مظفرآباد: خواتین کے لیے کھیلوں کا بجٹ 64 پیسے فی کس سالانہ


آزاد کشمیر میں خواتین کی آبادی 20 لاکھ جبکہ 12 لاکھ خواتین کی عمریں 30 سال سے کم ہیں۔ کھیلوں کے لیے مختص 69 لاکھ کے بجٹ میں سے خواتین پرمحض 8 لاکھ خرچ ہوتے ہیں۔

میرپور کی 21 سالہ باکسر سیرت پرویز آزاد کشمیر سے کھلاڑیوں کے اس 160 رکنی دستے کاحصہ تھیں جس نے گذشتہ سال نومبر میں پشاورمیں ہونے والی 33 ویں نیشنل گیمز میں شرکت کی۔ اگرچہ ان کے علاوہ 50 دیگر خواتین کھلاڑی بھی کھیلوں کے مختلف مقابلوں میں شامل ہوئی تاہم وہ واحد خاتون کھلاڑی تھیں جو آزاد کشمیر کے لیے کانسی تمغہ جیت سکیں۔ دوسرا تمغہ ان کے ساتھی علی نے جیتا۔

اتھلیٹکس سے باکسنگ میں آنے والی سیرت پرویز اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں سکول کے دنوں میں ہی اچھی تربیت کے مواقع اور کوچنگ میسر آ گئی اور وہ جلد ہی پاکستان آرمی اور پھر ریلوے کی ٹیم کا حصہ بن گئیں تاہم آزاد کشمیر کی لاکھوں نوجوان لڑکیاں جو کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینا چاہتی ہیں وہ سیرت پرویز جتنی خوش نصیب نہیں۔

آزادکشمیر میں اگرچہ کھیلوں کے شعبے پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے تاہم مرد کھلاڑیوں کی نسبت خواتین کھلاڑیوں کے لیے مواقع اور بھی محدود ہیں۔ ریاست میں قائم محکمہ سپورٹس اپنے زیادہ تر وسائل انفرسٹرکچر کے منصوبوں پر خرچ کرتا ہے اس کی نسبت کھیلوں کے مقابلے منعقد کرنے یا کھلاڑیوں کی تربیت اور انہیں قومی سطح کے مقابلوں میں شرکت کے مواقع فراہم کرنے پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔

محکمہ سپورٹس یوتھ اینڈ کلچر کے فراہم کردہ اعداد کو شمار کے مطابق رواں مالی سال کے دوران آزاد کشمیر کی حکومت نے مختلف کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد کے لیے کل 69 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں سے محض 8 لاکھ روپے خواتین کے درمیان کھیلوں کے مقابلوں کے لیے مختص ہیں۔

آزاد کشمیر میں خواتین کل آبادی کے نصف سے زائد کھیلوں کے فروغ کے لیے مختص بجٹ کا دسویں سے بھی کم حصہ ان پر خرچ ہوتا ہے۔

2017 کی مردم شماری کے مطابق آزاد کشمیر کی کل آبادی 40 لاکھ پنتالیس ہزار جبکہ خواتین کا تناسب 51 فیصد ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ 64 ہزار خواتین میں سے ساٹھ فیصد خواتین کی عمریں 30 سال سے کم ہیں اور ان کی کل تعداد اندازاً 12 لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے۔

اگر خواتین کی درمیان کھیلوں کی سرگرمیوں پر خرچ ہونے والے آٹھ لاکھ روپے کو 30 سال سے کم عمر کی 12 لاکھ خواتین پر تقسیم کیا جائے تو یہ 64 پیسے فی کس سالانہ بنتا ہے۔

سیرت پرویز کہتی ہیں کہ: ’یہاں کھلاڑیوں کی سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے برابر ہے۔ خاص طور پر خواتین کی تو معاشرتی سطح پر بھی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور حکومت بھی نظرانداز کرتی ہے۔ میں اس لحاظ سے خوش قسمت ہوں کہ میرے والدین میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن میرے جیسی لاکھوں لڑکیوں کو یہ ماحول میسر نہیں۔ ‘

اگرچہ محکمہ سپورٹس اینڈ یوتھ حکام کا دعویٰ ہے کہ خواتین کو کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے اور تربیت کے یکساں مواقع میسر ہیں۔ تاہم ایک درجن کے لگ بھگ کھیلوں کی ایسوسی ایشنز میں خواتین کی کوئی نمائندگی موجود نہیں۔ سیرت کے بقول محکمہ سپورٹس کی کارروائی خانہ پری سے آگے کچھ نہیں۔

آزاد کشمیر میں قائم 29 رکنی سپورٹس بورڈ میں دو خواتین ممبران اسمبلی کے علاوہ تین خواتین کو بطور پرائیویٹ ممبر شامل کیا گیا ہے تاہم اس بورڈ کا کردار بھی خانہ پری کی حد تک محدود ہے۔

محکمہ سپورٹس کے ڈپٹی ڈائریکٹر افتخار صادق کے بقول: ’سپورٹس بورڈ کے پاس کرکٹ، والی، ہاکی فٹ بال جیسے آوٹ ڈور کھیلوں کے علاوہ بیڈ منٹن، ٹیبل ٹٰینس اور کک باکسنگ جیسے کھیلوں کی لگ بھگ ایک درجن ایسوسی ایشنز رجسٹرڈ ہیں اور ان میں ما سوائے ہاکی تمام کھیلوں میں خواتین شریک ہوتی ہیں۔ ‘ تاہم ان ایسوسی ایشنز میں خواتین کی نمائندگی کے تناسب کے حوالے سے محکمہ سپورٹس کے عہدیدار کوئی واضح جواب نہیں دے سکے۔

محکمہ سپورٹس یوتھ اینڈ کلچر کے ڈائریکٹر سردار شوکت حیات کے بقول مظفرآباد میں ایک جیم قائم ہے جہاں خواتین اپنی فٹنس برقرار رکھنے کے لیے جسمانی ورزش کر سکتی ہییں۔ اس کے علاوہ اس محکمہ کے تحت آزاد کشمیر بھر میں قایم 18 میں سے سٹیڈیم، گراونڈ یا کثیر المقصد کورٹ خواتین کے لیے مخصوص نہیں۔ ’البتہ خواتین جب چاہیں ان جگہوں سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور ان پر کوئی پابندی نہیں۔ ‘

شوکت حیات کا کہنا ہے کہ اس وقت سوائے ضلع نیلم اور ضلع حویلی کے آزاد کشمیر میں ہرضلع میں کم از کم ایک سٹیڈیم یا ملٹی پرپز گراونڈ موجود ہے اور مختلف کھیلوں کے مقابلوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتے ہیں۔ تاہم عملاً ان جگہوں پر خواتین کے لیے پریکٹس کا یا کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد کا کوئی باقاعدہ شیڈول طے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments