کیا ایسا شخص وزارت عظمٰی کا حقدار ہے؟


نواز شریف کو علاج کی غرض سے لندن گئے دو ماہ سے زائد ہو چکے ہیں۔ عدالت نے ان کو علاج معالجے کے لیے چار ہفتے کی ضمانت پر باہر بھیجا تھا جس میں ایک بار توسیع ہو چکی ہے۔ گذشتہ دنوں پنجاب حکومت کی کمیٹی نے وزیر اعظم عمران خان کے دباٶ پر نواز شریف کی مزید توسیع سے انکار کر دیا۔ اس حوالے سے لندن سے آنے والی نواز شریف کی تازہ ترین میڈیکل رپورٹس کو مسترد کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے ایک دھواں دار پریس کانفرنس بھی کھڑکا دی جس میں انہوں نے کرکٹ کے کھیل کی معروف اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو باہر بھیجنے والا میچ فکسڈ تھا۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ہم نواز شریف کو طبی بنیادوں پر باہر بھیجنے کے گنجلگ اور پر اسرار معاملے کی مکمل تحقیقات کریں گے اور برطانوی حکومت کو خط لکھ کر اسے اپنے مجرم اور قیدی کو ہمارے حوالے کرنے کی درخواست کریں گے اور ہر صورت میں نواز شریف کو واپس لائیں گے۔

اس بیان پر پنجاب حکومت اور وزیرصحت یاسمین راشد نے جواب آں غزل کے طور پر کہا کہ نواز شریف کی صحت واقعی تشویشناک تھی اور ان کی لندن روانگی میں چند دن کی تاخیر سے ان کی جان جانے کا شدید خطرہ تھا۔ نیز یہ کہ نواز شریف کے لیے بنایا جانے والا میڈیکل بورڈ ملک کے بہترین ماہرین پر مشتمل تھا اور انہوں نے آزادانہ طور پر نواز شریف کے ٹیسٹ کروا کر کے ان کی رپورٹس کی روشنی میں انہیں لندن بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم پاکستان بھی اس بات کا کئی بار اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے ذاتی طور پر مکمل چھان پھٹک اور تحقیق کے بعد نواز شریف کو لندن بھیجنے کا مشکل ترین فیصلہ کیا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو ان کی جان بھی جا سکتی تھی۔ مگر دو ماہ کے بعد نواز شریف مسئلے پر وفاق اور پنجاب کی حکومتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ کھڑی ہوئی ہیں۔ دونوں حکومتوں کے ترجمان شیریں بیان دھماکے دار اور دھواں دار بیانات و دلائل دے رہے ہیں اور سننے والے اپنے سر پکڑ کے بیٹھے ہوئے ہیں۔

مگر ہمارا معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ ہمیں تب سے ایک ہی فکر کھائے جا رہی ہے کہ جو شخص منصب وزارت عظمٰی پر متمکن ہے کیا وہ اس قدر بڑے، حساس اور اہم ترین منصب کا اہل ہے؟ سلیکٹرز نے کیا سوچ کر یہ منصب اس قدر متلوّن مزاج، غائب الدماغ اور بے اختیار آدمی کو سونپ دیا ہے؟ آپ کو یاد ہو گا کہ جب یہ حضرت اپوزیشن میں تھے تو ہر وقت ہر معاملے پر منتخب حکومت کے لتے لیا کرتے تھے۔ مگر جونہی سریرآرائے مملکت ہوئے، اپنی کہی ہو ئی ہر بات سے پھرنے لگے۔ ہر وعدے سے دستبردار ہو گئے۔ ہر اعلان سے مکر گئے۔ اس کثرت سے یو ٹرن لیے کہ موصوف کا نام ہی یو ٹرن خان پڑ گیا۔ یہاں تک کہ ان کے اتحادیوں نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ پاکستان کے مسائل کا حل عمران خان کی پرانی تقریروں میں ہے۔

حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے مہنگائی، ذخیرہ اندوزی، معاشی بد حالی سمیت ہر مسئلے کو پچھلی حکومتوں پر ڈالنا شروع کر دیا۔ اس میں وہ کسی حد تک درست بھی تھے کہ ملک کے بہت سے مسائل پچھلی حکومتوں سے چلے آرہے ہیں مگر اب انہیں حکومت میں آئے ڈیڑھ سال سے زائد ہو چکا ہے۔ اب عوام ان کے ایسے حیلے بہانوں کو ان کی نا اہلی اور بے تدبیری و کھلنڈرے پن سے تعبیر کر رہے ہیں۔ لیکن اب تو انہوں نے حد ہی کر دی ہے۔ آج کل انہوں بے شمار مسائل کی ذمہ داری پچھلی حکومتوں کے بجائے اپنی حکومت پر ڈالنا شروع کر دی ہے اور ایک نئے طرح کے یو ٹرن کو متعارف کروایا ہے۔

پہلے موصوف فرماتے تھے کہ کپتان دیانتدار اور اہل ہو تو ساری ٹیم ٹھیک ہو جاتی ہے۔ اب ان کا مٶقف ہے کہ ٹیم ہی ریلو کٹوں پر مشتمل ہو تو اکیلا کپتان کیا کر سکتا ہے؟ تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ ابھی کل ہی عمران خان، اس کی کابینہ، میڈیکل بورڈ اور عدالت عالیہ نے نواز شریف کو ان کی انتہائی تشویشناک حالت کی وجہ سے ہنگامی بنیادوں پر لندن بھیجا تھا مگر اب کپتان کے حکم پر پنجاب اور وفاق کی متعلقہ کمیٹیوں نے نواز شریف کی ضمانت میں توسیع سے انکار کیا اور اب اپنی وزیر اطلاعات اور ہم نواٶں کی زبان سے نواز شریف کے لیے بنائے جانے والے میڈیکل بورڈز، لیبارٹریز اور رپورٹس کو جعلسازی اور دھوکا دہی کا شاہکار قرار دیا ہے۔

یہ امر مقام حیرت نہیں بلکہ قابل صد تشویش ہے کہ ہمارا ہینڈ سم وزیر اعظم ملک کے اہم ترین معاملات سے اس قدر بے خبر ہے کہ اسے حقیقت احوال کا پتہ ہی نہیں چلتا اور لیبارٹری کے معمولی اہلکار سے لے کر میڈیکل بورڈز کے ڈاکٹرز، انکوائری کمیٹیاں، وفاقی و صوبائی وزرا، کابینہ کے ممبران اور بیوروکریسی کے افسران تک اس کی آنکھوں میں دھول جھونک کے اپنا مطلب نکال لیتے ہیں؟ کیا ریاست مدینہ کے امیر ایسے سادہ لوح اور احمق ہوتے ہیں کہ ہر کوئی انہیں آسانی سے دھوکا دے دیتا ہے؟

کیا ہمارے امیر المٶمنین نے نبی پاک صلعم کی وہ حدیث نہیں پڑھی کہ مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا؟ یہ کیسا وزیر اعظم ہے جو ریاست مدینہ کی تشکیل کا دعویٰ بھی کر رہا ہے اور ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسا بھی جارہا ہے؟ پہلے ملک کی تباہی کے ذمہ دار سیاسی جنرلز اور فوج تھی۔ پھر نواز زرداری جیسے کرپٹ ذمہ دار گردانے گئے۔ اس کے بعد اپوزیشن ہر خرابی کی ذمہ دار قرار پائی۔ آگے چل کر وزیر اعظم نے بیورو کریسی، مافیا اور میڈ یا کو ہر خرابی کی جڑ قرار دیا۔

اگر انہیں اپنے وزراعظم ہونے، ڈالر کے بڑھنے اور دوسرے معاملات کا میڈیا سے پتہ چلتا ہے تو پھر وہ وزیر اعظم کاہے کے ہیں؟ کیا ان کی اور ان کی نا اہل حکومت کی ذمہ داری صرف اتنی سی ہے کہ وہ ہر معاملے میں سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹتے رہیں؟ ملک کو معاشی طور پر دیوالیہ کرنے کے بعد خدانخواستہ کل اگر ان کی نا اہلی کی وجہ سے ہمارے ایٹمی اثاثے داٶ پر لگ جاتے ہیں تو کیا وہ یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جائیں گے کہ مجھے ٹیم اچھی نہیں ملی تھی یا میری صفوں میں میر جعفروں اور آستین کے سانپوں کی بہتات تھی؟ وقت آ گیا ہے کہ وہ کمزور اور کج اخلاق آدمی کی طرح ہر خرابی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کے بجائے اپنی نالائقی تسلیم کر کے گھر چلے جائیں تاکہ ملک میں صاف و شفاف انتخابات کے نتیجے میں اہل اور منتخب حکومت آ کر ملک کی روٹھی قسمت سنوار سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments