہ کرنے پر وعظ کرے، ایک قاتل احترام انسانیت اور حرمت خون پر لیکچر دے، ایک خود کش حملہ آور سینے پر بم باندھ کر عورتوں، بچوں اور معصوموں کو قتل نہ کرنے کا داعی بن کر مذمت کرے تو واقعی ایسے کرداروں کے حوصلے کی داد دینا پڑتی ہے۔ ایسے ہی حکومت کے حوصلے کی داد دینا پڑتی ہے کہ کس قدر اولوالعزمی سے دنیا میں انسانیت پر ہونے والے مظالم کی مذمت کرتی اورناک کے نیچے ہونے والے مظالم اسے نارمل دکھائی دیتے ہیں۔

جناب صدر مملکت یقین مانیے آپ صدر مملکت ہیں۔ جان لیجیے کہ سرحد پار ہونے والی بربریت اگر قابل مذمت ہے تو سرحد کے اندر ایک پر امن جماعت کے ساتھ ہونے والا وہی سلوک بھی بربریت ہی کہلائے گا۔ ظلم ظلم ہی رہتا ہے۔ سرحدوں اور فرقہ بدل جانے سے ظلم کی تعریف بدلتی ہے نہ بربریت حلال ہو جاتی ہے۔ جو اعمال سرحدوں کے باہر قابل مذمت ہوں وہ سرحدوں کے اندر جائز اور قابل ستائش نہیں بن جاتے ہیں۔ جناب صدر ظلم ظلم ہی رہتا ہے۔

لیکن جن لوگوں کو عینک لگا کر دیکھنے کی عادت ہوا انہیں اس کے بغیر صاف دکھائی دیا نہیں کرتا۔ سرحدوں کے اندر نہ من کے اندر۔ عینک ظاہری ہو یا جہالت و لا علمی کی، تعصب کی ہو یا نفرت کی۔ فرقہ واریت کی ہویا نسل پرستی کی۔

جناب صدر مملکت دست بستہ عرض ہے کہ آپ کی رعایا پر یہی بربریت کئی بار آزمائی جا چکی ہے اور اسے کرنے والے باہر سے نہیں آئے تھے۔ لیکن آنجناب سے کوئی ٹھوس عملی قدم تو دور کی بات مذمت کا ایک بیان بھی ٹویٹ نہ ہو سکا۔ کوئی جھوٹی تسلی، کوئی دلاسا کو ئی پرسہ، کوئی اظہارِ ہمدردی آپ کی طرف سے کیا نہ جا سکا۔

افسوس کہ آپ کی عینک بھی دور کی ہی نکلی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments