ہمارے گاؤں کا تاریخی چشمہ


ہمارے گاؤں جولگرام کے بازار میں موجودہ پبلک ہیلتھ کے سکیم کی جگہ پر ایک عجیب و غریب قسم کا قدرتی چشمہ تھا۔ تاریخی لحاظ سے اس کی اہمیت اس وجہ سے بہت زیادہ تھی کہ لوگ اس چشمے کو ایک عظیم بزرگ اخون پنڈو بابا سے منسوب کرتے تھے۔ بابا کے نام سے اس قدرتی چشمے کو جوڑنے کے درست اور قابل اعتبار ثبوت موجود ہیں۔ اس میں ایک ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ یہ چشمہ اس بزرگ کی جائیداد (سیرئ) میں واقع تھا۔ اس بزرگ کے اس کے علاوہ بہت سے سیرئی تھے جس میں ایک اخون بانڈہ ابھی تک اس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اس کے دو سگے نواسوں معین الدین اور اشراف الدین کو ہندوستان سے آتے ہوئے درگئی میں اس علاقے کے لٹیروں نے لوٹ کر قتل کردیا تھا۔ حالانکہ وہ اپنے علاقے کے ساتھ بے پناہ محبت رکھتے تھے اور وہاں سے ڈھیری جولگرام کے ہر حجرے کے لئے چاندنی کے چلم لا رہے تھے۔ اس بربریت اور ظلم کو لوگ پشتو کے ٹپوں میں بیان کرتے تھے جس میں ایک ٹپہ اس وقت بہت مشہور ہوا تھا۔

عین الدین یی مړ پھ خزانھ کړو

دا اشراف الدین غریب پھ سھ حلالھ وینھ

ترجمہ: عین الدین تو امیر تھا اور اس کے پاس کافی رقم تھی، اس لئے اس کو قتل کردیا گیا لیکن اشراف الدین جیسے غریب کو کس لئے ہلاک کر دیا گیا۔

اس بزرگ کی اولاد ابھی تک اس گاؤں میں آباد ہیں۔ جن میں محمد اکرم، حنیف اللہ، سمیع اللہ اور فرزندان روح الامین (محمد امین اور محمد نعیم) شامل ہیں۔

مخصوص ساخت اور شکل کی اعتبار سے اس چشمے کی ایک منفرد حیثیت تھی۔ بظاہر تو یہ ایک بڑا کنواں نظر آت تھا لیکن اس میں ایک قدرتی چشمہ کی تمام صفات موجود تھیں۔ مثال کے طور پر شمال کی جانب سے اس تک پہنچنے کے لئے بہت خوبصورت سیڑھیاں بنائی گئی تھیں اور چشموں کی طرح لوگ اس سے پانی براہِ راست برتنوں میں ڈال کر استعمال کرتے تھے۔ چشموں کی طرح اس کے درمیان میں سے پانی اس تیزی سے نکلتا تھا جیسے زمین کے نیچے سے ایک تیز دھار کے ذریعے پانی چشمے میں بکھیرا جا رہا ہو۔

قدرتی چشموں کی طرح اس سے ایک ندی نکلتی تھی جو اخون پنڈو بابا کے مزار پراختتام پزیر ہوتی تھی۔ چشمے سے مزار تک لوگ مختلف طریقوں سے اس ندی کے پانی کو آب پاشی کے لیے استعمال کرتے تھے۔ مختلف رنگ کی بڑی بڑی خوبصورت مچھلیوں نے اس چشمے کو بہت خوبصورت اور دلکش بنا دیا تھا۔ ان مچھلیوں کے متعلق ایک کہانی مشہور تھی کہ اگر کوئی اسے پکڑ کر پکانے کی کوشش کریں تو یہ پگھل کر توے پر پانی میں تبدیل ہوجاتی ہیں کیونکہ بابا یہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی انہیں پکائے اور چشمے کی خوبصورتی برباد کرے۔

اس چشمے کا اس گاؤں کے پینے کے پانی کی ضروریات پورا کرنے میں اہم کردار تھا۔ چونکہ قبائلی زندگی کے ہوتے ہوئے گھروں میں کنویں بنانے کا رواج عام نہ تھا، اس لئے قریبا گاؤں کے تمام باشندے یہاں سے پانی لے جاتے تھے۔ گھروں میں پانی لے جانے کا کام عورتوں کے ذمہ ہوتا تھا۔ عورتیں مٹکوں اور دیگچوں میں پانی لے جاتی تھیں اور اس طرح گودر (پنگھٹ) کا سماں ہوتا تھا۔ چونکہ اخون پنڈو بابا کی مذہبی خدمات اور مثالی کردار کے سبب اس چشمے کو مقدس گردانا جاتا تھا اور دوسرا یہ بالکل اس گاؤں کے بازار کے متصل واقع تھا، اس وجہ سے کوئی غیراخلاقی اور ناخوشگوار واقعہ بہت کم دیکھنے میں آتا تھا۔

اس چشمہ کے جنوب، مغرب اور شمال کی جانب ایک کشادہ بہت بڑی صحن نما جگہ تھی جس کے جنوب اور شمال کی جانب شاہتوت کے بہت بڑے بڑے درخت تھے جن کے نیچے لوگ گرمیوں میں آرام کرتے تھے اور عید کے دوران اس کو جھولوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ یہ صحن اس گاؤں کا سپورٹ کمپلیکس تھا۔ اس میں شام ڈھلنے سے پہلے گاؤں کے جوان اور بچے مختلف قسم کے کھیل کھیلتے تھے اور یہاں ہر وقت ایک میلہ سا لگا رہتا تھا۔ یہ اس گاؤں کا غیر متنازعہ اسمبلی حال تھا اور گاؤں کے مشران مشترکہ مسائل پر یہاں جرگہ کرتے تھے۔

چونکہ بچوں کے گرنے کی تدارک کے لئے چشمے کے اوپر کی سطح پر جنوب، مغرب اور شمال والے کنارے پرمضبوط اور تین فٹ اونچی برجیاں بنائی گئی تھیں، اس لئے جرگہ کے دوران انتہائی قابل احترام دو تین مشران جب برجیوں پر بیٹھتے تو یوں لگتا جس طرح آج کل جدید اسمبلی حال میں سپیکر اوپر بیٹھ کر اجلاس کی صدارت کر رہے ہوتے ہیں۔ گویا یہ بغیر چھت کے اسمبلی حال تھا۔ وہ لوگ جودور درازعلاقوں سے یہاں کے مشہور ولی حصار بابا کے مزار پر زیارت کے لیے آتے تھے، وہ یہاں تھوڑا قیام کرکے پانی وغیرہ پی کر باقی سفر کے لیے تازہ دم ہوجاتے تھے، گویا یہ بغیر پیسوں کے سرائے تھی۔

1981 ء کا ایک روشن دن تھا۔ میں تھانہ کالج سے گاؤں آتے ہوئے جب سوزوکی سے اترا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گاؤں کے بچے، جوان اور بوڑھے جمع ہو کر چشمے کی جگہ پر بور کی ایک بڑی مشین کا تماشا کر رہے تھے۔ میں نے بھی کچھ دیر کے لیے تماشا دیکھا۔ چونکہ میری بھی ثقافتی اور تاریخی مقامات کی اہمیت کی سوچ ابھی پختہ نہیں ہوئی تھی تو میں نے بھی بڑے شوق سے اس تماشے میں حصہ لیا لیکن اب جب وہ افسوس ناک منظر میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے تواس منظر کا نظارہ کرنے پر شرمندگی کا احساس ہوتا ہے اور پشتو کے مشہور شاعر رحمت شاہ سائل صاحب کا یہ شعر مجسم ہوکر لبوں پر آ جاتا ہے۔

پھ ډمامھ د کلی خلق راغلو

چنار یی اوسیزو چینھ ورانوی

ترجمہ: نقارے کی آواز پر گاؤں کے سارے لوگ اکٹھے ہوکر جمع ہوگئے اور سب نے مل کر چنار کے درخت کو آگ لگائی اور وہاں موجود چشمے کو مسمار کردیا۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے کوشش کرنا اور اس کے نتائج سے فائدہ اٹھانا وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنے لیے آسانی پیدا کرنے کی آڑ میں اپنے ثقافتی، تاریخی اور مذہبی مقامات کو نقصان پہنچانا یا ہمیشہ کے لیے انہیں مسمار کرنا اپنی تاریخی شناخت اور قومی اقدار کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ جدید دور میں اس عمل کو دنیا میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ پبلک ہیلتھ کا منصوبہ جو اس چشمہ پر بنایا گیا ہے، اس سے مشرق کی جانب دس قدم کے فاصلے پر ایک کشادہ شولگری زمین موجود ہے، اس میں کسی بھی جگہ پر اس سکیم کو بنایا جا سکتا تھا کیونکہ اس چشمہ اور اس کے متصل شولگرہ زمین میں پانی کا لیول ایک جیسا ہے۔

دنیا میں دس چشمے اپنے گرم پانی کے حوالے سے بہت مشہور ہیں۔ جولگرام کے چشمے میں بھی گرم پانی کی خاصیت موجود تھی کیونکہ صبح کے وقت اس سے آگ پر رکھی ہوئے دیگچی کی طرح بھاپ نکلتا تھا۔ یعنی سردی میں اس کا پانی کافی گرم اور گرمی کے موسم میں ٹھنڈا ہوتا تھا۔ اس قدرتی چشمے کو ختم کرنے کی بجائے محفوظ کرلیا جاتا تو یقیناً پورا گاؤں اس کی وجہ سے مشہور ہوجاتا اور لوگ دور دراز سے اس کو دیکھنے اور اس کا پانی حاصل کرنے لئے آتے۔

آئینِ پاکستان کے سیکشن 28 کی رو سے یہ ہر پاکستانی شہری کا فرض بنتاہے کہ وہ اپنی زبان اور ثقافت سے متعلق چیزوں کو محفوظ کرے۔ خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی نے 2016 ء میں صوبے میں تمام تاریخی عمارات اور مقامات جن کا ہماری تاریخ، ثقافت اور مذہب سے تعلق ہو، ان کو محفوظ بنانے کے لیے ایک بورڈ کی سفارش کی تھی۔ حکومت کے متعلقہ محکمے کو ہمارے علاقے میں ملاکنڈ کڑپہ سے لے کر دریائے سوات کے کنارے تک 1895 ء اور 1897 ء کی انگریزوں کے خلاف جنگوں میں شہداء اور صوفیائے کرام کے مزارات اور پرانے چشموں کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس کے علاوہ اس پورے خطے میں بدھ مت کے قدیم تاریخی مقامات اور آثار موجود ہیں، انہیں بھی منہدم ہونے سے بچانے کے لئے حکومت کے متعلقہ محکمے کو سنجیدگی سے اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ اس تاریخی ورثے کو محفوظ بنایا جائے اور اسے مذکورہ اخون پنڈو بابا کے چشمے کی طرح تباہی سے بچایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments