کیا کورونا وائرس اللہ کا عذاب ہے؟


دارالعلوم دیوبند سے شائع ہونے والے رسالے ماہنامہ دارالعلوم کے ستمبر 2016 کے شمارے میں مولانا محمد شفیق الرحمان علوی صاحب کا مضمون ’گناہ۔ پریشانیوں کا سبب‘ عنوان سے شائع ہوا ہے۔ مضمون کا ایک پیراگراف ملاحظہ ہو:

”ہر آدمی جانتا ہے کہ ہراچھے یا بُرے عمل کا رد عمل ضرور ہوتاہے، دنیا میں پیش آنے والے حالات پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز انسان کے اچھے یا بُرے اعمال ہیں جن کا براہِ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور ناراضی سے ہے۔ کسی واقعہ اور حادثہ کے طبعی اسباب جنہیں ہم دیکھتے، سُنتے اور محسوس کرتے ہیں، وہ کسی اچھے یا برے واقعہ کے لیے محض ظاہری سبب کے درجہ میں ہیں۔ سادہ لوح لوگ حوادث وآفات کو صرف طبعی اورظاہری اسباب سے جوڑتے اورپھراِسی اعتبار سے اُن حوادث سے بچاؤ کی تدابیر کرتے ہیں۔

شرعی تعلیمات کی روشنی میں بحیثیت مسلمان ہمیں یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم اور امر سے ہوتا ہے، جس کاعقل اورحواس خمسہ کے ذریعہ ادراک کرنے سے ہم قاصر ہیں، وحی الٰہی اورانبیاء علیہم السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جزاء وسزا کا جو نظام سمجھایا ہے، وہ ہمیں اس غیبی نظام کے بارے میں آگاہ کرتا ہے، وہ یہ کہ کسی بھی واقعہ اور حادثہ کا اصل اورحقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور ناراضی ہے۔ ”

مندرجہ بالا سطور کو پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں وہ تمام واٹس ایپ میسیج گھوم رہے ہیں جن میں بتایا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس کچھ اور نہیں بلکہ اللہ کا عذاب ہے۔ بھائیوں کا ماننا ہے کہ اگر ہم توبہ و استغفار کریں، گناہوں سے باز آئیں اور نیکیاں کریں تو کورونا وائرس سے نجات مل جائے گی۔ کچھ لوگ ذرا آگے نکل گئے اور بتانے لگے کہ چونکہ چینی حکومت نے مسلمانوں پر ظلم ڈھایا تھا اس لئے کورونا وائرس اس پر خدا کا قہر ہے۔

اگر کورونا وائرس کا دائرہ چین تک محدود رہتا تو اسے خدا کا قہر قرار دینے میں آسانی رہتی لیکن اب مشکل یہ ہے کہ اس کی زد میں ایران اور سعودی عرب سمیت بہت سے مسلمان ملک بھی آ چکے ہیں جہاں بظاہر مسلمانوں کی نسل کشی جیسا کچھ نہیں ہوا ہے اس لئے سوچنا پڑے گا کہ اگر یہ الہی قہر ہے تو اپنوں پر کیوں ٹوٹ رہا ہے؟ ویسے بھی یہ بات کون سی یقینی ہے کہ چین میں اس وائرس کے شکار افراد میں مسلمان شامل نہیں ہیں؟ یہ سوال بھی ہونا چاہیے کہ کیا وائرس انہیں لوگوں کو چن چن کر لپٹا ہے جنہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا تھا یا گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس گیا ہے؟

کورونا وائرس کو گناہوں کا نتیجہ قرار دینے والے طبقہ کا استدلال بھی بہت زیادہ ٹکاؤ معلوم نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو اس وائرس کے شکار وہی افراد صحتیاب ہو پاتے جو توبہ و استغفار کر لیا کرتے۔ گناہوں کے نتیجہ میں آنے والا عذاب خداوندی پر دنیاوی تدابیر اور دواؤں سے قابو پا لینا کیا ممکن ہے؟

اب ذرا وہاں آ جائیے جہاں سے بات شروع ہوئی تھی۔ ہم میں سے بہت سے لوگ مانتے ہیں کہ انسانوں کو درپیش حالات کا تعلق خدا کی خوشنودی یا ناراضگی سے ہوتا ہے۔ کورونا وائرس پھیلے، طاعون لوگوں کو آ پکڑے یا پھر سوائن فلو اور ہیضے کی وبا پاؤں پھیلانے لگے۔ ہم میں سے بہت سے دوست یاد دلانا نہیں بھولتے کہ اس کا سبب ہماری بد اعمالیاں ہیں۔ اس سوچ کے حامل افراد کے اپنے دلائل ہیں لیکن نہیں بھولنا چاہیے کہ دین دار افراد بھی وبا اور مشکلات سے دوچار ہوتے آئے ہیں۔

سب سے بڑی مثال تو پیغمبر اسلام اور ان کے ساتھیوں کی ہے جن پر مکہ میں اتنی مشکلات پیش آئیں کہ انہیں ہجرت کرنی پڑی۔ ہم سب مانتے ہیں کہ دینداری اور پاکبازی میں وہ اصحاب دوسروں کے لئے نمونہ تھے لیکن اس کے باوجود دنیاوی مشکلات ان کو بھی درپیش ہوئیں۔ مدینہ پہنچ کر بھی انہیں چین سے بیٹھنے کا موقع نہیں ملا اور سخت ترین حالات میں مکہ کی طرف سے ہونے والی چڑھائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

معلوم ہوا کہ دنیاوی مسائل اور خدا کی ناراضگی ہمیشہ ایک دوسرے کے لازم و ملزوم نہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان مسائل کے حل کے لئے مصلی بچھا کر تسبیح و مناجات نہیں کی گئی بلکہ اس کے لئے عملی تدابیر کی گئیں۔ مخالف فوج آئی تو خندق کھودی گئی، معاہدے کا محل ہوا تو معاہدہ کیا گیا اور اگر عسکری جواب ضروری ہوا تو اس کے لئے بھی انتظامات کیے گئے۔

بات کو ذرا اور سمجھنا ہو تو حج کی مثال لے لیجیے۔ کوئی تین دہائی پہلے تک کوئی حج ایسا نہیں جاتا تھا جب کسی حادثے میں حاجی مارے نہ جائیں۔ کبھی خیموں میں آگ لگ جاتی تھی، کبھی بھگدڑ مچ جاتی تھی تو کبھی کوئی اور واقعہ جانی نقصان کا سبب بنتا تھا۔ ظاہر ہے حج پر جانے والوں کے خشوع و خضوع اور دینداری پر شک کرنے کی وجہ نہیں ہے اس لئے ان حادثات کا خدا کا قہر یا بداعمالی کی سزا تو کہا نہیں جا سکتا اس لئے ان کو مذہب کے چشمے سے دیکھنے کے بجائے عملی راہیں کھوجی گئیں۔ ایسے خیمے بنائے گئے جو آگ سے محفوظ رہیں۔ رمی اور سعی کے لئے سڑکیں کشادہ کی گئیں اور انتظام میں جہاں سقم ملا اس کو درست کر دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب اس تواتر سے حادثات نہیں ہوتے۔

تصور کیجئے کہ اگر اس کا حل یوں نکالنے کی کوشش کی جاتی کہ حاجیوں کو دو چار رکت نفلی نمازیں زیادہ پڑھنے کو کہا جاتا اور توبہ و استغفار میں اضافے پر زور دیا جاتا لیکن نہ سڑکیں چوڑی کی جاتیں، نہ سعی کے لئے اوور برج بنتے، نہ فائر پروف ٹینٹ لگائے جاتے تو کیا وہ حادثات رک جاتے؟

بس ثابت ہوا کہ دنیاوی مسائل کے تصفیہ کا مناسب راستہ یہی ہے کہ عملی تدابیر کی جائیں۔ عبادات سے روحانی طہارت اور نفس کو فیض یقینا پہنچ سکتا ہے لیکن مادی یا طبعی مسائل کا حل ان میں کھوجنا منطقی عمل نہیں ہے۔

کورونا وائرس ہو یا کوئی اور وبا ان سب کے حل کے لئے وظیفے یا دوائیں نہیں طبی تدابیر درکار ہیں۔ ہر طبعی یا مادی معاملے کو مذہب کے نظریہ سے سمجھنے کی کوشش سے یہ نقصان ہوتا ہے کہ ہم اس کے حل کی عملی تدبیر کے لئے جد و جہد نہیں کرتے اور قضائے الہی مان کر ایسے ذرائع سے نجات پانے کی کوشش کرتے ہیں جن کا تعلق ہمارے مادی وجود نہیں بلکہ روحانی طہارت یا تزکیہ نفس سے ہے۔ یوں بھی خدا کی طرف سے انسان کو عقل اور تدبر کی نعمت اسی لئے نصیب ہوئی ہے کہ وہ انسانی زندگی کو پرسکون اور آسان بنانے کی راہیں تلاش کرے۔ مت بھولئے کہ اگر ٹی بی، کوڑھ اور ایڈز جیسے مہلک امراض کو خدا کا عذاب مان کر ان کا عملی حل نہ کھوجا جاتا تو آج لاکھوں لوگ مٹی تلے سو رہے ہوتے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments