میرا جسم ہی میری زندگی ہے


آٹھ مارچ پھر آگیا، پھر عورتیں باہر نکلیں گی، ان کے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈ ہوں گے جن پر نعرے لکھے ہوں گے۔ پچھلے سال لکھے نعروں کی گونج تھمی نہیں ایک بار پھر نئے نعرے دیکھنے کو ملیں گے۔ نئے ترانے اور گیت ہوں گے۔ ان عورتوں کی تعداد ہر سال پچھلے سال سے بڑھ جاتی ہے جو سماج میں برابری کا مطالبہ کرتی ہیں اور اپنے لئے مساوی حقوق کا تقاضا کرتی ہیں۔

سارا سال خواتین کو سمجھایا جاتا ہے کہ مشرقی روایات کیا ہیں اور مذہبی تقاضے کیا ہیں۔ ٹیلی ویژن، اخبارات، رسائل، سکول، مدارس، کالجوں اور جامعات میں تلقین جاری رہتی ہے کہ خواتین کو کیسے رہنا ہے، کیسے جینا ہے، کیسے مرنا ہے مگر کیا کمال ہے آٹھ مارچ کو ایک نعرہ بس ایک ایک ہی نعرہ سال بھر کی تلقین کو ذہنوں سے محو کرکے نقش ہوجاتا ہے۔

سارا سال یہ بتایا جاتا ہے کہ مغرب میں عورت کیسے بے وقعت ہوئی ہے اور ہم نے کیسے عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کا درجہ دے کر عزت دی ہے۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ عورت کا کام گھر کی چار دیواری کے اندر ہے باہر نہیں۔ عورت کا کام اپنے مرد کی جنسی تسکین، بچے پیدا کرنا اور اہل خانہ کی خدمت ہے۔ عورت کا حق دو وقت کی روٹی، تن پر کپڑا اور قبر کی جگہ ہے جو اس کو مذہب نے دے رکھا ہے اور ریاست انکاری نہیں۔ وراثت اور جائیداد میں حصہ، خود کمانے اور سماج میں برابری کا حق مغربی ایجنڈا ہے جو ہماری مذہبی اور مشرقی اقدار کی نفی ہے۔

پاکستان میں خواتین کے برابری کے حقوق کی جدوجہد بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی ملک کی اپنی تاریخ۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح نے صدارتی انتخابات میں وقت کے آمر کا مقابلہ کیا تو ان کو بطور عورت صدارت کے لئے نا اہل قرار دینے کی مذہبی بنیاد پر ہی کوشش نہیں ہوئی بلکہ ان کو غدار وطن قرار دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ کردار کشی ہوئی اور مبینہ طور پر قتل کی گئی۔

1973 ء کے متفقہ آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد ان کی بیگم اور بیٹی نے اپنی پارٹی کی قیادت اور عوام کی راہنمائی کی تو ان کو قید و بند کی صعوبتوں کے علاوہ کردار کشی اور ان گنت الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی اپنی جان دے کر یہ ثابت کرنا پڑا کہ ایک عورت کسی مرد سے کم نہیں ہوتی وہ اپنے وطن کی دفاع اور لوگوں کے حق کے لئے کسی جنرل، جج یا قاضی سے بڑھ کر قربانی دے سکتی ہے۔

ملک میں انسانی حقوق اور جمہوریت کی جدوجہد کی تاریخ محترمہ عاصمہ جہانگیر کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے جس نے ہر آمر کو للکارا۔ جب بھی ملک میں انسانی حقوق کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں وہ بلا خوف و خطر عبور کر گئی۔ یہ ان کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ آج ملک میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کا ایک کارواں رواں دواں ہے۔

آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے پاکستان کے لوگ بالخصوص خواتین ہر سال باہر نکلتی ہیں، اپنے معاشی، معاشرتی، قانونی اور آئینی حقوق کے لئے جلسے کرتی ہیں، جلوس نکالتی ہیں اور نعرے لگاتی ہیں۔ مگر آج تک کوئی سال ایسا نہیں گزرا جب خواتین کے جلسے، جلوس اور نعروں پر رجعت پسندوں اور استحصالی طبقات کے گماشتوں کی طرف سے اعتراضات نہ اٹھائے گئے ہوں۔

آٹھ مارچ کو خواتین مارچ میں حصہ لینے والے مگر یہ ضرور جانتے ہیں کہ اعتراض اٹھانے والوں کو تو خواتین کا باہر نکلنا بھی گوارا نہیں، ان کے تعلیم حاصل کرنے پر بھی اعتراض ہے۔ وراثت پر حق مانگنے پر بھی خواتین کا قتل ہوتا ہے۔ وہ ان کا پرواہ نہیں کرتے ہیں اور ہر سال پچھلے سال سے زیادہ لوگ شریک ہوتے ہیں زیادہ زور و شور سے اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند کی جاتی ہے اور زیادہ بہادری سے خواتین اپنی راہ میں حائل رکاؤٹوں کا مقابلہ کرتی ہیں۔

سارا سال ملک بھر میں خواتین پر ہونے والے جبر اور استبداد پر چپ رہنے والوں کو صرف عورت مارچ کے دن ہی خواتین کے مطالبات پر اعتراض ہوتا ہے۔ جرگہ، کارو کاری، سوارا اور ونی جیسی رسوم کے نام پر خواتین کے جسم نوچنے، پامال کرنے اور روند ڈالنے پر خاموش رہنے والوں کو صرف اس جبر سے آزادی کے مطالبے پر ہی اعتراض ہے۔ جسم پر اختیار کے مطالبے پر اعتراض کرنے والوں کو روزانہ دسیوں معصوم بچوں کے جسموں کے ساتھ ہونے والا جنسی تشدد نظر ں ہیں آتا۔ لاکھوں معصوم نابالغ لڑکیوں کی خلاف قانون ہونے والی کم عمری کی شادیاں بھی نہیں دیکھ پاتے اور نہ ہی ہزاروں کم عمر ماؤں کے بچے پیدا کرنے کے عمل میں مرجانے کی پرواہ ہے۔

گزشتہ سال جو کچھ بلوچستان یونیورسٹی میں ہوتا رہا اس پر کسی کو اعتراض ہو یا نہ ہو مگر اسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل جلیلہ حیدر کا امریکہ سے ایوارڈ لینا ان کو قبول نہیں۔ گومل یونیورسٹی میں ان گنت لڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے والے باریش معلم کو اپنے پہلو میں بٹھانے والاسیاسی ملا بھی اپنے جسم پر ملکیت کا حق مانگنے کو مذہبی اور تہذیبی شعار کے خلاف سمجھتا ہے۔ اپنے شاگردوں کو جنسی اذیت دینے والے استاد کے حمایتیوں کو بھی خواتین کا اپنے جسم پر اختیار کا حق لینا خلاف شریعت نظر آتا ہے۔ طالبان کے ہاتھوں اٹھائی نابالغ بچیوں کی چیخ و پکار پر چپ سادھنے والوں کو ملالہ کی جرات اور بہادری پر بھی اعتراض ہے۔ پورے ملک میں جا بجا قبر سے بد تر زندگی گزارنے والی تیزاب سے جلی خواتین کو نہ دیکھ سکنے والوں کو شرمین عبید چنائے پر بھی اعتراض ہے کہ اس نے دکھانے کی جرات کی۔

اعتراض دلیل کے ساتھ ہو تو سو بسم اللہ مگر یہاں مذہب کے پردے میں چھپنے والوں کو بے نقاب کیا جاتا ہے تو روایات کی چادر اوڑھ لیتے ہیں اور جب لاجواب ہوتے ہیں تو دھونس پر اتر آتے ہیں۔ کبھی پوسٹر پھاڑتے ہیں تو کبھی نقابوں میں چہرے چھپاکر پینٹنگز پر کالک ملتے ہیں۔ رواج، دستور، مذہب، قانون اور آئین میں جب کوئی دلیل نہ ڈھونڈ سکے تو اب کہتے ہیں نعرہ بدل لو لفظ جسم کو زندگی سے بد ل لو۔

اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں مگر ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ میرا جسم ہی میری زندگی ہے کیونکہ میرے جسم میں صرف آپ کو نظر آنے والے چند مخصوص اعضاء کے علاوہ میری روح، میرا ضمیر میری سوچ بھی ہے جس پر آپ کو اختیار نہیں۔ میرا جسم تو روندا جا سکتا ہے میری روح کو نہیں، میرے جسم کو چھلنی کیا جا سکتا ہے مگر میرے ضمیر کو نہیں میرے جسم کو تختہ دار پر چڑھایا جا سکتا ہے مگر میری سوچ کو نہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments