میرا جسم میری مرضی


”میرا جسم میری مرضی“ یہ وہ نعرہ ہے جو آج کل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ اس نعرے کے ساتھ اور بھی بہت سے نعرے لگائے گئے مگر یہ نعرہ باقی سب نعروں کو کھا گیا۔ یہ نعرہ ان چند خواتین نے لگایا جو بیرونی طاقتوں سے ملنے والے ڈالروں کو حلال کرنے کے لئے عورت کی آزادی کے راگ الاپتی ہیں۔ اُس عورت کی آزادی کی جس کی ابتدا اور انتہا مرد کی مرہون منت ہے۔ ایک مرد کی پسلی سے وجود پانے والی عورت، ایک مرد کے لہو سے جنم لینے والی عورت کے کان میں پہلی اذان جو پڑتی ہے وہ مرد کی زبان سے ادا ہوتی ہے اورعورت کو لحد میں اتارنے کافریضہ بھی یہی مرد بنھاتا ہے۔ اور تو اور جب کمرے میں چھپکلی گھس آتی ہے تو یہی مرد اس عورت کو ریسکیو بھی کرتا ہے۔ اور اگر مرد مرد نہ ہو تو عورت ساری عمر گھونگھٹ میں لپٹی بیٹھی رہے۔ یہ مرد ہی ہے جو اُس کا گھونگھٹ اٹھا کر اپنے سپنوں کی کُل کائنات اُس کے حوالے کر دیتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسی آزادی جب عورت غلام ہی نہیں تو پھر آزادی کاہے کی۔ ہمارے معاشرے میں عورت کا سب سے مقدس اور محترم مقام ماں کا ہے۔ ماں گھر کی وہ ملکہ ہوتی ہے جو گھر اور خاندان سے متعلق سارے اہم فیصلے کرتی ہے۔ کیا پکنا ہے، کس سے رشتہ قائم رکھنا ہے، کس سے نہیں رکھنا، بچوں کی کہاں شادیاں کرنی ہیں کہاں نہیں۔ یہ سب فیصلے ماں ہی کرتی ہے۔ وہ ماں جو کسی کی بیوی بھی ہوتی ہے تو یوں بیوی گھر میں با اختیار و آزاد ہوتی ہے۔

دوسرے رشتوں میں بہن ہو یا بیٹی بھائیوں اور باپ کی لاڈلی اور راج دلاری ہوتی ہے۔ تو پھر آزادی کاہے کی۔ کیا عورت ماں کا محترم مقام حاصل نہیں کرنا چاہتی یا بہن کے باوقار مقام سے آزادی چاہتی ہے۔ یا بیٹی کے مرتبے کو غلامی کا طوق سمجھتی ہے یا بیوی کے پیار بھرے بندھن کو غلامی خیال کرتی ہے۔ آخر آزادی کس بات کی۔

کوئی معاشرہ بھی کسی فرد کو چاہے کوئی مرد ہو یا عورت اپنے جسم کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دے سکتا تو پھر تمہیں تمہارے جسم پر مرضی کا اختیارِ کُل کیسے دے دیا جائے۔ کیا میرا جسم میری مرضی کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں جو کچھ پہنوں یا نہ پہنوں مجھے کوئی نہیں روک سکتا میری مرضی۔ میں راکھ سے منہ بھرلوں یا مرغِ مسلم کھاؤں میری مرضی۔ نہیں ایسے نہیں ہو سکتا۔ مرد تمہیں حیا، وفا، پاک دامنی اور وقار سے گرتے نہیں دیکھ سکتاکیونکہ یہ ہمارا معاشرہ ہے یورپی نہیں۔

مرد تمہارے لئے غزلیں لکھے، تمہاری زلفوں کے قصیدے پڑھے، تمہاری آنکھوں پہ رباعیاں لکھے اور تم اُسے ہی جابر یا ظالم کہو یہ نہیں ہوسکتا۔ مالکِ کائنات نے تمہارے ہاتھ کی لکیروں میں لکھ دیا ہے کہ تم بچہ پیدا کرواور جن کے ہاتھ کی لکیریں اس عطا سے خالی ہوتی ہیں وہ ڈار سے بچھڑی کونج کی طرح کرلاتی ہیں۔ اس لئے بچہ تو تمہیں ہی پیدا کرنا ہے اس فطری عمل سے انکار کیسے ممکن ہو۔

معاشرے میں رہتے ہوئے ہر کسی کو، چاہے وہ مرد ہو یا عورت کچھ اقدار کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔ اس لئے تمہیں بھی ان اقدار کی پابندی کرنی پڑے گی۔ اگر تم نازیباور بھڑکیلا لباس زیبِ تن کر کے گھر سے نکلو گی تو مرد تمہیں دیکھے گا نہیں یہ کیسے ممکن ہو۔ اُسے تو تمہارا پجاری بنا کر اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ وہ تمہارے کھلے حسن کی طرف آنکھ اٹھاکر نہ دیکھے یہ بھی فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔

اب رہی بات معاشرتی ناہمواریوں کی، معاشرتی پیچیدگیوں کی تو اُس کے خلاف آواز بلند کرنا ہر کسی کا حق ہے۔ اگر کارو کاری ہے، اگر زبردستی کے نکاح ہیں، اگر عورت اور مرد کے لئے تعلیم اور پنپنے کے مواقع میں عدمِ توازن ہے تواُس کے لئے تعلیم کے پھیلاؤ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جس جس جگہ تعلیم پہنچی وہاں یہ مسائل کم سے کم تر ہوتے چلے گئے۔

مطالبہ مرد سے آزادی کا نہیں ہونا چاہیے مطالبہ ملک میں تعلیم کے یکساں مواقع پیدا کرنے کا ہونا چاہیے۔ یوں اس نعرہ میں ہمیں یہ تبدیلی کر لینی چاہیے۔ ”میری تعلیم میری مرضی“۔ میرا خیال ہے کہ اس حوالے سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور پھر یہ مارچ بھی فقط عورت مارچ نہیں رہے گا بلکہ مرد عورت مارچ یا تعلیم مارچ بن جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments