قتلِ عام کے پیچھے میڈیا کا نفرت انگیز رویہ


’گودی میڈیا‘ گذشتہ دو تین ماہ سے ’سی اے اے‘ ، ’این آر سی‘ اور ’این پی آر‘ کے معاملے پر جو رویہ اپنائے ہوئے ہے، اسے کسی بھی طرح سے صحافتی اقدار اور اصول و ضوابط پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر میڈیا کا یہی رویہ رہا تو اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ تب میڈیا سے سماج کا اعتبار باقی رہے گا یا نہیں یہ تو ایک الگ بحث کا موضوع ہے لیکن ایسے میڈیا گھرانوں سے خود ملک اور اس کے باشندوں کا کیا حال ہوگا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ہمارے سامنے اس کی مثالیں موجود ہیں جس میں میڈیا کے ایسے رویوں کی وجہ سے پوری قوم کو اس کابھیانک خمیازہ بھگتنا پڑا اور پوری کی پوری کمیونٹی تباہی کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہے۔

اس سلسلے میں روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کی مثال پیش کی جا سکتی ہیں، جس میں 6 اپریل 1994 ءکو افریقیوں کو ختم کرنے میں میڈیا کی کارستانی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں ایلن تھومپسن کی ایڈٹ کردہ کتاب ’دی میڈیا اینڈ دی ریوانڈا جینوسائڈ‘ ایک قابل مطالعہ دستاویز ہے۔ اس کتاب کے مطابق میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈوں کی وجہ سے صرف سو دنوں میں آٹھ لاکھ افراد کو ہلاک کیا گیا۔ روانڈا میں دو قبائل آباد تھے، ایک ’ہوتو‘ جو اکثریت میں تھے اور دوسری ’ٹوٹسی‘ جو اقلیت میں تھے۔

روانڈا کے صدر کے طیارے کو اینٹی ائرکرافٹ میزائل سے اڑا دیا گیا۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ کس نے کیا۔ صدر کا تعلق اکثریتی قبیلے سے تھا اور فوجی کمان کا بھی۔ اس قتل کا الزام ٹوٹسی قبیلے پر لگا۔ ان کے درمیان پہلے ہی کشیدگی تھی۔ ان کو میڈیا میں ’کاکروچ‘ کہا جاتا تھا، ٹھیک اسی طرح جیسے آج ہندوستان میں مسلمانوں کو کچھ لوگ ’کپڑوں‘ سے پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں تو کچھ لوگ ’غدار‘ کہہ کر گولی مارنے کی دھمکی دیتے، تو کچھ ’بابر کی اولادوں کو گولی مارو سالوں کو! ‘ جیسے الفاظ دھڑلے سے بولتے ہیں، یہ ساری چیزیں ٹیلی ویژن پر بھی بلا کسی خوف اور شرم کے دُہرائی جاتی ہیں۔

تعصب کیا کچھ کر سکتا ہے؟ یہ کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ ہماری میڈیا کی طرح ریڈیو روانڈا کے ذریعے اس اقلیتی کمیونٹی کے خلاف مسلسل زہر افشانی کی گئی اور ’ٹوٹسیوں‘ کو ’لال بیگ‘ کہہ کر مار ڈالنے کے پیغامات نشر ہوئے۔ روانڈا کی فوج نے ’ہوتو‘ میں ڈنڈے تقسیم کیے کہ جہاں مخالف قبیلے کے افراد نظر آئیں، ان کو قتل کر دیا جائے۔ جو رحم دکھائے گا، وہ ’غدار‘ کہلائے گا۔ لوگوں نے اپنے ہمسایوں اور یہاں تک کہ مخالف قبیلے سے تعلق رکھنے والی اپنی بیویوں کو بھی ڈنڈوں اور چاقووں سے قتل کیا۔

صلح جو ’ہوتو‘ بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے، جیسے آج ہمارے ملک میں سیکولر ہندووں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ دھڑلے سے ترشول، لاٹھی، ڈنڈا اور بلم تقسیم کر رہے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، میڈیا بھی نہیں جن کا کام ہی حقیقت آشکار کرنا اور سوال پوچھنا ہے۔

روانڈا میں اُس وسیع قتلِ عام کے پیچھے میڈیا کا نفرت انگیز رویہ کار فرما تھا، جس نے ایک خاص کمیونٹی کے خلاف اتنا پروپیگنڈا کیا کہ لوگ متنفر ہو کر سڑکوں پر نکل آئے اور وہی ہوا، جس کا اندیشہ تھا۔ انتہائی منظم طریقے سے حکومت کے مخالفین کی فہرست تیار کرکے انتہا پسندوں کو فراہم کیا گیا، جیسے 2002 ءمیں گجرات فساد ات کے دوران کیا گیا تھا۔ ہمسایوں نے ہمسایوں کو ہلاک کیا، بلکہ ایسا بھی ہوا کہ شوہروں نے اپنی بیویوں کو مار دیا کیوں کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو انتہا پسند انھیں ہلاک کر دیتے۔

اس وقت لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے شناختی کارڈ اپنے ساتھ رکھیں۔ انتہا پسندوں نے سڑکوں کی ناکہ بندی کر لی اور ’ٹوٹسی‘ افراد کو روک کر خنجروں سے ذبح کیا گیا، ہزاروں ’ٹوٹسی‘ لڑکیوں کو جنسی غلام بنا یا گیا۔ یہ شیطانی میڈیا آوٹ لیٹس سامعین اور قارئین کے جذبات بھڑکاتے ہوئے ان پر زور دیتے کہ ان ’کیڑے مکوڑوں‘ کو مٹا کر رکھ دو، گویا ٹوٹسی آبادی کو ختم کر دو، حتی کہ ان گرجا گھروں اور پادریوں اور راہباؤں کو بھی تباہ اور ہلاک کر دیا گیا جن میں کسی نے جان بچانے کے لیے پناہ لینے کی کوشش کی۔

اس تناظر میں اپنے ملک کے میڈیا کا جائزہ لیجیے، پورے ملک میں گذشتہ چند سالوں میں ہونے والے ہجومی تشددکی تفصیلات دیکھیے۔ دلی کی جامعہ ملیہ اور ’شاہین باغ‘ میں گولی چلائے جانے کے واقعات کو یاد کیجیے۔ بنگلور، بھوپال، یوپی، بنگال اور چنائے میں ’سی اے اے‘ اور ’این آر سی‘ کے حوالے سے ہونے والے پر امن احتجاج، اور اس پر میڈیا اور پولس کے رویے کو دیکھیے تو آپ کو روانڈا کے واقعے سے مشابہت نظر آئے گی۔ ’سی اے اے‘ کی آمد، اس پر احتجاج اور اس احتجاج کے بعد جامعہ ملیہ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہنگامے اور اس پورے معاملے پر میڈیا کا جو رویہ رہا، اس پر غور کیجیے۔

ہندوستانی میڈیا کا معیار شاید اتنا کبھی نہیں گرا ہوگا، اس وقت بھی نہیں جب اندرا گاندھی کے زمانے میں ایمر جینسی نافذ کی گئی تھی، لیکن آج کل تو ایسا لگتا ہے جیسے میڈیا اپنی ذمہ داریوں کو فراموش ہی کر بیٹھی ہے۔ اس کی وجہ سے پورے ملک کی فضا مسموم ہو رہی ہے، بھولے بھالے اور سیدھے سادے لوگ میڈیا کے پروپیگنڈوں کا شکار ہو کر ایک خاص کمیونٹی کو مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں، گاؤں گاؤں میں جہاں سے کبھی بھی فسادات اور فرقہ پرستی کی خبر نہیں آتی تھی، فضا اس زہر آلود ہو گئی ہے کہ کئی جگہوں سے اقلیتوں کو بھگانے اور ان پر ظلم و تشدد کی ایک روایت چل پڑی ہے، لیکن کسی کو اس کا احساس تک نہیں ہے، کہیں اکا دکا کچھ میڈیا گھرانوں کے ذریعے اس کی خبریں دکھائی دیتی ہیں، لیکن زیادہ تر اس طرح کی خبروں سے یا تو پردہ پوشی کرتے ہیں یا غلط رپورٹنگ کر کے دانستہ لوگوں کو گُم راہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

میڈیا کے اس عمل کی وجہ سے افراد اور گروہوں کے خلاف نفرت انگیز پیغامات وبائی امراض کی طرح پھیلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہم ملک میں نت نئی وارداتیں ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ جمہوری طور پر احتجاج کرنے والے لوگوں پر گولیاں چلائی جارہی ہیں۔ ’گوؤ ہتیا‘ کے نام پر لوگوں کی ’لنچنگ‘ کی جا رہی ہے۔ نہتے احتجاجیوں پر غنڈے حملے کر رہے ہیں، پولس جب جس کو چاہتی ہے، اٹھاکر لے جاتی ہے، گولی مار دیتی ہے، مگر بجائے اس کے کہ میڈیا اس کی گرفت کرتا، سوالات کھڑے کرتا، ایسا لگتا ہے وہ ظالموں کی حمایت کر رہا ہے، انہیں بچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

ہمارے یہاں یہ رجحان اس قدر غالب ہو گیا ہے کہ اب لوگ اس کو معیوب بھی نہیں سمجھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے نہ صرف شہریوں اور اداروں کی ساکھ تباہ ہو رہی ہے، بلکہ بہت سی جانیں بھی داؤ پر لگ رہی ہیں۔ جو صورت حال اس وقت ہے، اگر اسے بدلنے کے لیے اقدام نہ کیے گئے تو ہمیں تباہی و بربادی کو گلے لگانے کے لیے تیار رہنا ہوگا، کیوں کہ نفرتوں کی شاخوں پر محبتوں کے پھول کبھی نہیں کھل سکیں گے؟

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments