غربت کے آئینہ میں مہنگائی کا تدارک!


وزیراعظم عمران خان نے عوامی مسائل کے تدارک کے لئے عملی اقدامات میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ ریاست مدینہ کا ماڈل بھی ہر لمحہ انہیں کچھ نہ کچھ کر گزرنے کے لیے بے قرار رکھتا ہے، لیکن معاشی مسائل کے حل کے لیے تاحال ان کی کوششیں پوری طرح ثمر آور نہیں ہو رہیں، اگر ایک ہاتھ سے عوام کو ریلیف دیا جاتا ہے تو دوسرے ہاتھ واپس بھی لے لیا جاتا ہے جس سے مسا ئل میں خاطر خواہ کمی نہیں ہو پارہی ہے، لیکن اس کے باوجودقوم کی ساری امیدیں وزیر اعظم کے خلوص و عزم سے ہی بندھی ہیں۔

ملکی معاشی صورتحال کی بہتری کے لیے حکومت کے اقدامات کا تسلسل اس امرکا عندیہ ہے کہ عام آدمی زندگی میں ریلیف کا کوئی قابل عمل نمونہ لایا جائے گا جس سے غریب کو اوپر لانے میں مدد مل سکے، لیکن حکومت کے معاشی پروگرام، عمومی اصلاحات اور عبوری ریلیف کے جن اقدامات کا وزیر اعظم اور ان کے معاشی مشیر و معاونین خصوصی حوالہ دیتے ہیں، اسی وقت نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں اور عوام ان کی افادیت اور اہمیت کو تسلیم کریں گے، جب ان کی زندگی پر ان اقدامات کے اثرات مرتب ہوں گے اور ان کی توقعات اورآرزوؤں کے مطابق معاشی آسودگی ان کے روزمرہ کی زندگی میں خون کی طرح گردش کرتی نظر آئے گی، تاہم ملکی معیشت کو جن چیلنجزکا سامناہے، اس کے لیے ایک بنیادی اقتصادی اور سماجی نظام کی ضرورت ہے۔

اس میں شک نہیں کہ پچھلی حکومتوں نے بنیادی اقتصادی اور سماجی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوئی موثر اقدامات نہیں کیے، ملک ایک مثالی اقتصادی نظام کو ترستا رہا، یہاں تک کہ ملکی خزانہ خالی ہوگیا، اسے ڈیفالٹ کا خطرہ تھا، جسے موجودہ حکومت نے بر وقت ہمہ جہتی کوششوں سے ٹالاہے، لیکن معاشی حقائق کا تقاضا ہے کہ حکومت معیشت کے استحکام کے لیے اپنی سمت سازی پر مکمل توجہ دے اور اس بات کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کو عوام کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرے، اس کے لیے ضروری نہیں کہ وزرا ء، مشیروں کی فوج ظفر موج روزانہ بیانات جاری کرے اور قوم کو خوشخبریاں سنائی جائیں کہ فلاں چیزوں کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں، فلاں ریلیف کا یہ نتیجہ نکلا، اس کام نے قوم کی نیندیں بحال کر دی ہیں۔

اس پروگرام سے عوام خوشی سے نہال ہوگئے اور کل جو اقدامات ہونے والے ہیں، ان سے قوم کی قسمت بدل جائے گی، عوام کے سارے مسائل ہوجائیں گے اورکوئی عالمی مالیاتی ادارہ کے در پر کشکول لے کر نہیں جائے گا۔ اگر حکومت بنیاد ٹھوس اقتصادی روڈ میپ پر قائم ہو اور جنھیں معاشی اصلاحات، نتیجہ خیز اقدامات اورتبدیلی لانے کے ٹاسک دیے گئے ہیں وہ اپنے اہداف مکمل کریں اور ایک معاشی منزل تک پہنچنے کے لیے حکومتی پروگراموں میں اجماعیت کے کلیدی نکتے کو پیش نظر رکھیں تو حکومت کے معاشی مسیحاؤں کو ڈھنڈورا پیٹنا نہیں پڑے گا، بلکہ معاشی ریلیف کی فراہمی کا عمل خود گواہی دے گا۔

یہ امر واضح ہے کہ موجودہ دور حکومت میں مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح 14.6 پر رہی ہے۔ اس بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے معیشت کا پہیہ جام رہا، پچھلے چند ماہ میں آٹے، چینی سمیت کھانے کی جملہ اشیا مہنگی ہوئیں ہیں۔ حکومتی پالیسیوں سے ہونے والی مہنگائی تو رہی ایک طرف، مہنگائی مافیا ان دنوں اس قدر منظم اور متحرک ہے کہ وہ ایک کے بعد دوسری چیز مہنگی کرنے یا مارکیٹ سے غائب کرنے کے لئے سرگرداں ہے۔ یہ درست کہ وزیراعظم عمران خان مہنگائی ختم کرنے کے لئے پُر عزم ہیں، لیکن اگر مہنگائی مافیا کے خلاف کارروائی بروقت نہ کی گئی تو مارکیٹ سے دوسری اشیا غائب ہونے یا ان کی قیمتیں بھی آسمان کی بلندیوں تک جانے دیر نہیں لگے گی اور غریب عوام ایک نئی افتاد کا شکار ہو جائیں گے۔

جس طرح آٹے اور چینی کے بحران سے نمٹنے کے لئے حکومت کو کثیر زرِمبادلہ خرچ کرکے انہیں درآمد کرنا پڑا، مزید اشیا پر یہ نوبت نہیں آنی چاہیے۔ اس وقت ملک بدعنوانی، رشوت، مصنوعی گرانی کی شکل میں ایک غیرقانونی متوازی معیشت کا شکار ہے جس سے معیشت کا پہیہ جام ہے۔ اس کے لئے حکومت کے کار پردازوں کو سنجیدگی سے سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا، مہنگائی پر قابو پانے کے لئے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے انتظامی کنٹرول موثر بنانا ہوگا، زبانی کلامی دعوؤں سے عوامی مسائل پر قابو پانا ممکن نہیں ہے، اس کے لیے موثر جامع حکمت عملی کے ذریعے کا بینہ اور انتطامیہ کو متحرک کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اس وقت تحریک انصاف حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وزراء کی اکثریت مسائل سے لاعلم ہے۔ مسائل سے لاعلمی کی وجہ سے بہتری کی طرف سفر نہیں کیا جا سکتا۔ وزراء کے مزے لگے ہوئے ہوئے مشیروں کی موجیں ہیں، سرکاری خرچے پر گھوم پھر رہے ہیں اسمبلی کے اجلاسوں میں طوفان بدتمیزی ہے، قانون ساز عوام کا خون چوسنے میں سب سے آگے اور عوام کو ریلیف دیتے وقت انہیں پانچ روپے فی لیٹر کمی بھی بہت بڑی معلوم ہوتی ہے۔ حکومتی وزراء کا یہ عالم ہے کہ انہیں اپنی ہی کابینہ کی طرف سے بھی تنقید اور مزاحمت کا سامنا ہے، ۔

حکومتی وزراء پرہونے والی تنقید کے بعد میڈیا پر بات ہو گی تو شاہ کے وفادار یہی کہیں گے کہ میڈیا جھوٹ پھیلا کرنفرت ابھارتا ہے یا پھر عوام کو گمراہ کرتا ہے، اس پر کئی گھنٹے بحث ومباحثہ، بیانات اور دلیلوں میں ضائع کیے جاتے ہیں اور اصل مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی، حکومت کو جن مسائل کا سامنا ہے، اس کی بڑی وجہ نامناسب حکمت عملی اور عوامی مسائل میں عدم دلچسپی ہے۔ وزراء کی اپنی کارکردگی ٹھیک نہیں اور وہ اس کا ملبہ کبھی میڈیا پر گراتے اور کبھی بیوروکریسی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، حالانکہ خرابی کی اصل وجہ ان کی ناقص کا ر کردگی ہے۔

یہ حقیقت روز روشن کی طرح اعیاں ہے کہ وزیراعظم خلوص دل سے عوام کو معاشی ریلیف دینا چاہتے ہیں، مگر ضرورت ان کاموں میں ترتیب، مقصدیت اور افادیت کا لنک تلاش کرنا اور ایک مربوط اقتصادی پروگرام کو شجر سایہ دارکی شکل دینا ہے۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ مہنگائی، غربت کے خاتمے اور مساوات پرمبنی اسلامی فلاحی معاشرے کے لیے بات، منصوبوں، عزم، ارادوں سے آگے بڑھنی چاہیے اور عملی اقدامات کی طرف آنا چاہیے، تاکہ واقعی ملک میں کوئی بھوکا نہ سوئے اور ریاست مدینہ کی طرز پر پاکستان اسلامی فلاحی مملکت بنے۔

حکومت کے پاس ا بھی وقت ہے کہ اپنے اہداف پر نظر رکھے اور اپنے مقرر کردہ اہداف میں کامیابی کو یقینی بنائے، اگر حکومت معاشی حقیقت پسندی پر قائم رہے تو عوام کو ریلیف مہیاکرنے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کی فرہاد شکن روایت کی ضرورت نہیں پڑے گی، حکومتی معاشی ٹیم زبانی دلاسے دینے کی بجائے عوا م کے دکھ شیئرکرے، ڈھنڈورچیوں سے کنارہ کر لے اور صرف عملی اقدامات کو نتیجہ خیز بنائے، اس وقت مہنگائی میں کمی کو غربت کے آئینہ میں دیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments