سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا منفی کردار


ہم کس جدید دور میں رہتے ہیں اس بات کا احساس تو مجھے شاید بہت پہلے سے ہی تھا۔ لیکن اس کا مکمل یقین مجھے اس وقت ہوا جب میرے سوشل میڈیا کے فیس بک اکاونٹ پرایک دوست کی ریکویسٹ موصول ہوئی۔ چونکہ ریکوسٹ ایک لڑکی کی تھی اور ہمارے کافی باہمی دوست بھی ظاہر ہورہے تھے اور وہ لڑکی میڈیا سے بھی وابستہ تھی۔ تو میں نے بنا کسی ہچکچاہٹ کے اس کی دوستی کو قبول کرلیا۔ ٹھیک اس کے ایک مہینے بعد ایک دن مجھے اس لڑکی کی جانب سے بذریعہ فیسبک میسنجر ایک پیغام موصول ہوا۔ جس میں اس لڑکی نے مجھ سے ایک اسکول کا نام لکھ کے پوچھا کہ کیا میں کبھی اس اسکول میں پڑھ چکی ہوں۔ کیونکہ میری وہاں ایک فروا نام کی سہیلی تھی جس سے گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد رابطہ میرا رابطہ ممکمن نہ ہو سکا۔

میں نے بھی فیلش بیک میں جا کر دماغ لڑایا تو مجھے یاد آیا کہ ایک بڑی خوبصورت سی لڑکی میری دوست تو تھی مزید گہرائی میں جا سوچا تویقین آگیا۔ کہ ہاں یہ لڑکی وہی ہے جس سے میں چودہ سال پہلے مل چکی ہوں۔ کیا ہی وہ دور تھا کہ جب گھر میں موبائل نام کی ایک ڈیوائز تھی جو صرف والد صاحب کے پاس موجود تھی، اس کے علاوہ گھر میں ایک عدد لینڈ لائن موجود تھا مگر اس تک بچپن میں رسائی ممکن نہیں تھی اور انٹرنیٹ جیسی سہولت کس بلا کا نام ہے اس کا تو دور دور تک علم نہ تھا، شاید یہی وجہ تھی مجھ سے میری سہیلی کے جدا ہونے کی۔

میں اور میری یہ سہیلی ایسے الگ ہوئے کہ پھر بس ایک دوسرے کو خیالوں میں یاد کرنے کے سوا کچھ نہ رہا۔ مگر اب یہ جو ہوا وہ خیال نہیں ایک پیاری حقیقت تھی۔ میری بچپن کی سہیلی سے یوں ملاقات مجھے اس سوچ میں مبتلا کر گئی ہے کہ جدید دور میں ہم کتنا کچھ کرسکتے ہیں۔ کس حد تک آسان ہو چکا ہے کہ ہم کسی بھی دوسرے شخص تک اپنی بات بڑی آسانی سے پہنچا سکتے ہیں۔ بچھڑے، پرانے لوگوں سے رابطہ یقینی بنا سکتے ہیں ان سے ملاقات کر سکتے ہیں۔

ہمارے پیاروں کی زندگی کن مشکلات، غم و خوشی میں گزر بسر ہو رہی ان کی سوشل میڈیا پرعیاں پوسٹس سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ لیکن اسی دوران مجھے ایک مجھے ایک ایسی سوچ نے حیران و پریشان کردیا کہ اب تک جہاں میں سوشل میڈیا کے انگنت فوائد پر خوش ہورہی ہوں تو وہیں اس کے غلط استعمال اور نقصانات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ اور اس کے بعد اب میں تصویر کے دوسرے رخ کو دیکھنے لگی اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات میرے دماغ میں گھومنے لگ گئے۔

مجھے اچانک سے ایک دوست کے منہ سے نکلے ایک سیزن ’یو‘ کا نام یاد آگیا۔ جس میں اسی طرح کی ایک حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ کہ کیسے ایک منفی کردار شخص ایک معصوم سی لڑکی کے بارے میں سب کچھ با آسانی سوشل میڈیا سے معلوم کرلیتا ہے حتٰی کہ اس کے دوست احباب، پسندیدہ کھانا، پہنا وغیرہ وغیرہ۔ ہماری زندگی کا ایک حصہ بھی ایسے ہی ایک سیزن سے مشابہت رکھتا ہے۔ کیونکہ ہم بھی خود سے جڑی ہر چیز کی سماجی رابطوں کی ویب سائٹز پر تشہیرشروع کر دیتے ہیں۔

جس میں اول ہماری بائیوگرافی، پسندیدگی، ناپسندیدگی، نوکری، من پسند کھانا، ملک و شہر، ہمارا دوست احباب کے ساتھ کہیں سیر و تفریح کو جانا، ہمارا انداز گفتگو یہاں تک کہ ہماری سیاسی رائے تک ہم آسانی سے لوگوں سے جڑے اس سوشل میڈیا پر عیاں کردیتے ہیں۔ ۔ اس کے بعد ہماری ”نجی زندگی“ کس حد تک نجی رہ جاتی ہے اس بات کا اندازہ با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ ہماری ایک تصویر کہاں کہاں اپلوڈ اور شیئر ہوتی ہے اس کا ہمیں خود معلوم نہیں چل پاتا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم صرف اپنی رازداری ہی گنوا دیتے ہیں۔

اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ سوشل میڈیا نے ہماری زندگی آسان کردی مگر آج جس دور میں ہم رہتے ہیں یہاں لمحہ با لمحہ خبر بنتی ہے اور ان خبروں میں سے زیادہ تر خبریں سوشل میڈیا سے ہی نکلتی ہین۔ یہاں تک کہ ہمارے حکمرانوں کے ملکی مفادات میں کیے گئے فیصلوں پر قوم کو اعتماد میں لینے کی غرض سے کوئی رائے ہو۔ یا افواج پاکستان کے ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے اور پیغامات بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ہی پوسٹ کیے جاتے ہیں۔

اس طرح بین الاقوامی سطح پرہونے والے معاملات بھی ہمیں اس سماجی رابطے کی ویب سائٹز کے باعث آگاہ رکھتے ہیں۔ اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہر منفی پروپیگینڈا اورغلط خبر بھی سوشل میڈیا سے ہی وائرل کی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں کسی کی کردار کشی کرنا بھی انتہائی آسان ہو چکا ہے جس کی کچھ مثالیں عام ہیں۔ جیسے شفقت چیمہ کے بچوں کا کار حادثہ میں جاں بحق ہوجانے کی جھوٹی خبر، پاکستان کے اسٹار سینیئر کامیڈین امان اللہ کا طویل علالت کے باعث انتقال کر جانا اور کسی کے بھی نام سے کوئی فحش ویڈیو کلپ منسوب کرکے اپلوڈ کردینا اور بغیر کسی تصدیق کے اس کو عام کردینا۔

یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کہ ہم کسی کے پیارے کی موت کی خبر، کسی کی گھر کی عزت کا بنا کسی تصدیق کے تماشا بنا کر رکھ دیں۔ المیہ یہ کہ ہمیں اس کام کو سر انجام دینے کے بعد پکڑ میں آجانے کا خوف بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ بھی موجود ہے۔ جہاں گزشتہ سال مختلف نوعیت کے ایسے 15038 کیسز ریجسٹرڈ ہوئے، جن میں سے 6208 کیسز کو تحقیقات کے بعد خارج کردیا گیا اور 8083 کی اب تک تحقیقات جاری ہیں۔

مختلف کیسز میں 14 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ اور تقریبا ڈھائی ہزار کیسز کو تحقیقات کے بعد نمٹایا بھی جا چکا ہے۔ لیکن اب بھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ ہمارے ہاں سوشل میڈیا کو ریگیولائزکرنے کا ارادہ بھی کیا جا چکا ہے مگر سوال یہ ہے؟ کہ کیا صرف ریگیولائز کرنا ہی کافی ہوگا؟ سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے مگر اس کے ساتھ لوگوں کی تذلیل، ہراسگی کے کیسز، فیک خبروں کا پھیلاؤ بھی دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہاں زندگی کو پریشان کرنے کے لیے اور بھی بہت سی چیزیں ہیں، اس پراگر آپ سوشل میڈیا جیسے پلیٹ فارم کو بھی کسی کی تذلیل کے لئے استعمال کریں تو یہ بحیثیت قوم ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ہم وہ پہلی نسل ہیں جسے جدید نیٹ ورک ٹیکلنالوجی، اور سوشل میڈیا جیسے آزاد پلیٹ فارم بڑی آسانی سے مہیہ ہوئے ہیں مگر معاشرے میں زیادہ تراس شاندار پلیٹ فارم کو منفی کاموں کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

بجائے کہ ہم اس سے کچھ سیکھیں ہم الٹا اس منفی سوچ کے دلدل میں دھستے جا رہے ہیں۔ اس سوچ کو بدلنے اور عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لئے ہمارے قومی ادارے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں خود کو بھی درست سمت کی جانب گامزن کرنا ہوگا۔ کیونکہ ہماری منفی سوچ کے باعث ہم کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ۔ یاد رہے دوسروں پر کیچڑ اچھالنے والوں کے اپنے کپڑے کب صاف رہتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments