عورت مارچ سے کسی کو کیا مسئلہ ہے؟


”عورت مارچ“ کا نام سنتے ہی حقوق نسواں کے مخالفین سیخ پا ہو گئے ہیں۔ انہی لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے خلیل الرحمان قمر نے ماروی سرمد کے لئے جو الفاظ استعمال کیے وہ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو کیا ”مقام“ حاصل ہے۔

اس پر مزید بات کرنے سے پہلے حقوق نسواں کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ضروری ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لئے آواز کا نقطہ آغاز میری وولنز کرافٹ کی ”اے ونڈیکیشن آف دی رائٹس آف ویمن“ سے ہوتا ہے۔ ہینرک ابسن کے ”اے ڈولز ہاؤس“ کو بھی ان حقوق کو سمجھنے اور ان کو حاصل کرنے کی ایک اہم کڑی سمجھی جاتی ہے۔

لیکن عورتوں کے حقوق کو پزیرائی انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں فسٹ ویو آف فیمنزم کی صورت میں ملی جس میں ان کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ دوسری لہر 1960 سے 1970 تک چلی جس میں آزادی، قانونی اور معاشی اور معاشرتی برابری کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ تیسری لہر دوسری لہر کے تسلسل کے علاوہ اس کے خلاف ردعمل بھی تھا کیونکہ اس میں بہت سی باتیں نامکمل تھیں یا پھر بعض اہداف کا حصول نامکمل تھا۔

عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو فیمنزم کے مختلف سٹرینڈز کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔

1۔ لبرل فیمنزم: اس سکول آف تھاٹ نے فیمنزم کی بنیاد جون لاک اور کانٹ کے لبرل خیالات کہ ”انسان آزاد ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے“ پر مبنی ہے۔ لبرل فیمنسٹس کے مطابق عورت بھی مرد کے برابر ہی عقل و شعور رکھتا ہے اور اس لئے اس کو بھی مرد کے برابر ہی حق ملنا چاہیے جو ابھی تک پدرسری سوسائٹی میں نہیں ملا ہے۔

2۔ مارکسسٹ فیمنزم: ان کے مطابق عورت کی زبوں حالی کی وجہ قانونی یا معاشرتی نا انصافی نہیں بلکہ معاشی نا انصافی ہے جو کہ سرمایہ دار معاشرے کا ایک خاصہ ہے۔ عورتوں کو ان کے گھریلو کام کاج کا معاوضہ ملنا چاہیے اور ان کے reproductive رول کو productive تسلیم کرتے ہوئے ان کو اس کا بھی معاوضہ ملنا چاہیے۔

3۔ ریڈیکل فیمنزم: ان کے مطابق عورت کے استحصال کی وجہ ان کی بیالوجی ہے۔ یہ ان کی جنسی اعضاء ہی ہیں جن کی وجہ سے مرد نے مختلف طریقوں سے ان کا استحصال کرتا آیا ہے۔ انہوں نے اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے جو تجاویز دیے ہیں وہ اپنے نام کے مصداق ریڈیکل ہیں۔ وہ جنس کی تبدیلی (عورت سے مرد بننے یا مردوں جیسا وضع قطع اپنا کر) کو ہی اس استحصال سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

4۔ سوشلسٹ فیمنزم: وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ کیپٹلزم اور پیٹریارکی دونوں عورت کے استحصال کا سبب بنتے ہیں اور ان کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان کے نزدیک صرف یہی دو ہی اس استحصال کی جڑیں نہیں ہیں بلکہ یہ بڑے درخت کی دو شاخیں ہیں اور ان کے کاٹنے سے عورت پر ظلم و ستم ختم نہیں ہوگا۔ ان کے نزدیک اس کی بڑی وجہ معاشرے میں امور کا جنس کی بنیاد پر بانٹنا بھی ہے۔

اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ سب (سوائے ریڈیکل فیمنزم) کے جائز مطالبے کر رہے ہیں اور ان کا ہمارے معاشرے سے ایک گہرا تعلق ہے۔ ان کے ماننے سے زیادہ نقصان مرد حضرات کا ہوتا ہے اور ان کے پورا ہونے سے عورتیں خود مختار بن جاتی ہیں جو کہ ہمیشہ سے مرد کے لئے خطرہ رہا ہے۔ اس لئے آج کل patriarchs کی ایک بڑی تعداد 8 مارچ میں ہونے والی ”عورت مارچ“ کی مخالفت کر رہی ہے۔

”عورت مارچ“ ایک وسیع اصطلاح ہے جس کے ذریعے سے عوام کی آگاہی اور حکومت کو حقوق نسواں سے متعلق قانون سازی کے لئے باور کرانا مقصود ہے۔ اس کا ہر گز مطلب بے حیائی نہیں بلکہ ان تمام حقوق کا حصول ہے جن کا مطالبہ مختلف ویوز آف فیمنزم اور فیمنزم کے مختلف سکول آف تھاٹس میں ہوا ہے۔

ان باتوں کو اگر پاکستانی معاشرے کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں عورت کو جائیداد سے محروم کیا جاتا ہے، حق مہر نہیں دیا جاتا ہے، کام کا صحیح معاوضہ نہیں ملتا ہے، دفتروں میں ان کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں طالبات کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ یہی حال ہسپتالوں کا بھی ہے۔ یہاں تک کہ بعض گھروں میں معصوم بچیاں بھی اپنے چچا، ماموں، وغیرہ سے محفوظ نہیں۔ اسی لئے ”میرا جسم میری مرضی“ کا نعرہ لگانا پڑتا ہے۔

جسم ایک عورت کا ہے اس لئے اس پر مرضی بھی اسی کی چلے گی۔ ہاں وہ اگر اس پر کسی اور (ماں، باپ، بھائی، بہن، چچا، ماموں، وغیرہ) کی مرضی چلانا چاہتی ہے تو بھی اسی کی مرضی ہے۔ کسی دوسرے کو اس کے لباس، طور طریقے، میل جول سے کوئی غرض نہیں ہونا چاہیے۔ چاہے وہ دوپٹہ لے یا نہ لے، چاہے وہ جینز پہنے یا برقع، مرضی اسی کی ہونی چاہیے۔ اس مارچ کے ذریعے سے ان تمام مسائل کو اجاگر کرانا مقصود ہے، نہ کہ (بقول مومنین اور مجاہدین اسلام کے) بے حیائی پھیلانا۔

یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ فیمنسزم یا فیمنسٹ ذہنیت کا تعلق جنس (مرد ہونے یا عورت ہونے ) سے نہیں بلکہ یہ ایک ذہنی کیفیت اور خیال کا نام ہے۔ آپ کو بہت سارے مرد ایسے ملیں گے جو حقوق نسواں کے علمبردار ہوں گے اور بہت ساری عورتیں ایسی ملیں گی جو پیٹریارکل ذہنیت کے ساتھ جی رہی ہوتی ہیں۔ برصغیر پاک ہند میں اگر دیکھا جائے تو اکثر مائیں پیٹریارکل ہوتی ہیں جو، شاید معاشرے یا مرد کے دباؤ کی وجہ سے، بیٹے کی ہر غلطی کو نظر انداز کر کے اس کو بیٹی پر فوقیت دیتی ہیں۔

ہمارا معاشرہ اب اس مقام تک نہیں پہنچا ہے کہ ہم ”عورت مارچ“ کو برداشت کر سکیں۔ خلیل الرحمان قمر کی باتیں، اس کا گھمنڈ اور ڈھیٹ پن، اور اس کی حمایت میں مردوں ( ”م“ پر زبر لگائیں یا پیش کوئی فرق نہیں پڑتا) کی ایک بڑی تعداد اس بات کی دلیل ہے کہ ملک خدا پاکستان میں لوگوں کی کثیر تعداد جہل میں مبتلا ہے۔ عورتوں کے حقوق کا سن کے ہی یہ سیخ پا ہو جاتے ہیں کہ کہیں عورت اپنے حقوق پہچان گئی اور ان کے لئے اپنی آواز اٹھا کر وہ حقوق حاصل کیے تو ان کا کیا بنے گا۔ ان کی یہ سوچ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت اور ان کو لگام دینے کے لئے تربیتی اداروں کے قیام اور قانون سازی کی کتنی اشد ضرورت ہے۔ اس کے بغیر شاید ہی 8 مارچ کو ہونے والی ”عورت مارچ“ کامیابی سے ہمکنار ہو اور آنے والے دنوں میں اس کے مثبت نتائج نظر آئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments