کامیڈی کے بادشاہ امان اللہ خان بھی چل بسے


کامیڈی کے بادشاہ امان اللہ خان بھی چل بسے، کامیڈی کا ایک سنہرا باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا، ان کے فن پر بات کرنا میرے جیسے کم علم کے لئے ممکن نہیں، ان کے ہزاروں یا لاکھوں نہیں دنیا بھر میں کروڑوں مداح ہیں، لوگ ان کی کامیڈی کے گرویدہ تھے، انہوں نے سٹیج کو ایک نیا ٹرینڈ دیا جس سے بہت سے فنکاروں کے لئے روز گار کھل گیا، آج بھی ہزاروں فنکار امان اللہ خان کی محنت کی بدولت سٹیج سے رزق کمار ہے ہیں۔

امان اللہ خان کامیڈی میں ہمیشہ مہذب الفاظ استعمال کرتے تھے، نامور لوگوں کی خوبصورت کاپی کرتے، ان کی سب سے اچھی بات جو مجھے پسند ہے وہ یہ ہے کہ مرحوم نے پنجاب کے کلچر کو فروغ دیا اور پنجابی زبان کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا۔ اس دور میں پنجابی میں بات کرنے والے کو پینڈو سمجھا جاتا تھا، 80 ءکی دہائی میں سٹیج پر کام کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر دل کی دھڑکن بن گئے، سٹیج کا کوئی ڈرامہ ان کے بغیرمکمل ہوتا تھا نہ ہی ہٹ، امان اللہ خان کی کامیڈی میں معاشرتی برائیوں پر تنقید بھی شامل تھی اور حکومت پر بھی طنز کے نشتر بھی چلاتے تھے۔

امان اللہ خان کے بہت سٹیج ڈرامے دیکھے، زمانہ طالب علمی میں جب بھی انٹرٹیمنٹ کا موڈبنتا ہے تو الحمرا ہال میں امان اللہ کا ڈرامہ دیکھنے چلے جاتا، ڈھائی گھنٹے کے ڈرامے میں تقریباً دو گھنٹے خان صاحب کی جگتوں اور کامیڈی پر ہنستا رہتا بلکہ ہنس ہنس کر پیٹ میں باقاعدہ درد ہونے لگتا تو باہر کنٹین پر آکر کوک پینا پڑتی، ڈرامہ دیکھنے کے بعد اپنے کزنز کو امان اللہ خان کی جگتیں سناتا اور لگاتا بھی۔

اللہ تعالیٰ نے جتنی عزت امان اللہ خان کو عطا کی اس کی کوئی فنکار خواہش ہی کرسکتا ہے، اللہ کے اس کرم پر ان میں عاجزی آتی گئی، زندگی میں بہت سے فنکاروں سے دیرینہ تعلق رہا ہے مگر جتنی عاجزی امان اللہ خان صاحب میں دیکھی اتنی کسی فنکار میں نہیں دیکھی، شاید یہی ادا اللہ تعالیٰ کو پسند آئی اور امان اللہ شہرت کی بلندیوں پر چاند بن کر چمکتے رہے۔

عاجزی کے ساتھ ساتھ امان اللہ خان انتہائی ٹھنڈے مزاج کے آدمی تھے، امان اللہ خان جیو پر آفتاب اقبال کے ساتھ پروگرام خبر ناک میں آئے، ان کے ساتھ افتخار ٹھاکر اور سخاوت ناز بھی تھے، عمر کے ساتھ ساتھ بیماریوں نے بھی ان کو گھیر لیا، پروگرام کی ریکارڈ نگ کے دوران انہیں بار بار واش روم جانے کی ضرورت پڑتی اور ریکارڈنگ روکنا پڑتی۔

ایک روز آفتاب اقبال، امان اللہ خان پر برہم ہوگئے کہ آپ کی وجہ سے ہم سب ڈسٹرب ہوتے ہیں اور ریکارڈنگ میں تاخیر ہوتی ہے، اس پر امان اللہ خان صاحب نے انتہائی تحمل سے جواب دیا کہ آپ سب کو میری وجہ سے تکلیف پہنچتی ہے تو معذرت چاہتا ہوں، آپ مہربانی فرمائیں اور مجھے اجازت دیں میں چلا جاتا ہوں یہ کہہ کر خان صاحب سٹوڈیو سے روانہ ہونے لگے تو سخاوت ناز اور افتخار ٹھاکر بھی کھڑے ہوگئے اور آفتاب اقبال سے کہا کہ خان صاحب ہمارے گرو اور استاد ہیں، ہم سب فنکار انہی کے صدقے میں آج روزی کما رہے ہیں، کامیڈی ان کا لگایا ہوا پودا ہے جو کہ پاکستان کی کامیڈی دنیا بھر میں سنی اور دیکھی جاتی ہے۔

یہ کہہ کر دونوں امان اللہ خان صاحب کے ساتھ چلنے لگے تو خان صاحب نے انہیں روکا کیوں میری وجہ سے اپنی روزی کو لات مار رہے ہو، بیٹھو کام کرو میں جاتا ہوں، جس پر دونوں فنکاروں نے کہا کہ ایسے لاکھوں شوز خان صاحب آپ پر قربان، ہم آپ کی توہین برداشت نہیں کرسکتے اور تینوں فنکار جیوسے باہر آگئے، یہ خبر میں نے 2012 ءمیں بریک کی تھی جو بہت ہٹ ہوئی۔ چند دنوں بعد تینوں فنکار دنیا نیوز کے پروگرام مذاق رات میں آگئے۔

لاہور میں رہتے ہوئے اکثر امان اللہ خان صاحب سے ملاقات رہتی تھی مگر ہم میں محبت اور پیار اس وقت بڑھا جب میں نے 2012 ءمیں روزنامہ دنیا جوائن کیا تو خان صاحب کا دنیا میں پروگرام مذاق رات شروع ہورہا تھا چند دنوں بعد پروگرام شروع ہوگیا جس کی ہفتہ میں تین دن ریکارڈنگ ہوتی، آفس میں سگریٹ نوشی پر پابندی تھی باہر آکر سگریٹ پینا پڑتی تھی، امان اللہ خان صاحب سے اکثر باہر ملاقات ہوتی اور کبھی کبھی سگریٹ نہ ہوتا تو امان اللہ خان صاحب مجھے خالی ہاتھ دیکھ کر سگریٹ پیش کردیتے، مروتاً انکار کرتا تو جگت لگادیتے، دل تے تہاڈا کر دا اے، معشوق نہ بنو سگریٹ پیئں (دل تو آپ کا کرتا ہے، معشوق نا بنیں سگریٹ پئیں)، جس پر میں ہنس کر سگریٹ لے لیتا اور اکٹھے سگریٹ پیتے۔

امان اللہ خان میری بیٹیوں کو پیار دیتے ہوئے

کسی دور میں لاہور پریس کلب باربی کیو ہوا کرتا تھا، ایک بار بچوں کے ساتھ پریس کلب گیا تو خان صاحب بھی آگئے بچوں کے ساتھ دیکھ کر میرے پاس چلے آئے اور پوچھا یہ میری بیٹیاں ہیں؟ میں نے بتایا کہ جی، پھر بیٹیوں کا تعارف کرایا، خان صاحب نے ان سے پوچھا کون سی کلاس میں پڑھتی ہیں، اس موقع پر امان اللہ خان صاحب نے بیٹیوں کو اتنی دعائیں دیں کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے کہا کہ خان جی آپ نے ایسے دعا دی ہے جیسے آپ ان کے سگے نانا، دادا ہوں، جس پر خان صاحب نے دونوں بیٹیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کہا ”تیاں سانجھیاں ہوندیانے، شاہ جی“ (بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں شاہ جی)۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments