چڑیل عورتیں اور ایک بے چارہ غیرت مند مرد


کمال ہے بھئی ، ہم تو شدید حیرت کا شکار ہیں آج کل!

کسی شخص کا انتہائی زہر آلود لہجہ اور چھلنی کرتے گستاخ الفاظ ہوں، گھمنڈی انداز ہو، کسی اور کو فکری اختلاف کی صورت میں انسان ہی نہ سمجھے، پھر بھی دیوتا ہی سمجھا جائے، پھر بھی چاہا جائے۔ معاشرے کے مرد و زن کی ایک بڑی تعداد اس کے حق میں خم ٹھونک کے میدان میں اتر آئے اور تاویلات کا ڈھیر لگا دے کہ حضور سے آخر ایسا ہوا کیوں؟

“سامنے والی عورت نے اسے اشتعال دلا د یا”

” اس کی بات بار بار کاٹی”

” اس عورت کا مقصد ہی اسے غصہ دلانا تھا”

” اس عورت نے اسے بات نہیں کرنے دی “

” وہ عورت ہے ہی گمراہ اور اسفل السافلین “

ہم خلیل الرحمن قمر کی اصلیت سے واقف ہوتے ہوتے ایک اور کیفیت کا شکار ہوئے اور خود کلامی کرتے ہوئے اپنے آپ سے ایک ہی سوال پوچھتے رہے،

“یہ کیسی ہمدردی ہے جو ایک شخص کے متشدد الفاظ اور جارحانہ پن کے باوجود ہر کسی کے رگ و پے میں اتر آئی ہے”

چونکہ تشخیص کرنے کے مرض میں مبتلا ہیں، سو سوچ بچار کے بعدعلم ہوا کہ کرونا وائرس کے ساتھ ساتھ معاشرہ “Himpathy”  کا بھی شکار ہو چلا ہے۔

صاحبان علم sympathy اور empathy کے بارے میں تو جانتے ہی ہوں گے۔ sympathy کسی دوسرے انسان کو مشکل میں دیکھ کے ہمدردی کا نام ہے اور empathy وہ خاص قسم کی ہمدردی جو کسی دوسرے کے کڑے وقت کے خیالات و جذبات کو اپنے پہ طاری کر کے محسوس کی جائے۔

حال ہی میں کورنل یونیورسٹی امریکہ کی فلا سفر پروفیسر کیٹ مین ( Kate Manne) نے himpathy کی اصطلاح روشناس کرائی ہے۔

” یہ وہ ناجائز اور بے حقیقت ہمدردی ہے جو مسوجنسٹ مردوں کو عورت پہ ہر طرح کی زیادتی یا بدتمیزی کرنے کے باوجود دی جاتی ہے “

اسی بات کو بیٹی فریڈن نے 1963 میں اپنی مشہور عالم کتاب The feminine Mystique میں ایک ایسے مسئلے کے طور پہ اجاگر کیا ہے جو موجود تو ہے لیکن کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔

‏Himpathy  پدرسری معاشرے کا وہ بدصورت سچ ہے جہاں مرد کسی بھی گھٹیا صورت حال سے بری الزمہ ہونے کے ساتھ ساتھ بےتحاشا ہمدردی کا مستحق بھی ٹھہرتا ہے اور اس کے ہر فعل کی توجیہ گھڑ لی جاتی ہے۔

Himpathy  کا شکار ہونے والوں میں عورتوں کی تعداد مردوں سے کم نہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ پدرسری نظام کی بالادستی سے جنگ کرنا جلتے انگاروں پہ چلنے کے مترادف ہوا کرتا ہے۔ یہ ایقان و عزم ہر عورت کے حصے میں نہیں آیا کرتا کہ وہ ان حدود وقیود سے باہر نکلنے کا سوچے جس کا شیریں زہر اسے بچپن سے پلایا گیا ہو، سوال نہ پوچھنے اور اپنی مرضی کا اعلان نہ کرنے کی تربیت دی گئی ہو۔

 معاشرے کی تھپکی لے کے خوش ہو جانے والیوں کو عافیت اسی میں نظر آتی ہے کہ طاقتور کی نظر کرم میں رہا جائے، اپنی ہی صنف پہ کیچڑ اچھال کے اچھی عورت ہونے کا تمغہ حاصل کیا جائے۔ اچھی عورت بننے کی توقعات کی زنجیر میں جان چھڑکنے والی ماں، وفادار بیوی، مؤدب بیٹی اور خدمت گزار بہن کے کردار بتا دیے گئے ہوں۔

 معاشرے میں مرد کی آشیرباد سے ملنے والی سوشل کرنسی سے عورت معتبر ٹھہرتی ہے اور جوابا Himpathy کی راہ پہ چلتی ہے۔ عورت کے لئے Himpathy کی راہ آسان ہے، سنگ باری کا سامنا اور بری عورت ہونے کا حصے میں نہیں آتا چاہے اندر کی آواز سب زنجیریں توڑ دینے کا ہی کیوں نہ کہتی ہو۔

اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے والی عورت سر پہ چھت اور دو وقت کی روٹی کے جھانسے میں نہیں آتی ۔ پر کٹی چڑیا بن کے پنجرے میں چوری کھانے سے بہتر ہے، اپنے پروں کی پرواز کو آزمایا جائے۔ دانے دنکے کی کیا فکر؟

1956  میں بننے والی فلم ‘مائی فئیر لیڈی’ میں ایک گیت شامل تھا۔ یہ ہم ان تمام عورتوں کے نام کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے Himpathy  کا تمغہ نہیں پہن رکھا۔

‏Women are irrational

‏that’s all there is to that

‏Their heads are full of cotton, hay, and rags

‏They’re nothing but exasperating, irritating,

‏vacillating, calculating, agitating,

‏Maddening and infuriating

‏hags

ترجمہ:

(عورتوں میں عقل کہاں!

بات اتنی ہے کہ

ان کے کھوپڑی میں روئی، بھوسہ اور چیتھڑے ٹھنسے ہیں

مصیبت ہیں، ایک عذاب ہیں عورتیں

گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ

چلتر اور فسادی

لہو کھولتا ہے انہیں دیکھ کے

چڑیل ہیں یہ عورتیں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments