ماروی سرمد بمقابلہ خلیل الرحمان قمر


ایک ٹی وی چینل پر ماروی سرمد اور خلیل الرحمان قمر کی جھڑپ اس وقت شدت اختیار کر گئی جب خلیل الرحمان قمر نے جذبات کی شدت میں ماروی سرمد پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ یہ گفتگو عورت مارچ کے ایک نعرے ”میرا جسم میری مرضی“ کے حوالے سے ہو رہی تھی۔ خلیل الرحمان قمر نے خاموشی سے ماروی سرمد کی گفتگو سنی پھر درخواست کی کہ میری بات کے بیچ میں بولا نہ جائے۔ انہوں نے آغاز اس بات سے کیا کہ ”میرا جسم میری مرضی“ نہایت غلیظ نعرہ ہے۔ کروڑوں ناظرین ان کی پر مغز گفتگو سے فیض یاب ہونے کے متمنی تھے مگر افسوس کہ ابھی خلیل الرحمان قمر نے چند جملے ہی ادا کیے تھے کہ اچانک ماروی سرمد نے اپنا نعرہ ”میرا جسم میری مرضی“ دہرانا شروع کر دیا۔ اس کے بعد خلیل الرحمان قمر نے وہ جملے ادا کیے جنہیں ضبط تحریر میں لانا مناسب نہیں۔

بعد ازاں جب ایک دوسرے ٹی وی پروگرام کے اینکر پرسن نے خلیل الرحمان قمر سے سوال کیا کہ آپ نے ماروی سرمد کو گالیاں کیوں دیں تو انہوں نے سچ سچ بتا دیا کہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جب میں بات کروں تو کوئی نہ بولے تاکہ پتا چلے کہ تین پڑھے لکھے لوگ گفتگو کر رہے ہیں۔ ماروی سرمد نے ان کی گفتگو کے درمیان نعرہ بلند کیا جو گفتگو کے آداب کے یکسر خلاف تھا۔ چناں چہ خلیل الرحمان قمر کو نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو یہ سکھانا پڑا کہ گفتگو کے آداب کیا ہوتے ہیں۔ ظاہرہے اس طرح کسی پڑھے لکھے آدمی کی بات کے درمیان کوئی گھٹیا نعرہ لگایا جائے تو وہ کیسے برداشت کر سکتا ہے۔

خلیل الرحمان قمر نے یہی کہا کہ بھلا یہ بات کیسے برداشت کی جا سکتی تھی۔ اینکر پرسن جو کہ ماروی سرمد کا حامی معلوم پڑتا تھا، اس نے خلیل الرحمان قمر کو غصہ دلانے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اسے بھی نہیں چھوڑیں گے لیکن قمر صاحب نے محض چند سخت جملوں اور تند لہجے پر ہی اکتفا کیا۔

تعلیم و تربیت کے انسان پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اس میں اختلاف رائے کو تحمل سے برداشت کرنا ایک نمایاں وصف ہے۔ ماروی سرمد نے خلیل الرحمان قمر کو موقع نہیں دیا کہ وہ کھل کر اپنا موقف بیان کرتے۔ ان کی درخواست کو حکم سمجھ کر اگر وہ مان لیتیں تو اتنا ہنگامہ نہ ہوتا۔ اب ایک مکتبہ فکر ماروی سرمد کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوا ہے اور دوسرا خلیل الرحمان قمر کو اپنا ہیرو سمجھ رہا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں خیلیل الرحمان قمر کو بہت اپنے غصے پر قابو پانے کی سعی ضرور کرنی چاہیے۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ ”کوئی مجھے ایک گالی دے تو میں سو دوں گا۔ شکر کریں کہ ماروی سرمد فون لائن پر تھی سامنے ہوتی تو آپ دیکھتے کہ میں کیا کرتا۔ “

ہمیں ان سے ہمدردی ہے۔ اس طرح غصے میں آ کر بعض تند مزاج لوگ دنگا فساد بلکہ قتل تک کر دیتے ہیں۔ بعد میں جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ نے قتل کیوں کیا تو وہ بتاتے ہیں کہ مقتول نے انہیں اشتعال دلایا تھا۔ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیں۔ بہر حال خلیل الرحمان قمر پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ وہ اس حد تو نہیں جا سکتے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ وہ مکھی تک نہیں مار سکتے ہاں گالیوں کی بات دوسری ہے۔ اس بارے میں بھی انہوں نے فرمایا ہے کہ ماروی سرمد گالیوں کی مستحق تھی۔ ظاہر ہے وہ ٹیلی وژن کو بائیس ہٹ ڈرامے دے چکے ہیں اور پڑھے لکھے بھی ہیں تو وہ بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون گالیوں کا مستحق ہے۔

گالیاں دینا یوں بھی ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ ہے لہٰذا اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اصل میں سارے فساد کی جڑ ’مارچ‘ ہے۔ جب بھی مارچ آتا ہے تو دو تین ہزار عورتیں مارچ کرنے نکل کھڑی ہوتی ہیں اور خواہ مخواہ بائیس کروڑ افراد کے ناک میں دم کر دیتی ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں اس مارچ کا تذکرہ ہوتا ہے۔ قریباً بیس سال پہلے جب اس مارچ کا آغاز ہوا تو کسی کو پتا بھی نہیں چلتا تھا۔ پھر نوجوان لڑکیوں نے پتا نہیں کہاں سے ایسے ’گھٹیا‘ نعرے ایجاد کر لیے کہ خواہ مخواہ دھیان ان کی طرف جاتا ہے۔

یقیناً یہ بھی کوئی بیرونی سازش ہے۔ کیوں کہ ہمارے ہاں تو معصوم عورتیں پائی جاتی ہیں جو چادر اور چاردیواری کے تقدس کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے گول روٹیاں پکانے میں مہارت رکھتی ہیں۔ گھر میں ہلکے پھلکے تشدد کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتی ہیں۔ بے جوڑ رشتوں کو خوشی سے قبول کر لیتی ہیں۔ کوئی ان کے چہرے پر تیزاب گرا دے تواف تک نہیں کرتیں تا کہ ہمارا معاشرہ بدنام نہ ہو۔ چار سال کی بچی ہو یا ادھیڑ عمر کی عورت ریپ کے بعد مار دی جائے تو خاموشی سے مر جاتی ہے۔ بلکہ اگر کسی عورت کو قبر سے نکال کر زیادتی کا نشانہ بنایا جائے تو بھی آواز بلند نہیں کرتی۔

اس لیے یہ جو مارچ کرنے والی اور نعرے لگانے والی عورتیں ہمارے معاشرے کی روایات کو بدلنے کی کوشش میں ہیں، یہ ضرور کسی دشمن کے بہکاوے میں آ کرایسی حرکات کر رہی ہیں۔ چناں چہ خلیل الرحمان قمر نے ٹی وی چینل کے پروگرام میں ماروی سرمد کو گالیاں نہیں دیں، عورت مارچ کی سازش کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔ اس پر ستائش کے چند جملے تو بنتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments