ادب میں بے ادب ادیب


حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے کہ، :۔
عمدہ اخلاق گناہوں کو اس طرح پگھلا دیتے ہیں جس طرح پانی برف کو پگھلا دیتا ہے۔ اور برے اخلاق انسان کے اعمال کو اس طرح بگاڑ دیتے ہیں جس طرح سرکہ شھد کو بگاڑ دیتا ہے۔ (طبرانی )

ادب لفظ اک وسیع معنیٰ کا مجموعہ ہے، ادب صرف تخلیقار جو لکھتا ہے اس کے علاوہ بھی ایک الگ طرح کا اثر اور معنویت رکھتا ہے ادب سماجی لچک کے ساتھ رویوں اور کردار کے ادا کرنے کو بھی ادب کہا جاتا ہے ادب معاشرے کے ہر عملی جدوجھد اور علمی طور پر کچے اور پکے ذہنوں پر بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ ادب انسانی وجود کا ازل سے پہلے اور ابد کے بعد خوشگوار زندگی گزارنے کے بھی نوید دیتا ہے۔ ادب تعلیم، تمدن، ریتوں، رسموں، رواج، سیاست، سیاحت، فصاحت اور بلاغت کا انمول جوڑ ہے۔ ادب اصلاحی اور مثبت سوچوں کی مدد سے لکھنے کے بعد اس کو عملاً زندگی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے ادب زندگی کا وہ اھم حصہ ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والی زندگی، حاضر زندگی، اور گزری ہوئی زندگی کس نوعیت کی ہو سکتی ہے۔

حضرت شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ :۔

” جو لوگ بچپن میں بد اخلاق ہوتا ہے، وہ بڑا ہو کر بھی بد اخلاق ہی رہتا ہے“۔

جتنا بھی ادب لکھا جا رہا ہے اس کا مقصد صرف اور صرف عمل کرنا ہی تو ہے، اور کون سا ہو سکتا ہے؟ ادب لکھا تو بے حد جا رہا ہے، پر عملی نظام/سرشتہ میں کم ہی نظر آتا ہے سامنے، دائیں، بائیں اور پیچھے جتنے بھی نتائج نکلتے ہیں ان میں جو بھی اصلاحی لچک میں فرق ملے گا تو وہ منافق کہلائے گا۔ قول اور فعل میں تضاد آج کل تو انسانوں میں عام رواج بن چکا ہے۔ آج کل ہر انسان ادیب ہے چاہے وہ صاحبِ کتاب ہے یا نہیں کیوں کہ پچھلے زمانے میں ادب ہر معاملے میں خاص کردار ادا کرتا تھا۔

مثال کے طور پر:۔ ہم جس کو تجریدی نظم /نثری نظم / ون لائن یا ایک لکیر کا نظم جو آزاد نظم کی اصناف کے زمرے میں آتے ہیں وہ تاریخ میں زیرِ قلم تاریخ کے ورقوں میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ ادب صرف ان کے لئے نہیں جو علم عروض کے رگ سے واقف ہوں ادب تو اچھے اخلاق، پاک خیالات، اور عمدہ اعمال کے وجود میں سندر اور اعلیٰ نظر آئیں تو اس کو ہی ادب کہا جاتا ہے۔

جو لوگ ادب کے اصناف/فن/بناوت پر مکمل طبع آزمائی کر چکے ہیں /کر رہیں ہیں اگر وہی لوگ ہی عملاً اخلاق سے خالی ہوں تو ان کی لکھی ہوئی چیزیں معاشرے میں کتنی حد تک اثر چھوڑ سکتی ہیں؟ یقیناً ان کے لکھنے سے کسی کو بھی فائدہ نہیں پہنچے گا جو خیالات/چیزیں ان کے پبلش شدہ کتاب میں شامل ہوتی ہیں وہ مرگ کے بستر پر دم دینے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ عالمی لیول پر ہمارے معاشرے کو اتنی جفاکشوں اور محنتوں کے بعد بھی پذیرائی کیوں نہیں ملتی یے ایک بڑے ادیبوں کے دامن میں اک معصومانہ سا سوال ہے؟

پاکستان میں ادب کے حوالے سے الگ الگ بیٹھکیں / گروپس/تنظمیں اور طبقہ بندی کون سا اثر چھوڑنے جا رہی ہیں؟ کیوں کہ ادیب جب بھی لکھتا ہے تو معاشرے کے پہلوؤں پر ہی لکھتا ہے، پھر ان کے بعد معاشرے کے معاملوں میں بدکردار/بڑائی/تکبر کے ساتھ جڑے ہونے کی وجھ سے معاشرے میں ان کی لکھی ہوئی چیزوں سے خاک اثر پڑے گا قطعاً نہیں پڑے گا جو کچھ ہم لکھ رہیں ہیں کبھی اس کیفیت سے ہم گزرے ہیں (یہاں پر پیار اور عشق کی کیفیات کا ذکر نہیں ہو رہا ہے یہاں پر ان مجموعی اعمال کی بات ہو رہی جو معاشرے کے سدھارنے کے ذمے داری ہم نے سر پر لے رکھی ہے ) اس کا ذکر ہو رہا ہے۔

ادب لکھنے کے بعد برعکس سوچنے کے بعد ان کے دوسرے اھم جز زبان، اٹھنا، بیٹھنا، بات چیت سب کے سب اتنے ہی خاص ہیں جتنا ہم پاک خیالوں کی بات کرتے ہیں۔ کیا ہمارے سارے معاملوں میں ہاتھ اور زبان سے پاک رہیں ہیں یا چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا پیش کر کے شیطانی صفت کے زمرے میں آتے ہیں۔ کیوں کہ شیطان کا عمل بھی بے ادب میں خانے میں آتا ہے صدیوں کی کمائی صرف بے ادب کے آگ نے ساڑ کر راکھ کردیا۔

بھگوت گیتا کے باب چھار اور کتنے ہی ابواب میں اچھے، اعمال اور رویوں کا ذکر اور ان سے ملنے والے نتائج کا ملتا ہے۔ اور اس کے ساتھ عیسائیوں کی پاک کتاب انجیل میں بہت سی جگہوں پر ادب کی بات کی گئی ہے جو معاشرے میں حقیقی روح پھونکنے کا اثر رکھتیں ہیں۔ قرآن کریم میں صاف شفاف لفظوں میں ایک جگہ پر بیان کیا ہوا کہ آپ کے اعمال آپ کی نیتوں پر منحصر کرتے ہیں۔ یا اک اور جگہ پر ہے کے آپ کے بیچھ اچھا انسان وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔

اب جو بات رہ رہی ہے وہ یے کہ ہم سوچنے کی حد تک تو بڑے رہنما اور مفتی بنے فرتے ہیں پر جب ہم لینے /دینے اور رویوں کی بات کے برعکس ملیں گے تو ہم نے پاک کتاب قرآن اور فرمانوں کو پیٹھ پیچھے چھوڑ کر منافق بن جاتے ہیں اور ان کی جگہ جھنم/نرک ہے۔

اور یہی خاص پہلو ہے جو ہمارے کتابوں میں پیار، محبت، عشق دکھ، درد، تکلیفوں، کا تو ذکر ملتا ہے پر ان میں وجودوں کی اصلاح، رویوں کی آسودگی، میٹھاپن کم ہی نظر آتا ہے اور پھر ادیب محافلوں اور مشاعروں میں ادب اور اخلاق پر بڑے بڑے

لیکچر کے طور پر فضول بات کر کے گھر روانہ ہو جاتے ہیں۔

جتنا ادب اس صدی میں لکھا جا رہا ہے شاید ئی گزری ہوئی صدیوں میں لکھا جا چکا ہو، پر کتابوں کے انبار کے مطالعے سے ذہنی سوچوں اور زبانی بات چیت سے کوئی خاص قرق نظر نہیں آرہا ہے۔ بڑے بڑے کتاب گھر کی لائبریری یا عام لائبریریوں میں بڑے تعداد میں پڑی تو نظر آتی ہیں پر ان میں لکھی ہوئی چیزوں کے حوالے سے عملی زندگی میں ذرہ برابر بھی دیکھنے کو نہیں مل رہیں ہیں۔ یے بات معاشرے کے لوگوں کو پتا ہے کہ ہر کوئی ادیب اپنے معیار کے مطابق ایک دوسرے کو بے ادب کہتا ہے شاید اس کو پتا نہیں میں بھی اس جیسا ہی بن جاتا ہوں کیوں ظرف کا دائرہ کتنا وسیع رکھنا چاہیے اس بات کا ہمارے معاشرے کے ادیبوں میں کمی سی نظر آرہی ہے۔

بڑے بڑے اداروں اور اخباروں میں مواد چھپنے کے بعد اور مشاعروں میں جانے کے بعد بطور سینیئر شاعر یا رائٹر ان سے سے کسی حوالے سے رابطہ کیا جاتا ہے تو ان کا رویہ منفی ہی دیکھنے کو ملتا ہے، مطلب پھر عام لوگوں پر کیوں تنقید کریں جب کہ خود کو تخلیقار سمجھنے والا خود اس بات سے خالی ہے۔ ادب صرف لکھنے تک محدود نہیں بدلے /واپسی میں عام لوگوں کو رویوں کی شکل میں کیا مل رہا ہے اس بات سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فرق رکھنا اور طبقہ بندی ہمارے معاشرے میں کون سا بیج بونے جا رہا ہے۔

جونسا لکھنے والا بے ادب اور منافقت کے ابواب پڑھ کر لکھے گا یا ادب کی بات کرے گا تو معاشرہ وہی کا ہی کھڑا رہے گا اس میں مثبت تبدیلی نہیں آسکتی یے طئہ شدہ بات ہے۔ جتنے کتاب اب تک لکھے جا چکے ہیں گر ان کو اپنی عملی زندگی میں محبت کے مانوس سے نہیں تولا جا رہا تو عام لوگوں کے ذہن بھی بڑے بڑے خیالات سے بھرے پڑے ہیں۔ ہمارے اس معاشرے میں ہر کوئی شخص اپنے آپ کو بھتر اور صحیح مانتا ہے اور دوسروں کو غلط اور یہی ذہنی بیماری ہے اور حقیقت یہی ہے کہ اس کمزور وجود کو سوائے تنقید کے کچھ آتا ہی کیا ہے؟

معاملہ اگر دلیلوں سے نہیں سلجھا سکتے تو الفاظ کے دائرے میں تنقیدی شما جلانے سے مسئلے اور بڑھ سکتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ادب لکھنے والوں کو بے ادب ہی دیکھا ہے میری ملاقات اکثر عام لوگوں سے بھی ہوتی ہے لیکن جس کے پاس معاشرے کو تبدیل کرنے کی ذمے داری ہو اور وہی بے ادب نکلے اور معمولی کاموں میں اپنا وقت ضایع کرے تو پھر اس نوجوان نسل کا کیا ہوگا؟

اس وقت ہمارے آس پاس معاشرے میں حد سے بڑھ کر بے ادبی اور من گھڑت باتوں کی لہر جو بکھر چکی ہے اور جس ملک میں ذمے دار اشخاص سیاسی یا سماجی لوگوں کے یا ملک کے سربراہان کے خاکے بنا کر ان کو سر عام گالیاں دی جائیں تو وہاں پر فقیری اور درویشی کیسی ملے گی ان کے رنگ میں کیسے ڈھل سکتے ہیں یے اک سوالیہ نشان ہے؟ اور عشق اور عقل کے گٹھ جوڑ کے جادو کو من میں کیسے سما سکتے ہیں؟ گزرے ہوئے ولی یا بزرگوں جیسے اشخاص اس معاشرے میں ہمے کیوں نہیں ملتے؟

ان سب کا سبب کسی نے بیٹھ کر سوچا ہے؟ کسی نے بھی نہیں۔ اس دور میں ابھرنے والی نازک صورتحال کو جتنے بھی ادیب اور دانشور ہیں بنا کسی فرق رنگ اور نسل سے ایک پلیٹ فارم پر مل بیٹھ کر محبت اور عزت کے فضا کو بلند کریں تاکہ اس دور کر بعد آنے والی نسلوں کے اوپر امن اور محبت کے فضا برقرار ہو۔ خدائے ذوالجلال اس خطے پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ (آمین )

عبدالحفیظ بھٹی
Latest posts by عبدالحفیظ بھٹی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments