ٹریولز آف دین محمد: 18ویں صدی کے ہندوستان میں سونے چاندی کے ڈھیر اور بھوک سے مرتے انسان


وہ 18ویں صدی میں انڈیا میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا زمانہ تھا جب پٹنہ میں پیدا ہونے والے دین محمد 11 برس کی کچی عمر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں بھرتی ہوئے۔

یہاں ان کا کام جنگ لڑنا نہیں تھا بلکہ فوجی کیمپ میں اپنے پیشے کی مناسبت سے مختلف خدمات انجام دینا تھا۔ یہیں انھیں برطانوی راج کی فوج کے میجر بیکر ملے جنھوں نے دین محمد کو اپنی سرپرستی میں لے لیا اور پھر انھیں ہندوستان میں ہر اس جگہ جانے کا موقع ملا جہاں میجر بیکر کی پوسٹنگ ہوئی۔

یہی نہیں بلکہ دین محمد میجر بیکر کے ساتھ ہندوستان سے برطانیہ بھی آ گئے اور ابتدائی طور پر آئرلینڈ میں قیام کیا۔

یہاں لوگ ان سے ہندوستان کے بارے میں سوال کرتے تھے اور اس کا جواب انھوں نے ‘ٹریولز آف دین محمت’ کی صورت میں دیا۔ ‘دین محمد کا سفرنامہ’ (ٹریولز آف دین محمت) 1794 میں آئرلینڈ میں شائع ہوا اور یہ کسی بھی جنوبی ایشیائی کی طرف سے انگریزی زبان میں لکھی جانے والی پہلی کتاب تھی۔

اس کتاب کے ذریعے دین محمد نے اپنے قارئین کو ایک ایسا ہندوستان دکھایا جو ایک جانب تو سونے چاندی سے لدا تھا تو دوسری جانب وہیں لوگ قحط کی وجہ سے جان دینے پر بھی مجبور تھے۔

بی بی سی اردو کے اسد علی آپ کو اس تحریر میں دین محمد کے سفرنامے کے اقتباسات کے ذریعے 18ویں صدی کے اس ہندوستان کی سیر کروا رہے ہیں۔

مرشد آباد کے نواب صاحب

مرشد آباد پہنچنے پر سب سے پہلا منظر جو میری آنکھوں نے دیکھا وہ ہزاروں خادموں پر مشتمل نواب کی سواری تھی جو محل سے مندر جا رہی تھی۔ یہ خوبصورت منظر انتہائی چونکا دینے والا تھا۔

نواب صاحب کا جلوس تین ہزار لوگوں پر مشتمل تھی جو انتہائی متانت کے ساتھ باوقار انداز میں مندر کی طرف بڑھ رہے تھے۔ پہناووں کی خوبصورتی اور شان و شوکت کے اعتبار سے میں نے اس سے پہلے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔

اس جلوس کے بیچ میں نواب کی انتہائی چمکدار پالکی تھی جو سرخ وردی میں ملبوس 16 افراد نے کندھوں پر اٹھا رکھی تھی۔ پالکی کی چھت چاندی کے چار بھاری ستونوں کے سہارے کھڑی تھی

یہ چھت ٹشو کے کپڑے کی تھی جس کے کناروں پر قرمزی رنگ کے کڑھائی دار ویلوٹ کی پٹی تھی اور پٹی کے کناروں پر چاندی کے تاروں کا کام تھا۔

نواب کی پالکی

بازوؤں والی کرسی کی مانند اس پالکی میں سنہرے تاروں کے گلاب کے پھولوں سے سجے قرمزی رنگ کے نفیس تکیوں کے بیچ ٹانگ پر ٹانگ رکھے نواب صاحب براجمان تھے۔

نواب کی پالکی کے دونوں طرف دو خادم چل رہے تھے جو ہاتھوں میں کسی نامعلوم جانور کی دم سے بنے چاندی کے دستوں والے پنکھے لیے مکھیاں اڑانے کے لیے ہوشیار تھے۔

نواب کی اپنی تیاری کی بات کریں تو ان کے سر پر ریشم سے بنی بظاہر چھوٹی سی پگڑی تھی جس میں حقیقت میں 44 گز ریشم استعمال ہوا تھا۔ ریشم کی نفاست کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس کا کل وزن ڈیڑھ پاؤنڈ سے زیادہ نہیں تھا۔ پگڑی پر اسی ریشم کا بینڈ تھا جس سے نواب کی دائیں آنکھ کے اوپر چاندی کا پھندنا جھول رہا تھا۔ پگڑی پر سامنے کی طرف ستارے کی شکل کا انتہائی شفاف ہیرا چمک رہا تھا۔

نواب کا لباس بھی ریشم کا تھا اور اس پر کریم رنگ کے ساٹن کی تہہ تھی اور اس کے پاجامے پر چاندی کے تار اور بٹن جڑے ہوئے تھے۔ اونٹ کے بالوں سے بنی ایک شال لاپرواہی سے ان کے کندھے پر رکھی تھی جبکہ اسی طرح کی ایک شال کمر کے گرد بھی بندھی ہوئی تھی۔

نواب کی کمر پر شال کے نیچے سے ایک خنجر جھانک رہا تھا جو اپنے آپ میں کاریگری کا نمونہ تھا۔ خنجر کا دستہ خالص سونے کا تھا جس پر ہیرے جڑے ہوئے تھے اور صرف یہی نہیں خنجر کے دستے سے سونے کی چھوٹی چھوٹی لڑیاں بھی لٹک رہی تھیں۔ نواب کے جوتے موتیوں سے سجے شوخ سرخ مخمل سے بنے تھے اور ان پر چاندی کا کام بھی کیا گیا تھا۔

پالکی کے دونوں طرف گھوڑوں پر سوار ایک ایک خصوصی معاون تھا۔ ان کے اور نواب صاحب کے بیش قیمت لباس میں بڑا فرق صرف نواب صاحب کی پگڑی میں جڑے ہیرے کا ہی تھا باقی ان کی سجاوٹ ایک جیسی ہی تھی۔

پالکی

نواب کے معاونین کے گھوڑوں کی کاٹھیاں بھی پھندنوں سے سجی تھیں اور کڑھائی کا اعلیٰ نمونہ تھیں۔ نواب کی پالکی کے آگے اور پیچھے پیدل خدمت گزار تھے اور پالکی کے سب سے قریب گھوڑوں پر سوار پہرے دار تھے۔

نواب کی سواری میں شامل لوگوں کی تیاری کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ گمان ہوتا تھا جیسے زمین نے اپنی چھاتی کھول کر ان لوگوں کو سجانے کے لیے خزانے اگل دیے ہوں اور پھر یہاں کے کاریگروں نے اپنی مہارت سے ان خزانوں کو وہ شکلیں دیں جو ان کی شان و شوکت کا باعث بن سکیں۔

نواب کے حقے کی نالی بل کھاتی ہوئی ان کے ہاتھ سے حقے تک جاتی تھی جو اس کے جلوس میں شامل ایک خادم کے ہاتھ میں تھا۔ حقے کے لیے تمباکو میں عرق گلاب اور مشک ملایا جاتا تھا۔ حقہ اور اس کی چلم چاندی کے تھے اور اس کی نالی کے دونوں سروں پر سونا لگا تھا اور جو حصہ نواب کے ہاتھ میں تھا اس پر تو ہیرے بھی جڑے تھے۔ حقے کی نال ریشم، ساٹن اور ململ کی تہوں کے بیچ میں تاریں لگا کر بنائی گئی تھی۔ حقے کے اس حصے پر جہاں پانی بھرا جاتا تھا سونے کا باریک کام کیا گیا تھا۔

نواب کی سواری کے آگے سازندے مقامی دھنیں بجاتے چل رہے تھے اور انھیں میں ایک اونٹ پر رکھا بہت بڑا ڈھول بھی شامل تھا جس کی گونج دور دور تک سنائی دیتی تھی۔ سواری کے سب سے آگے ہرکارہ تھا جو نواب کی آمد کے بارے میں سب کو ہوشیار کر رہا تھا جس سے آگے بڑھنے کے لیے راستہ صاف ہوتا جاتا تھا۔

اس نظارے کو دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آئے تھے۔ میں نواب کے مندر میں داخل ہونے تک وہاں رکا اور دیکھا کے سب نے اندر جانے سے پہلے جوتے اتارے تھے۔ یہ منظر دیکھنے کے بعد میں نے کچھ دیر اور مرشد آباد میں رکنے کا فیصلہ کیا۔

ختنوں کی رسم

مرشد آباد میں نواب کا جلوس دیکھنے کے بعد دین محمد کو ایک عام شہری کے ہاں منعقد ہونے والی تقریب میں شرکت کا بھی موقع ملا تھا۔

اس موقع کا منظر وہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔ ’نواب کی سواری دیکھنے کے کچھ ہی دیر بعد میری اپنے ایک رشتہ دار سے ملاقات ہوئی جس نے مجھے اپنے بیٹے کے ختنوں کی رسم میں شرکت کی دعوت دی۔

نواب

ختنے کی رسم کے لیے بچے کی عمر سات سال ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے تاکہ اس رسم سے پہلے بچے کو اپنے مذہب کے بنیادی عقائد کے بارے میں کچھ آگاہی بھی ہو جائے۔

ختنے کی رسم کے لیے لوگ پہلے سے بچت شروع کر دیتے ہیں تاکہ وہ اس کو زیادہ سے زیادہ دھوم دھام سے پورا کر سکیں۔ ختنے کی رسم کا وقت آنے پر لڑکے کے خاندان کی طرف سے حجام شہر میں تمام مسلمان گھروں میں دعوت لینے کے لیے جائفل لے کر جاتے ہیں۔ جائفل لے جانا ایسے ہی ہے جیسے آئرلینڈ میں کسی کے گھر میں کارڈ بھیجنا۔

صاحب حیثیت مسلمان اس تقریب میں شریک ہو کر اس کی شان بڑھاتے ہیں۔ زبردست لباس پہنے ان امیر زادوں کی آمد خوبصورتی سے سجے گھوڑوں پر ہوتی ہے اور اونٹ بھی ان کے قافلوں میں شامل ہوتے ہیں۔

ختنوں کے دن بڑے سے میدان میں شامیانے لگائے جاتے ہیں جن میں کم سے کم دو ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے اور اس میں صرف مسلمان شریک ہو سکتے ہیں۔ مولوی کی آمد کا اعلان بینڈ باجے سے کیا جاتا ہے۔ مولوی بچے کے ساتھ شامیانے میں قائم کی گئی ریشم کی ایک خوبصورت چھتری کے نیچے اپنی جگہ سنبھالتا ہے۔

’بچے کا لباس قرمزی ململ کا تھا اور اس نے زیورات بھی پہنے ہوئے تھے وہ کرسی پر مخمل کے تکیوں میں بیٹھا وقت گزرنے کا انتظار کرتا ہے۔ ختنوں سے پہلے بچے کو ایک گھوڑے پر بٹھا کر مختلف درباروں کے چکر لگوائے جاتے ہیں۔ اسے اس کے چار تلوار بردار رشتہ دار اٹھا کر گھوڑی پر بٹھاتے ہیں۔ بچے اور اس کے ان رشتہ داروں کا لباس ایک سا ہوتا ہے۔

بچے کو جب کسی دربار پر لے جایا جاتا ہے وہ وہاں پر سجدہ کرتا ہے اور ماں باپ کی طرف سے یاد کروائی گئی دعائیں پڑھتا ہے کہ ختنے کا عمل بغیر کسی نقصان کے تکمیل پا جائے۔ اس دعائیہ دورے سے فارغ ہو کر بچے کو واپس شامیانے کے نیچے لایا جاتا ہے۔

ختنے کی رسم

اس سارے عمل میں بینڈ باجے والے ساتھ ساتھ تھے لیکن وہ مولوی کے دوبارہ شامیانے میں داخل ہونے پر خاموش ہو گئے۔ مولوی کے ہاتھ میں پانی سے بھرا ایک برتن تھا۔ اس نے دم پڑھ کر بچے پر پانی چھڑکا اور اسی دوران حجام نے تیزی سے بچے کے ختنے کر دیے۔ اسی وقت پورا مجمع ایک ٹانگ پر کھڑا ہو گیا اور سب نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر بچے کی صحت کے لیے دعا کی۔ ایک بار پھر موسیقی کا شور ماحول پر چھا گیا جس میں خوشی کے ساز بجائے گئے۔ بچے کو گھر لے جا کر لٹا دیا گیا اور محفل کا دھیان کھانے کی طرف ہو گیا۔

حجاموں نے حاضرین کے پانی سے ہاتھ دھلوائے اور انھیں تولیے پیش کیے۔ اس کے بعد وہ جوتے اتار کر وہاں بچھے ہوئے خوبصورت قالین پر بیٹھ گئے جہاں ان کی اس علاقے کے ایک پسندیدہ پکوان، گوشت والے پلاؤ سے خاطر کی گئی۔ ہر طرف مشعلیں روشن تھیں جن کی روشنی میں مہمانوں کا قیمتی لباس اور ہر چیز اور بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp