میرا جسم میری مرضی


یہ مارچ ہی کا مہینا تھا۔ صبح کا وقت تھا۔ میں نماز کے بعد تلاوت قرآن مجید میں مشغول تھا۔ صبح کے وقت سکون اور اطمینان قلبی کی جو دولت حاصل ہوتی ہے اسے پریکٹیکل طور ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ جب سے رابن شرما نے The 5 AM Clubلکھی ہے تب سے لوگ سحر خیزی کی افادیت سے آگاہ ہوئے ہیں اگرچہ اسلام نے تو صدیوں پہلے نہ صرف اس کی طرف رہنمائی کی بلکہ تہجد اور نماز فجر کی صورت میں اس سے فوائد اٹھانے کے عملی اقدامات بھی کیے۔

اچانک ایمبولینس کے مہیب سائرن نے سکوت کی تنی چادر کو تار تار کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی کچھ عورتوں کے جگرپاش بینوں سے فضا مزید غمناک ہو گئی۔ ہمارے گھر سے تیسرا گھر حبیب الرحمان صاحب (فرضی نام) کا تھا۔ ان کے جوان بیٹے نے خود کشی کر لی تھی۔ پچیس سال کا کڑیل جوان، تین بہنوں کا اکلوتا بھائی اور بوڑھے ماں باپ کا سہارا، ہر کسی کے آنکھوں میں آنسوؤں کی مالاتھی۔ پوسٹمارٹم رپورٹ کے مطابق اس نے چوہے مار گولیاں بڑی مقدار میں کھا لی تھیں۔

بعد میں پولیس نے اس دکاندار کو بھی گرفتار کر لیا جس نے وہ گولیاں بیچی تھیں۔ اس طرح کے متعدد واقعات ملک پاکستان میں ہو ئے اور آخر کار اس بات پر پابندی لگائی گئی کہ کسی کوبھی ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر اس طرح کی ادویات فروخت نہ کی جائیں جن سے جان جانے یا کوئی جرم سرزد ہونے کا خدشہ ہو۔ دکاندار نے بتایا کہ لڑکا اس کے پاس آیا تھا اور کہا تھا کہ گھر میں چوہوں نے ناک میں دم کررکھا ہے۔ اس نے پیسے دیے اور میں نے اسے گولیاں دیں، مجھے کیا پتا تھا کہ وہ ان گولیوں سے اپنی جان لے لے گا۔

مارچ کا مہینا آتے ہی فضا میں ایک بار پھر ”میرا جسم میری مرضی“ کی صدائیں بلند ہوئیں تو مجھے یہ واقعہ یاد آیا اور میں سوچنے لگا کہ وہ دکاندار شاید ان پڑھ تھا یا پھر کوئی مولوی تھا ورنہ جب پولیس اسے گرفتار کرنے آئی تھی تو وہ کہتا ”میری گولیاں میری مرضی“۔ لوگ آج بھی جب کہتے ہیں کہ فلاں حرام موت مرا تھاتو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ مرنے والا ایک بار دنیا میں آکر ان جاہل محلے والوں سے یہ سوال کرے کہ تم کون ہوتے ہو میری موت کو حرام کہنے والے؟ میرا جسم میری مرضی، چاہوں تو چوہے مار گولیوں سے خود کو ماروں اور چاہوں تو گن کی گولیوں سے، جسم میرا اپنا تھا، میں نے اپنی مرضی سے اسے ختم کیا، آپ لوگ مامے لگتے ہیں جو تبصرے کررہے ہیں؟

تمام حامی دانشوروں سے میرا یہ سوال ہے کہ ”اگر میرا جسم میری مرضی“ والا نعرہ ٹھیک ہے تو پھر دنیا کے بہت سے ممالک میں خود کشی جرم کیوں ہے؟ اس نعرے کی رو سے تو خود کشی کرنا یا اس کی اعانت کرنا جرم نہیں ہونا چاہیے کیونکہ خود کشی کرنے والے کے پاس بھی تو یہ جواز موجود ہے کہ میرا جسم میری مرضی، تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے؟ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے کہ اگر کوئی ننگا ہوکر سڑک پر آنا چاہے یا کسی سے ناجائزازدواجی تعلقات رکھنا چاہے تو میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگا کر اسے تحفظ فراہم کیا جائے لیکن اگر کوئی اسی نعرے کو بنیاد بنا کر خود کشی کرنا چاہے تو اسے جرم قراردیا جائے؟ یہ نعرہ لگانے والوں سے میری التجا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں جائیں، وہاں بھی ایک عدد مارچ کا اہتمام کریں اور میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگا کر خود کشی کو شہادت کی موت ڈکلیئر کرانے کی کوشش کریں۔

اس نعرے سے مقصود عورت کی آزادی نہیں ورنہ دنیا خود کشی کو جرم نہ سمجھتی۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (WHO) کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک انسان خودکشی کرکے اپنی جان لیتا ہے (ناکام کوششیں اس کے علاوہ ہیں ) ۔ ادارے کی کوشش ہے کہ خودکشی کے واقعات میں 2020 ء تک 10 فی صد کمی لائی جائے۔ WHO نے دنیا بھر میں دس سالوں میں ہونے والی خودکشیوں پر تحقیق کی اوریہ ڈیٹا حاصل کیاکہ سالانہ آٹھ لاکھ افراد خودکشی کرکے اپنی جان لیتے ہیں اوریہ 15 سے 29 سال کے جوانوں میں اموات کی دوسری بڑی وجہ ہے۔

70 سے زائد عمر کے افراد کا اپنی جان لینے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق آتشی اسلحے اور زہریلے کیمیائی مواد تک رسائی کو کم کرنے اور قومی سطح پر حکمتِ عملی ترتیب دینے سے خودکشی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی سربراہ ڈاکٹر مارگریٹ کے مطابق اس تحقیق کا مقصد یہ تھا کہ تمام ممالک خود کشی سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائیں۔ رپورٹ میں ممالک سے کہا گیا ہے کہ ان لوگوں کی مدد کے لیے اقدامات کریں جنھوں نے ماضی میں خودکشی کی کوشش کی کیونکہ ان کا خودکشی کرنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے سکولوں کی سطح پر مزید تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ WHO سوسائیڈ کرنے والوں کو ”میرا جسم میری مرضی“ کے بنیادی حق سے محروم کیوں کرنا چاہتا ہے؟ سماجی ماہرین اس کی روک تھا م کے لیے سکولوں کی سطح پر شعور کیوں اجاگر کرنا چاہتے ہیں؟ خود کشی کرنے والوں کا اپنا جسم ہے انہیں مرضی کرنے دیں۔ میرا جسم میری مرضی جیسے نعرہ لگانے والی این جی اوز جن ممالک کے وظیفوں پر پلتی ہیں وہاں عوامی مفاد کا اس قدر خیال رکھا جاتا ہے کہ WHO نے اپنی رپورٹ میں ہالی وڈ کے اداکار روبن ویلیمز کی موت کی تفصیلات رپورٹ کرنے پرمیڈیاکو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ہر سیلبرٹی کے چاہنے والے ہوتے ہیں جو عادات و افعال میں اسے فالو کرتے ہیں۔ میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ خودکشی کو اس طرح میڈیا پر پیش کرنے سے یہ خدشہ تھا کہ کہیں خودکشی کا رجحان اس اداکار کے فالورز میں سرایت نہ کر جائے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جو بات اپنے ہاں روک دی جائے اسے میرے ملک میں پروموٹ کیا جائے؟ برطانیا میں خودکشی کے خلاف مہم چلانے والے جانی بینجامن ہیڈن (Benjamin Haydon) ایک نامور شخصیت ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خودکشی کے بارے مزید آگاہی اور اسکولوں کی سطح پر تعلیم ہونی چاہیے کیونکہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ جوان لوگوں کا اپنی جان لینے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ موم بتی مافیا کو چاہیے کہ برطانیہ جائیں اور بینجامن کو بھی ”میرا جسم میری مرضی“ کی حکمت سمجھائیں۔

میں خود کشی کا حامی نہیں ہوں۔ میرے مذہب نے اسے حرام کہا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ لوگوں کو خودکشی کی اجازت ہونی چاہیے بلکہ میں صرف ”میراجسم میری مرضی“ کے سفیروں کوانہی کی زبان میں جواب دے کر ان کے دعوے کا بطلان کر کے ان کی منافقت کا پردہ چاک کر رہاہوں۔ ”میرا جسم میری مرضی“ سے تمہاری کیا مراد ہے؟ اگر مراد مرضی کی شادی ہے تو عورت کو یہ حق سب سے پہلے اسلام نے ہی دیا ہے۔ اگر مراد ان کے حقوق ہیں تو عورت کو زندہ درگوری کے منزل سے نکال کر ماں، بہن اور بیٹی کی حسین مسند پرسب سے پہلے اسلام نے ہی بٹھایا ہے۔

اگر اس سے تمہاری مراد ازدواجی تعلقات ہیں تو بھی اسلام نے شروع سے طے کر دیا ہے کہ مرد اپنی بیوی کو زبردستی مجبورنہیں کر سکتا۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو یہ ناجائز اور تشدد کے زمرے میں آئے گا۔ اگر اس سے تمہارے مراد گھریلو کام کاج ہیں تو بھی اسلام نے یہ طے کردیا ہے کہ گھر کا کام کاج عورت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ پھر آخر کون سا حق ہے جو اسلام نے عورت کو نہیں دیا اور آج کا موم بتی مافیا اس نعرے کی آڑ لے کر کیوں اسلام کو بدنام کررہا ہے؟

ادارہ ہم سب اس مضمون کی سوچ سے اختلاف کرتے ہوئے اسے آزادی اظہار کے حق کے تحت شائع کر رہا ہے۔ مدیر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments