! چیختی چنگھاڑتی عورتیں


مہذ ب معاشروں کی طرح مہذب افراد کی بہت سی علامات ہو سکتی ہیں۔ کچھ ظاہری کچھ چھپی ہوئی۔ برسوں پہلے سویڈن کا سفر کرنے والے ایک دوست سے وہاں کی سب سے متاثر کن بات پوچھی تو جواب ملا ”یار! وہاں ٹریفک میں ہارن کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے، کئی دن گزر جاتے ہیں ہارن کی آواز سنے بغیر، کان ترس جاتے ہیں۔ بہت عجیب لوگ ہیں ”۔ میرا خیال ہے عجیب سے اس کی مراد“ مہذب ”تھی

ایک زمانے میں ہمارے یہاں گلی کوچوں، محلوں، اندرون شہر اور خاص طور پر پنجاب کے دیہات میں خواتین کا اوپن ایئر قسم کا لڑائی جھگڑا ہونا معمول کی بات تھی۔ ایسا جھگڑا پہلے صرف لائیو ہوا کرتا تھا، اب گوگل پر دو چار ٹھونگیں مارنے کی دیر ہے، موبائل کیمروں کے ذریعے کی ہوئی ریکارڈنگ بھی مل جاتی ہے۔ لیکن ان عظیم جنگوں میں، عظیم جنگوں کی طرح، لڑائی کی پس پردہ وجوہات بہت اہم ہوا کرتی تھیں۔ بچوں کا جھگڑا، مردوں کی بدنظری، کوڑا ٹھکانے لگانے کے ایشو، نکاسی آب کا مسئلہ، راستے کا کسی وجہ سے رک جانا، کرکٹ کی گیند سے کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ جانا وغیرہ۔

تاہم، سیدھی سادی اور صاف دلوں والی یہ خواتین کسی دوسری خاتون سے جھگڑے کی صورت میں خطرناک حد تک صاف گوئی سے بھی کام لے سکتی تھیں۔ یہ نسخہ کیمیا ایک معمولی گولی کو میزائل بنانے کے لئے کافی ہوسکتا تھا۔ چنانچہ بعض اوقات بچوں کی معصوم سی لڑائی، عورتوں کی ترش کلامی سے ہوتی ہوئی مردوں کے گریبانوں تک جا پہنچتی۔ اس ساری تمثیل نگاری میں اہمیت خواتین کے اس انداز کی ہے جو سلطان راہی کی بھڑکوں، مصطفیٰ قریشی کی آواز کے زیرو بم، محمّد علی کی جذباتیت اور غلام محی الدین کی اداکاری کا شاہکار مجموعہ ہوتا۔ لیکن معمولی باتوں پر چیخنے چلانے والی ہماری یہ دیہاتی مائیں، بہنیں زیادہ تر تعلیم کے زیور سے۔ نا آشنا ہوتیں لہذا ایسی صورت حال میں ان سے زیادہ امیدیں نہیں لگائی جا سکتی تھیں

پھر تعلیم آ گئی ۔۔۔ اور بہت زور سے آئی۔

اس یک دم اور بغیر بتاے آنے والی تعلیم نے وہی کیا جو یک دم اور بغیر بتا کر آنے والی چیزیں کرتیں ہیں۔ شرمندہ اور پریشان۔ چنانچہ اس تعلیمی برکھا نے دیکھتے ہی دیکھتے برساتی کھمبیوں کی ایک پوری فصل تیار کر دی جو ہزاروں نوجوانوں کی صورت میں ڈگریاں تھامے نوکری کی منتظر تھیں۔ دوسری جانب میڈیا کو آزادی نصیب ہوئی۔ اور آزادی بھی ایسی کہ مادر پدر آزادی بھی شرما جائے۔ لہذا انگریزی محاورے ”ہینڈ اینڈ گلو“ کے مصداق جوڑ تیار تھا۔

ایک طرف نوجوان، پڑھی لکھی اور چیختی چنگھاڑتی خواتین کا لشکر جرار اور دوسری طرف میدان۔ طبل بج گیا اور طرفین کے ملاپ سے میڈیا اور نیوز میڈیا کا ایسا سنہری دور پاکستان میں شروع ہوا کہ الامان۔ بلاشبہ ان خواتین میں سے پیشتر محنتی اور ورکنگ کلاس کی نمائندہ تھی۔ لیکن ”آئیکون“ وہ بنیں اور عروج ان کو نصیب ہوا جو انٹرو یو کے دوران سامنے والے کے ذہن میں اپنی بات اور اس کے منہ میں مائیک ٹھونسنا اپنا صحافیانہ اور پیشہ وارانہ فرض سمجھتی تھیں۔

سوال کرنے کا حق تو انھیں بطور صحافی حاصل تھا، ہی سامنے والے مہمان کے ساتھ چاہے وہ مرد ہو یا خاتون چیخنے، چلانے اور چنگھاڑنے کا لائسنس انہوں نے خود کو خود ہی دے ڈالا۔ چنانچہ اس کے لئے آپ کا ڈاکٹر، سافٹ ویئر انجنیئر، وکیل، ایم بی اے یا سمپل بی اے پاس ہونا بھی کوئی ضروری نہیں تھا۔ ایک ترش آواز، غیر مہذب لب و لہجہ، تھوڑی سی چیخ و پکار اور کسی حد تک بدتمیزی کی گراں قدر کوالیفیکیشن کافی تھیں۔

ٹی وی پر چیخنے والی میڈیائی مخلوق کے جلوہ گر ہونے سے تھوڑا پہلے، کچھ خواتین پاکستان کے تھیٹر اور اسٹیج ڈراموں کا رخ کر چکی تھیں۔ وہاں مردوں کی بدتہذیبی سکہ رائج الوقت تھی۔ ان حضرات کے لئے ذو معنی باتیں کرنا، جگتیں لگانا، اوچھی حرکتیں کرنا، بدتمیزی کرنا یا کسی قسم کی بدتہذیبی کا مظاہرہ کرنا سستی شہرت (یا بدنامی) حاصل کرنے کاآسان راستہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن خواتین کہاں پیچھے رہنے والی تھیں۔ لہذا گلی، محلوں کے بعد کچھ چیختی چلاتی آوازوں نے بہتر موقعوں کی تلاش میں تھیٹر کا رخ کر لیا۔ اگر محترمہ نرگس اور دیدار صاحبہ نے اپنے فحش رقص اور حرکتوں سے اسٹیج اور تھیٹرکا بیڑا غرق کیا تو روبی انعم صاحبہ نے بھی اسٹیج پر چیخ چنگھاڑ کر کے فن کی کوئی خاص خدمت نہیں فرمائی۔

اب یہ چیخ و چنگھاڑ محلوں، تھیٹر، ٹی وی سے ہوتی ہوئی عوام تک پہنچ چکی ہے۔ اس والی چیخ و پکار کا سہرا ان خاص خواتین کے سر ہے جو عوام کی خود ساختہ نمائندہ ہیں۔ حقوق کی جنگ کے نام پر بد تہذیبی کا ایسا طوفان اٹھایا گیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ چیختی چنگھاڑتی خواتین کا ایک ایسا جمگھٹا تھا جس نے ایک صحیح پیغام کو پھیلانے کے لئے غلط انداز اپنایا۔ انہوں نے نے مغرب کی اندھے ہو کر ( جسے پنجابی میں انے وا کہنا زیادہ پرمعنی ہے ) کی نقالی کی اور انجام وہی ہوا جو کوا اور ہنس کی چال کا ہوا کرتا ہے۔ ان چیختی چنگھاڑتی آوازوں نے اپنی بدتہذیبی اور غیرذمہ داری کے سبب ایک نہایت سنجیدہ مسلے کو الجھا کر رکھ دیا۔ لہذا کبھی کھانا خود گرم کرنے کا اصرار اور کبھی میرا جسم میری مرضی نما بلیک میلنگ۔ کیا ٹھنڈا جسم، گول روٹی، اور گرم کھانا اس معاشرے کی خواتین کے مسائل تھے؟

ظاہر ہے اس سارے معاملے میں مرد حضرات کوئی دودھ کے دھلے تو ہیں نہیں۔ حالیہ چند برسوں میں چیخنے چنگھاڑنے کی صنعت میں ہمسایہ ملک کے چند مرد حضرات کا بڑا گھناونا کردار ہے۔ اس ملک میں ہونے والے ظلم اور جبر و ستم کا تعلق لا محالہ اس چیخ و چنگھاڑ سے جا ملتا ہے۔ آپ چیخیں بویں گے تو چیخیں ہی کاٹیں گے۔ یہ سوچ کرحیرت ہوتی ہوتی تھی کہ دلی، لکھنؤ، ا ودھ، حیدرآباد، علی گڑھ کے مہذب لوگ جب یہ چیخ و پکار اپنے گھروں میں ٹی وی پر۔ دیکھتے ہوں گے تو کیا سوچتے ہوں گے۔ اب اس کا جواب دلی سے آیا ہے۔

چیختی چنگھاڑتی عورتوں کی ایک اور قسم لکھنے پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ نہایت اعلی تعلیم یافتہ خواتین اپنے حق آزادی اظہار راے اور ترویج افکار کا سفاکانہ استعمال کرتے ہوئے آپ کو مباشرت، سہاگ رات، حیض، نفاس، اسقاط حمل، نسوانی بیماریوں، آرگزم، ہم جنس پرستی اور خود لذتی سمیت کسی بھی ایسے انتہائی اہم موضوع پر بھاشن فراہم کر سکتی ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو سکے۔ اب یہ سوچنا کہ اس میں علم کتنا ہے اور شائستگی کتنی، یہ پڑھنے والے کی ذمے داری ہے۔ لکھنے والوں کو تو شیئر اور لائکس سے غرض ہے۔ چانچہ اگر گئے زمانے کی طرح موجودہ دور میں سلطان راہی بطور ہیرو، غیرت میں آ کر ولن کو دھمکا بیٹھے ”اوے! چھڈ میری پین دا دوپٹہ“ ( میری بہن کا دوپٹہ چھوڑ ) تو کچھ بعید نہیں کہ نہایت اعلی تعلیم یافتہ، نڈر، بے خوف اور چیختی ”چنگھاڑتی بہن جی فرما دیں“ ولن جی، چھوڑئیے، بھیا کی باتوں کا برا مت مانیے، لیجیے میرا دوپٹہ اور کھینچ لیجیے

سچ پوچھئے تو خواتین کے چیخنے چنگھاڑنے کا کلچر اس خطے کا ہے ہی نہیں۔ اس بیماری کا ربط ہمارے غلامانہ ماضی سے ہو سکتا ہے کیوں کہ بے جا چیخنے چنگھاڑنے، ننگ دھڑنگ حقوق کی بات کرنے اور ذو معنی نعرے لگانے والی، بہت سی خواتین آپ کو لندن، نیو یارک یا یوکرائن کی گلیوں میں تو شاید مل جائیں لیکن جاپان، انڈونیشیا، ملایشیا یا مجموعی طور پر مشرق میں ایسی مثالیں ذرا کم ہی ہیں۔ لہذا انگریز کے جانے کے ستر سال بعد بھی یہ حال ہے کہ کسی بھی جدید تعلیمی ادارے میں چلیں جائیں، شاید ہی کہیں طالبات کو اپنی بات مدلل، سلجھے ہوئے اور موثر انداز میں کہنا سکھائی جاتی ہو۔ جسے سوال کے لئے مائیک دے دو وہی تقریر کرنا چاہتی ہے، پلے کارڈ اٹھوا لو، بینر لہرا لو اور نعرے جتنے مرضی لگوا لو۔ قابلیت کا یہ حال ہے کہ روسی لال انقلاب کی وفات کے تیس سال بعد بھی چیخ چیخ کر، ہر چیز کو لال لال کرنے کی بھونڈی کوششیں ہو رہی ہیں، چاہے اس کوشش میں اپنا منہ ہی کیوں نہ لال ہو جائے۔ سو عجیب ”قحط الرجالی“ کا دور ہے

نہ جانے پروین شاکر، حسینہ معین، نوشی گیلانی، ادا جعفری، نور جہاں، ملکہ پکھراج، اقبال بانو، نیرہ نور، خالدہ ریاست، ٹینا ثانی، شہناز شیخ، منی بیگم، ثر یا ملتانیکر، مدیحہ گوہر، طاہرہ سید، نثار فاطمہ، فہمیدہ ریاض، بلقیس ایدھی، ثمینہ پیرزادہ، سلیمہ ہاشمی، قراۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، منیزہ ہاشمی، خوش بخت شجاعت، جگنومحسن، ثانیہ سعید، شائستہ زید، عشرت ثاقب، زہرا نگار اور فاطمہ ثر یا بجیا والی تہذیب یافتہ نسل کہاں چلی گئی؟

اب توبشریٰ انصاری ہیں، روبی انعم ہیں، رابعہ انعم ہیں، ماروی سرمد یا پھر بلبلے والی مومو!

اللہ ان سب کو خوش رکھے اور ہمیں محفوظ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments