سراج الحق کی بیعت کا اعلان: میرا جسم تمہاری مرضی


ہم سراج الحق کے مداح تو پہلے سے تھے لیکن اب تو معتقدین میں شامل ہو گئے، جب سے انہوں نے “میرا جسم میری مرضی” جیسے بے ہودہ نعرے کے خلاف ملک گیر مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔

آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چار بیویوں، بے شمار لونڈیوں اور ستر حوروں کا نجات دہندہ اس بے ہودہ نعرے کو معاشرے میں قبولیت کی سند بخش دے۔

دیکھیے نا، آج تک تو عورت تفسیر تھی

 ” میرا جسم آپ کی مرضی”۔

اچھا بھلا کام چل رہا تھا کہ نہ جانے کچھ کلموہیوں کو کیا سوجھی۔ کہتی ہیں ہمیں بھی انسان سمجھو، لو بھلا انسان ہی تو سمجھتے ہیں، جبھی تو جب ضرورت پڑے، آواز دے لیتے ہیں۔ کبھی کسی نے بھیڑ بکری کو ساتھ سلایا ہے کیا؟

بخدا ہمیں سراج الحق صاحب کی ذہانت و فطانت پہ قطعی کو ئی شبہ نہیں۔ جب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کیا مضائقہ ہے۔ اگر عورت اپنی مرضی کے خلاف کسی چولہے کے پھٹنے میں راکھ ہو جائے۔ کیا ہوا، جو مرضی نہ ہوتے ہوئے منہ پہ پھینکے گئے تیزاب سے زندگی عذاب بن جائے یا لوہے کی راڈ سے نازک اعضا داغے جائیں۔ اور اس لاجواب امر کا کیا کہنا جب وہ چھوٹی سی عمر میں کسی ادھیڑ عمر سے بیاہ کے اس کی بجھتی جوانی کی تسکین کا باعث بنے۔ ثواب کی پوٹلی تو اور بھی بھاری ہو سکتی ہے اگر وہ کم عمر غیر مسلم بھی ہو۔

یہ موئی مرضی جائے بھاڑ میں اگر کسی نوجوان سے شغل میلے میں ریپ ہو جائے۔ مرضی کو کیا فریم کروا کے دیوار پہ لگا لیں۔ اگر کوئی عورت باپ بھائی کے گناہوں کا کسی جرگے میں ونی یا سوارہ کے طور کفارہ نہ دے سکے۔ آگ لگے ایسی مرضی کو جو بھائیوں کے مفاد کے لئے قرآن سے شادی نہ کر سکے۔ دیکھیے نا عورت تو کھیتی ہے اور ضرورت پڑنے پہ اگر کھیتی بنجر نکل آئے تو ہم ایسی کھیتی کو آگ نہ لگا دیں۔

سراج الحق صاحب کی تحریک کا نیک مقصد مردوں کا موقف ہی تو اجاگر کرنا ہے جن کا کہنا ہے کہ عورت کو اپنے دماغ پہ زور دینے کی مشقت میں کیوں ڈالا جائے۔ جب فکر کرنے والے موجود ہیں تو جیسے وہ چاہیں، عورت زندگی گزار دے۔ جہاں بٹھائیں، جو کھلائیں، جیسا مرضی سلوک کریں، جس کے ساتھ چاہے رخصت کریں، بولنے کی ضرورت کیا ہے آخر؟ کچھ مشرقی معاشرے میں شرم و حیا کے بھی تقاضے ہوا کرتے ہیں۔

شوہر کے گھر پہنچ کے بھی اطاعت گزاری تو واجب ہے نا۔ دیکھیے نا، کھلاتا پلاتا ہے، پہناتا ہے، گرمی و سردی سے چھت دے کے بچاتا ہے۔ کیا ہوا، اس کے بدلے میں جب دل چاہے، دھن کے رکھ دے۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر باہر کا غصہ گھر میں عورت پہ نکال لے۔ کیا ہوا، اگر عورت کو دو کوڑی کا سمجھ لے۔ ارے کیا قیامت آگئی اگر عورت کی دفاداری پہ سوال اٹھا ڈالے۔ یہ تو بچے بچے کی زبان پہ ہے (بلکہ ازلی نابالغ خلیل الرحمن قمر تک جانتے ہیں) کہ وہ تو عورت ہی نہیں جس کا خمیر وفا سے نہ اٹھا ہو۔

سراج الحق صاحب کا ماتھا ٹھنکتا ہے معاشرے کے اس چلن سے جب کچھ مادر پدر شوہر آزاد اور مرد مار قسم کی عورتیں معاشرے کی معصوم عورتوں کو ورغلاتی ہیں۔ ارے سمجھاتی ہیں انہیں کہ تمہاری مرضی بھی کسی چڑیا کا نام ہے۔ تعلیم حاصل کرنے پہ، کام کرنے پہ عورت کا بھی پورا اختیار ہے۔

پٹیاں پڑھاتی ہیں بھولی بھالی عورتوں کو کہ اپنے جسم کو مرد کی دست برد سے بچانا، اپنے آپ کو موت کی دہلیز تک نہ پہنچنے دینا، اپنے آپ کو مرد کی مغلظات سے محفوظ رکھنا، زدوکوب نہ ہونے دینا عورت کا حق ہوا کرتا ہے۔ یہ تو ہمارے معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کے مترادف ہوا نا کہ جو نظام صدیوں سے چلا آ رہا ہے، اس کو کچھ مغرب زدہ، گمراہ عورتوں کے ہاتھوں تباہ ہونے دیا جائے۔

ویسے شاید سراج الحق صاحب کو علم نہیں کہ مرد کی عورت کے جسم پہ مرضی کا سبق مغرب نے بھی پڑھ رکھا تھا اور آج بھی کہیں کہیں یہ چلن ہے۔ یہودی آرتھوڈوکس اور رومن کیتھولک فرقے وہاں بھی عورت کو اتنا ہی ناقص العقل، حقیر اور بچے پیدا کرنے کا کارخانه سمجھتے ہیں۔ بس فرق اتنا ہے کہ وہاں کچھ کمزور مرد عورت کی بات کو سن بھی لیا کرتے ہیں اور عورت کے ساتھ ہمدردی بھی جتا لیتے ہیں۔

ہماری تجویز ہے جماعت اسلامی کی مرکزی انتظامیہ سے کہ آئندہ مغرب میں جب بھی تبلیغی گروہ بھیجیں، لازم قرار دیا جائے کہ وہاں کے بزدل مردوں کو آگاہ کیا جائے کہ جب اللہ نے مرد کو برتر بنا کے عزت بخش ہی دی ہے تو کچھ چلتر عورتوں کے جال میں پھنس کے اتنی کمزوری دکھانے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟

ہم اعلان کیے دے رہے ہیں کہ سراج الحق صاحب کی تحریک کے ہر اول دستے میں ہم بھی موجود ہوں گے، اپنے ہاتھ میں کتبہ لئے،

” میرا جسم تمہاری مرضی؛ جیسے چاہو روندو، جیسے چاہو دفن کرو “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments