شکر ہے پاکستان، ہندوستان جیسا بالکل نہیں


آج کل ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں ظلم کا دور دورہ ہے۔ نریندر مودی کی حکومت ہندوتا کے تصور کو کمال آگے لے کر چل رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں وہاں پر اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے لیے حالات بہت مخدوش ہیں۔ ایک طرف آرٹیکل 370 کے خاتمہ کے بعد چھ ماہ کا زائد عرصہ سے کشمیر میں کرفیو لگا ہوا ہے۔ اور وہاں کے لوگوں کا باقی دنیا سے رابطہ بھی منقطع ہے۔ اس ساری صورتحال پر دنیا کی خاموشی آج کی سرمایہ دارنہ مفادات کی غماز ہے۔

دوسری طرف شہریت کے قوانین میں کی جانے والی تبدیلیوں سے صاف پتا چل رہا ہے کہ ان کا نشانہ مسلمان ہی ہیں۔ جن کے لیے جگہ جگہ مظاہرے ہورہے ہیں۔ جس کی تازہ مثال دو دن پہلے بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے فسادات ہیں۔ جن میں اب تک 40 افراد ہلاک اور کئی سو زخمی ہوچکے ہیں۔ ان فسادات میں مسلمانوں کو گھروں سے نکالا گیا، ان پر تشدد کر کے ان کو مار دیا گیا۔ ان کے گھروں کو جلا دیا گیا۔

مسلمانوں کے خلاف موجودہ پرتشدد لہر کے آغاز کی وجہ بی جے پی کے ایک لیڈر کپل مشرا بنے۔ جو کہ نئی دہلی میں حالیہ ہونے والے انتخابات میں اپنی سیٹ ہار گئے تھے۔ انھوں نے شہریت کے قانون میں تبدیلی کے خلاف شمال مغربی دہلی کی ایک سڑک پر پرامن احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے خلاف ہندووں کے ایک گروہ کو ان کو ہٹانے کے لیے تشدد پر اکسایا۔ جس سے تشدد کا ایک ایک سلسلہ شروع ہوا جس کے اثرات اب بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔

اس ساری صورتحال میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

جس کا مظاہرہ تب بھی دیکھنے میں آیا تھا جب جواہر لال یونیورسٹی پر بی جے پی کی ایک ذیلی تنظیم کے کارکنوں کی طرف سے دھاوا بولا گیا تھا۔ بی جے پی اور پولیس کے اس رویہ پر کھل کر اظہارِ خیال کرنے پر دہلی ہائیکورٹ کے ایک جج جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ بھی کر دیا گیا ہے۔ جس کو سوشل میڈیا پر کئی حلقوں کی طرف سے تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا۔

اس سے پہلے بھی کئی واقعات میں مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں ان پر تشدد کر کے ماردیا گیا۔ اقلیتوں کے ساتھ اس بیہمانہ سلوک کے حوالے سے ہمارے ملک پاکستان میں کئی لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ شکر ہے 1947 میں ہمارے قائداعظم محمد علی جناح نے ہمارے لیے ایک الگ ملک بنا دیا تھا۔ ورنہ ہمارا حال بھی اس وقت ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں جیسا ہی ہوتا۔ اور یہ بھی شکر ہے کہ ہمارا پاکستان، ہندوستان جیسا بالکل نہیں ہے کیونکہ یہاں پر تو اقلیتوں کے حقوق بہت محفوظ ہیں۔

ہاں، بس یہاں پر کبھی کسی سلیم مسیح کو چونیاں کے علاقہ میں ٹیوب ویل میں نہا کر اسے ناپاک کرنے کے جرم میں تشدد کر کے ماردیا جاتا ہے۔ یا کسی آسیہ مسیح پر پانی پینے کی وجہ سے توہین مذہب کا الزام لگا کر موت کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ اور اس کی حمایت کرنے والے گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور اقلیتوں کے وزیر شہباز بھٹی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑجاتے ہیں۔ یا کبھی کسی مسیحی جوڑے پر بھی توہینِ مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر مشتعل ہجوم کی طرف سے ان کو اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلا دیا جاتا ہے۔

اسی طرح بس کبھی کبھار یہاں پر ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کر کے ان کی شادیاں مسلمان لڑکوں سے کر دی جاتی ہیں اور بعد میں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی مرضی سے اپنا مذہب تبدیل کیا۔ ایسے ہی کبھی ہندووں اور احمدیوں کی عبادت گاہوں کو مشتعل ہجوم کی طرف سے نشانہ بنا لیا جاتا ہے۔ یا خوشاب میں احمدیوں کے قبرستان میں ان کی قبروں کی بے حرمتی پولیس والوں کی طرف سے کر دی جاتی ہے یا پھر کوئٹہ کے ہزارہ شیعہ افراد کی تھوڑی سی نسل کشی کر لی جاتی ہے۔

اب یہ سب بہت ہی معمولی نوعیت کے واقعات ہیں۔ ورنہ ہمارے ہاں جتنی اقلیتوں کو آزادی حاصل ہے اور جتنی عزت ان کو دی جاتی ہے اس کی مثال دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ملتی۔ خاص طور پر عیسائیوں کو جب ہم چوہڑا کہتے ہیں اور ان سے صرف صفائی ستھرائی کے کام کرواتے ہیں ان کا سینہ اس عزت افزاِئی سے بہت زیادہ کشادہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح احمدیوں کے ساتھ تو ہمارا سلوک مثالی ہے۔ جب ہم ان کو غیر مسلم قرار دلوانے کے بعد بھی ان سے ان کے ایمان کے سرٹیفیکیٹ مانگ مانگ کر ان کا جینا محال کرتے ہیں تو وہ اس رویہ پر پھولے نہیں سماتے۔ کیونکہ ایسی عزت تو انھیں ہم سے ہی مل سکتی ہے۔

اس لیے ہندوستان کے مودی کو کچھ شرم کرنی چاہیے اور ہماری پیروی کر کے اپنی اقلیتوں کے حقوق کا خیال ہماری طرح رکھنا چاہیے۔ اور ہماری سب اقلیتوں کو خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ ہندوستان کی بجائے پاکستان میں جی رہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان تو بالکل بھی ہندوستان جیسا نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments