دو ٹکے کا مرد


جیسے جیسے عورت مارچ قریب آرہا ہے قدامت پسند طبقے کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ عورت مارچ ہونے سے پہلے ہی بہت سی چہ مگوئیاں ہونے لگی ہیں۔ کوئی بائیکاٹ کی بات کررہا ہے تو کوئی بے شرمی اور بے حیائی سے تعبیر کرکے اسے اسلام کے خلاف جنگ قرار دے رہا ہے۔ پچھلے مارچ کے پلے کارڈز پر دوبارہ تنقید ہوتی نظر آرہی ہے۔ ٹاک شوز میں بھی یہی موضوع زیرِ بحث ہے جہاں فیمینسٹ نمائندہ عورتوں کی حقوق کی بات کرتی نظر آئیں تو انہیں ”لبرل آنٹیاں“ کہہ کر یا پھر مٹھی بھر ایلیٹ کی بگڑی ہوئی ممی ڈیڈی اولادیں سمجھ کر مسترد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

خلیل الرحمٰن قمر جیسے رائٹرز ترقی پسند سوچ رکھنے والے طبقے کے لئے misogyny کی علامت بن چکے ہیں۔ جبکہ قدامت پسند طبقے کے لئے عورت کی حیا اور وفا کی پاسداری رکھنے والا مرد جو کہ مرد کی خامیاں بھی عورت کی جھولی میں ڈال دیتا ہے اگر مرد بے وفا ہوجائے تو اسے توّجہ اورسچے عشق کی کمی لاحق ہوتی ہے۔ اور اس کے دام بھی کم نہیں پڑتے لیکن اگر عورت بے وفا ہوجائے تو شرم وحیا کا مواد کم بتایا جاتا ہے اور اس کی قیمت دو کوڑی کی رہ جاتی ہے۔

عورت کی عزّت اور حفاظت کا ڈھونگ دراصل یہ جستجو ہے کہ اس کو سوال کرنے کا اختیار نہ کبھی دیا گیا تھا اور نہ ہی دیا جائے۔ خلیل الرحمٰن قمر جیسے دوٹکے کے لکھاری یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ باپ تھپڑ ماردے تو بیٹی کو اُس کو چھوڑ کر تھوڑی نہ چلے جانا چاہیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرد چاہے وہ باپ ہو یا بھائی بیٹا ہو یا شوہر عورت پر ہاتھ اٹھانے کا سوال اور جواز کہاں سے لائے؟ اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں بالخصوص یہ کہ ان کی وہ عورت جس کو وہ اپنی ملکیت سمجھتے ہیں کچھ ایسا کہہ گئی ہے یا کر گئی ہے جو اس مرد کی تعریف سے باہر ہے۔

عورت کی پہچان کا اختیار اس کے جسم سے متعلقہ تمام فیصلوں کا اختیار عورت کے علاوہ اور کسی کے پاس ہو بھی کیوں؟ جو عورت پدرشاہی معاشرے کے ہتھّے چڑھ جائے اور اس دائرے سے باہر آنے کی کوشش کرے وہ ”دو ٹکے“ کے کہلاتی ہے۔ جو عورت اپنی تعریف خود بیان نہیں کرسکتی۔ اپنی پہچان معاشرے میں تو کیا گھر کی چاردیواری میں بھی نہیں بنا سکتی۔ ایک مرد تو کیا کوئی دوسری عورت بھی عورت کے دائرہِٕ کار میں مداخلت کرنے کا حق نہیں رکھتی۔ ہر عورت حالات اور نظریات کو جانچنے اور پرکھنے کا اپنا نظریہ رکھتی ہے۔ خلیل الرحمٰن قمر کے حساب سے عورت کو مرد کے برابر آنے کے لئے مرد کا ریپ کرنا ہوگا۔ عورت مارچ کا نام عورت کیوں ہے؟ اس کا نام بھی مرد طے کرے اور پلے کارڈز بھی خلیل ألرحمٰن جیسا مرد لکھے گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو مرد عورت کو دو ٹکے کی سمجھتا ہے اس کی تعریف اور عمل کا دائرہِٕ کار طے کرنا کا اختیار کیسے رکھتا ہے؟ اور اگر عورت کی قیمت طے کرنے کا اختیار مرد کے پاس ہے تو اس مرد کی قیمت کون طے کرے گا؟

ایسا مرد عورت سے یہ سوال کرتا ہے کہ انہیں اور کتنی آزادی چاہیے؟ ان کو تمام حقوق مل تو چکے ہیں۔ عورت مارچ جیسی بے حیائی کی کیا ضرورت ہے؟ سڑکوں پر آوارہ اور اوباش نوجوانوں کی طرح سال میں ایک بار ہی سہی آوارہ گردی کرنے اور دندانے کا مقصد کیا ہے؟ درست۔ کیوں کہ یہ حق تو صرف دو ٹکے کے مردوں کو حاصل ہے۔ دو ٹکے کا مرد ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ عورت کیسا لباس پہنے گی جبکہ اس کی اپنی آنکھیں برقعے میں بھی سب اعضإ بخوبی سکین کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ عورت کو پھٹی ہوئی آنکھوں سے تاڑنے والا مرد دو ٹکے کا نہیں بلکہ وہ عورت ہے جس کا کفن بھی مرد سے محفوظ نہیں؟

ایسے مرد کو اس بات پر بھی بہت تکلیف ہے کہ میرا جسم میری مرضی جیسے پلے کارڈز کیوں بنائے جائیں؟ اس میں ایسی کیا انہونی ہے کہ عورت کے اختیارات عورت کے لباس سے شروع ہو کر اس کے جسم اور اس کے ذہن کے حقوق تک ہیں اور یہ نعرہ ان اختیارات کو واپس لینے کا نام ہے۔ عورت کے لباس کی تعریف اس کی ذات کی تعریف سے جڑی ہے گو کہ صرف یہ ہی وہ مدعا نہیں ہے جو عورت کی تعریف اور پہچان کے سفر کے رستے میں حائل ہے۔ عورت اپنے جسم اس کے استعمال اور اس کو ڈھانپنے یا نہ ڈھانپنے کے فیصلے یا پھر اُسے کس قدر ڈھانپنا ہے اور کس قدر ظاہر کرناہے اس کا فیصلہ کسی مرد کے ہاتھ میں کیوں دے؟ اور اس کے باقی کے جسمانی حقوق جو یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کوئی بغیر اجازت اس کے جسم کونہ چھوسکے اور اس کے جسم اور اس کی مرضی میں مرد کی نگاہ بھی شامل ہے۔ مرد اس کی مرضی کے خلاف اس پر بُری نگاہ بھی کیوں ڈالے؟

ہمارے بیمار ذہنیت والے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر طرح کا بوجھ فرائض کا پلندہ اور توپوں کا رُخ سراسر عورت کی طرف ہے۔ کوئی یہ بات کیوں نہیں کرتا کہ مرد کو بھی اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ کوئی مرد کی قدر کو ٹکوں میں تولنے کی جسارت کیوں نہیں کرتا۔ مرد چلے گا جیسا بھی ہو۔ دو ٹکا سے کم بھی۔ عورت پلاسٹک کی گڑیا ہونی چاہیے۔ اعضإ جو مرد کی مرضی اور پسند کے موافق نہیں اس کو مرد یہ کہہ کہ رد کرسکے ”کہ بی بی تیرے جسم میں ہے کیا؟

” یہ الفاظ اور انداز پیٹرارکی کا ایسا بھیانک روپ ہیں اور یہ صرف پست علاقوں تک محدود نہیں۔ ایلیٹ سے لے کر دانشوروں اور رائٹرز میں یہ سوچ پنپ رہی ہے۔ کبھی کبھار مرد عورت کی آزادی کے پردے میں بھی وہی کھیل کھیلتا ہے جہاں وہ باہر کی عورت کو آزادی دلانا چاہتا ہے جب کہ اپنے گھر کی عورت کے لئے وہ ایک روایتی مرد بن جاتا ہے۔ میرا جسم میری مرضی کا مطلب یہ بھی ہے کہ مرد عورت کو اپنی مرضی کا ایسا ڈیکوریشن پیس تصّور نہیں کر سکتا جو صرف مجسم خوبصورتی کی تعریف میں آتاہے۔

ایک ایسا مجسمہ جو کہ نہ دیکھ سکتا ہے نہ سن سکتا ہے۔ ایک ایسی پتھر کی مورتی جو منہ میں زبان نہیں رکھتی۔ اس کا جسم اس کی اپنی مرضی سے تعریف اور پہچان نہیں پا سکتا۔ کیونکہ اس تعریف اور پہچان کے لئے دماغ چاہیے جو کہ پدرشاہی کی تعریف کے حساب سے عورت کے پاس ہے بھی نہیں۔ تو اسے کیا پتہ اپنے جسم کا تحفظ کیسے کرنا ہے۔ اسے اپنے ہی جسم کو استعمال کرنے کا اختیار بھی کیوں دیا جائے۔ وہ تو بس وفاکا بے جان پتلا ہے اور شرم و حیا کی دیوی۔ اگر حیا اور وفا سے خالی ہے تو دو ٹکے کی عورت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments