آزادی مارچ اور عورت کے آقا و مالک


ملک بھر میں آزادی مارچ کا غلغلہ ہے۔ لاہور میں مارچ کی تیاریاں دھوم دھام سے جاری ہیں۔ آزادی مارچ کی سرخیل اور نمائندہ خواتین دامے، درمے، سخنے، قدمے مارچ کو کامیاب کرنے کے لیے سر گرداں ہیں۔ ٹی وی چینلوں، اخبارات اور سوشل میڈیا پر گرما گرم گرم اور چٹپٹی بحثیں، مذاکرے، مناظرے بلکہ مجادلے زور و شور سے جاری ہیں۔ ایک طرف عورت کو جنس سمجھ کر اس پر ملکیت کا دعوٰی کرنے والے سخت گیر، مذہبی اور قبائلی ذہنیت رکھنے والے مرد حضرات مارچ کو فحاشی عریانی، بے شرمی اور مادر پدر آزادی کا گھناٶنا و مکروہ کھیل اور مغربی استعمار کی سازش قرار دے کر اسے بزور روکنے کا عزم صمیم کر رہے ہیں اور مارچ کے ولولہ انگیز نعرے ”میرا جسم میری مرضی“ کو خلاف شرع قرار دے کر میدان عمل میں کود پڑے ہیں۔ دوسری طرف مارچ کے منتظمین اور جوشیلی عورتیں پچھلے سال سے بھی زیادہ کرو فر، جوش و خروش اور بھرپور انداز سے مارچ کر کے مردوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم و جبر کے سلسلے کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ با الفاظ دیگر دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔

تازہ ترین لفظی معرکہ آرائی اور زبانی گولہ باری خلیل لرحمٰن قمر اور ماروی سرمد کے درمیان ہوئی۔ ماروی سرمد کا نقطہٕ نظر ہمیشہ سے بڑا بولڈ، دو ٹوک اور سخت ہوتا ہے مگر کبھی انہوں نے اپنی زبان کو گالم گلوچ اور بد تہذیبی سے آلودہ نہیں کیا۔ جبکہ قمر صاحب کو میں نے دوسری بار سنا۔ پہلی بار وہ مجھے خاصے مہذب اور شائستہ لگے تھے مگر اس بار تو انہوں نے تہذیب و شائستگی کی تمام حدیں عبور کر ڈالیں۔ کچھ بھی کہہ لیں کوئی مہذب آدمی ان کی بے لاگ گالیوں اور سب و شتم کو سند جواز پیش نہیں کر سکتا۔ لیکن جو لوگ علامہ خادم رضوی کی ”حلال“ گالیوں کا دھڑلے سے دفاع کر تے رہے ہیں، ان کے آگے کوئی دلیل نہیں چل سکتی۔

عورت مارچ کے مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض ”میرا جسم میری مرضی“ نعرے پر ہے۔ مگر افسوس کہ نادانوں نے اس نعرے کو اپنے روایتی تعصب اور تنگ نظری کی وجہ سے پوری معنویت کے ساتھ نہیں سمجھا۔ ہمارے نوے فیصد سے زائد عورتیں اپنے جسم کو اپنی مرضی سے استعمال نہیں کر سکتیں۔ تاروں کی چھاٶں میں بیدار ہونے والی عورت کھیت، کھلیان، دکان، بھٹے، کارخانے، فیکٹری میں دن بھر کولہوں کے بیل کی طرح کام میں جتی رہتی ہے۔ رات کو گھر جا کر نکمے اور بعض دفعہ نشئی خاوند اس کے والدین، اپنے بچوں اور گھر بھر کے لیے اپنے جسم کا انگ انگ استعمال کر کے ان کے پیٹ کی آگ بجھا نے کے جتن کرتی ہے۔

ہر ایک کی پسند کا خیال رکھتی ہے۔ ساس سسر کی جھڑکیاں سہتی ہے۔ دسترخوان سمیٹتے، برتن مانجھتے، بستر لگاتے اور اگلی صبح کے لیے کپڑے وغیرہ تیار کرتے گیارہ بارہ بج جاتے ہیں۔ ان امور کو نمٹا تے نمٹاتے وہ تھک کر چور ہو جاتی ہے مگر اس کے باوجود جسمانی و جذباتی کیفیت جو بھی ہو حقوق زوجیت ادا کرنا تو اس کے لیے فرض عین کا درجہ رکھتا ہے ورنہ مجازی خدا کے حکم کی سرتابی یا عذر خواہی کے نتیجے میں دوزخ کی آگ میں جلتے رہنے کی وعید کی تلوار سر پر لٹکتی رہتی ہے۔

شومیٕ قسمت اگر مجازی خدا ان مولانا صاحب کی طرح جنسی جنون کی کیفیت میں مبتلا ہوں جو عورت کے بد صورت ہونے کی صورت میں شغل مے نوشی بلکہ بلا نوشی کو از روئے شریعت جائز قرار دیتے ہوں تو پھر بیچاری حرماں بخت خاتون خانہ کے پاس آرام کے لیے دو تین گھنٹے بھی نہیں بچتے۔ ایسے میں اگر وہ میرا جسم میری مرضی کا مطالبہ کرتی ہے تو حاملین جبہ و دستار چیں بہ جبیں کیوں ہوتے ہیں؟ کیا ان کے نزدیک اس نعرے کا بس ایک وہی مطلب ہے جس کا تعین وہ کر کے بیٹھے ہیں؟

ان حالات میں جب عورت مردوں کے غلبے بلکہ ملکیت والے سماج میں اپنے غصب شدہ حقوق کی بازیابی کا مطالبہ کرتی ہیں تو ہمارے مذہبی شدت پسند اور قبائلی سوچ کے مالک مرد حضرات اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عورت کو دیے جانے والے حقوق کی مفصل فہرست پیش کر دیتے ہیں۔ جیسے اس سماج نے انہیں تمام اسلامی حقوق عطا کر رکھے ہیں؟

حضور! ہم تو اس سماج کی سفاکی کی بات کر رہے ہیں جو ایک طرف تو عورت کے آزادی مارچ کو آوارگی مارچ کا طعنہ دیتے ہیں اور دوسری طرف اسی سماج کے آوارہ و اوباش عناصر چادر اور چار دیواری کا تقدس پائے مال کر تے ہوئے چودہ سال کی معصوم بچی کو ماں بنا دیتے ہیں۔ اور جب عورت ایسے مظالم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے تو اسے فاحشہ، داشتہ، طوائف اور پتہ نہیں کن کن ناموں سے یاد کرتے ہیں۔

ہمارے ثنا خوان تقدیس مشرق سوال داغتے ہیں کہ کیا کوئی غیرت مند اپنے گھر کی عورتوں کو اس طرح کے آزادی مارچ میں بھیج سکتے ہیں؟ طرز استفسار ملاحظہ فرمائیے۔ جیسے عورت کو اللہ نے فطری طور پر آزاد پیدا کرنے کے بجائے ایسے شقی القلب مردوں کی ملکیت میں دے رکھا ہو!

کاش مذہب کے نام پر عورتوں کے حقوق غصب کرنے والے یہ موالی عورت کو محض سیکس سمبل کے طور پر دیکھنے کے بجائے اسے انسان کی شکل میں دیکھیں تو اس کے گوناگوں مسائل کو کسی حد تک سمجھ سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments